Ashra Zil Hajj Ke Fazail O Masail
عشرہ ذی الحجہ کے فضائل ومسائل
تعظیم کے چار مہینے ہیں اور انکی عظمت وحرمت قدیم زمانے سے عرب میں جاری ہے۔ اہلِ عرب اسلام سے پہلے بھی ان چار مہینوں کی بہت زیادہ عزت وحرمت کرتے تھے۔ حتیٰ کہ قتل وقتال اور دیگر افعال قبیحہ کو جودیگر ایام میں بطور خاص انجام دیتے تھے ان چار مہینوں میں موقوف کردیتے تھے، بلکہ بعض اوقات قتل وقتال جاری رکھنے کیلئے ان چار مہینوں کی ترتیب بھی بدل دیتے تاکہ عظمت کا حوالہ دیگر کوئی ان پر زبانِ طعن درازنہ کرسکے۔
یہ چار مہینے ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب ہیں۔ ماہِ رواں ذی الحجہ اشہر حرم ہونے کے ساتھ ساتھ حج والا مہینہ بھی ہے اسی وجہ سے اسے ذی الحجہ (حج والا مہینہ) کہتے ہیں۔ کہ اس ماہ مبارک میں حجِ بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوتی ہے اسلئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ماہِ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن اور ان کی راتیں بہت زیادہ پسندیدہ ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انکی پسندیدگی کی وجہ ہی قسم کھائی ہے، اور "والفجرولیال عشر"کے ذریعہ ان کی عظمت بیان فرمائی ہے نیزجمہور مفسرین کے نزدیک "لیالِ عشر"سے مراد ماہِ ذی الحجہ کے ابتدائی دس راتیں ہیں۔ (معارف القرآن: جلد 8)
حدیث بالامیں ان ہی دس ایام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ان ایام میں اعمالِ صالحہ کرنے کی خصوصی ترغیب دی گئی ہے اور فرمایاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان ایام میں اعمالِ صالحہ کرنا بہت زیادہ پسندیدہ ہے، اور اسکابہت زیادہ اجر وثواب ہے حتٰی کہ جہاد فی سبیل اللہ جو خالص خداکی خودشنودی والا عمل ہے الا یہ کہ وہ مجاہدجو اپنی ومال سب قربان کرکے شہادت کا درجہ حاصل کرلے۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کیلئے عشرہ ذی الحجہ سے بہترکوئی زمانہ نہیں ان میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور رات میں عبادت کرنا شبِ قدر کی برابر ہے۔ (ترمذی وابنِ ماجہ)
اس حدیث میں فرمایاگیا کہ اگر ان ایام میں کوئی شخص ایک دن روزہ رکھے تو ایک روزہ ثواب کے اعتبار سے ایک سال کے روزوں کے برابر ہے یعنی ایک روزے کا ثواب بڑھا کر ایک سال کے روزوں کے ثواب کے برابر کردیا جاتا ہے۔ اور فرمایا ان دس راتوں میں ایک کی عبادت لیلۃالقدرکی عبادت کے برابر ہے یعنی اگر ان راتوں میں سے کسی بھی ایک رات میں عبادت کی تو فیق ہوگئی تو گویااسکولیلۃالقدر میں عبادت کی توفیق ہوگئی۔ تو اس عشرہ ذی الحجہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اتنا بڑا درجہ عطافرمایا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عبا سؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، اللہ رب العزت کی نزدیک ماہِ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں عمل صالح کرنا دیگر ایام مقابلہ میں سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی اس سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایااللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی اس سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نہیں ہے البتہ وہ مجاہد زیادہ افضل اور عنداللہ محبوب ہے جواپنی جان ومال کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کیلئے نکلاہو، اور اپنی جان ومال میں کسی کے ساتھ واپس نہ لوٹاہو"۔ ان ایام میں بعض اعمال فرض، بعض واجب اور بعض مستحب ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہیں۔
1۔ بال اور ناخن نہ کاٹنے کا حکم:
ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی جوحکم سب سے پہلے ہماری طرف متوجہ ہوجاتا ہے، وہ ایک عجیب وغریب حکم ہے، وہ یہ کہ بنی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب تم میں سے کسی کو قربانی کرنی ہوتو جس وقت وہ ذی الحجہ کا چاند دیکھے اسکے بعد اس کیلئے بال اور ناخن کا ٹنا درست نہیں، چونکہ یہ حکم نبی کریم ﷺ سے منقول ہے، اس واسطے اس عمل کو مستحب قرار دیا گیا ہے کہ آدمی اپنے ناخن اور بال اس وقت تک نہ کاٹے جب تک قربانی نہ کرلے۔ (ابن ماجہ کتاب الاضاحی)
یہ استحبابی حکم صرف قربانی کرنے والوں کے ساتھ خاص ہے جیساکہ حدیث کے الفاظ میں اسکی صراحت ہے وہ بھی اس شرط سے کہ زیرناف اور بغلوں کی صفائی اور ناخن کاٹے ہوئے چالیس روز نہ گزرے ہو۔ اگر چالیس روزگزر گئے ہوتو امور مذکورہ کی صفائی واجب ہے۔
2۔ یوم عرفہ کا روزہ:
دوسرا حکم یہ ہے کہ یہ ایام اتنے فضیلت والے ہیں کہ ان ایام میں ایک روزہ ثواب کے اعتبار سے ایک سال کے روزوں کے برابر ہے، اور ایک رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ہے اس سے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ ایک مسلمان جتنا بھی ان ایام میں نیک اعمال اور عبادت کرسکتا ہے وہ ضرور کرے اور 9ذی الحجہ کادن عرفہ کا دن ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے حجاج کیلئے حج کا عظیم الشان رکن یعنی وقوف عرفہ تجویز فرمایا ہے، اور ہمارے لئے خاص اس نویں تاریخ کو نفلی روزہ مقرر فرمایا، اور اس روزے کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ عرفہ کے دن جو شخص روزہ رکھے تو مجھے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات سے یہ اُمید ہے کہ اس کے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (ابن ماجہ کتاب الصیام)
نویں ذی الحجہ کے روزہ کے بارے میں احناف کا راجح قو ل یہ ہے کہ بلادِبعیدہ جن کےطلوع وغروب میں کافی فرق پایاجاتا ہے ان کی رؤیت ایک دوسرے کے حق میں معتبر نہیں ہے، اور سعودی عرب اور دیگر ممالک کے مطلع میں کافی فرق ہونا بار بار کے مشاہدہ سے ثابت ہے، لہذا جس طرح نماز وں کے اوقات تہجد اور سحر و افطاروغیرہ میں ہر ملک کا اپنا وقت معتبر ہے، سعودی عرب میں نمازوں کے اوقات کو دیگر ممالک میں نمازوں کے لیے معیار قرار نہیں دیا جاسکتا، اسی طرح عید، روزہ اور قربانی میں بھی ہر ملک کی اپنی رؤیت کا اعتبارہوگا، اور عرفہ کے روزہ کے بارے میں بھی ہر ملک کی اپنی رؤیت معتبرہوگی، لہذا جس دن دیگر ممالک کے حساب سے ذی الحجہ کی نویں تاریخ ہوگی اسی دن روزہ رکھنے سے یومِ عرفہ، کے روزے کی فضیلت حاصل ہوگی، اگر چہ اس دن مکہ مکرمہ میں عید کا دن ہو۔
3۔ تکبیرات تشریق:
ان ایام میں تیسراعمل تکبیر ات تشریق ہے جو عرفہ کے دن کی نماز فجر سے شروع ہوکر 13 تاریخ کی عصر تک جاری رہتی ہے اور یہ تکبیر ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھنا واجب قرار دیا گیا ہے وہ تکبیر یہ ہے۔
"اللہ اکبر اللہ اکبرلاالہ الااللہ واللہ اکبراللہ اکبروللہ الحمد"
اس تکبیر کا متوسط بلند آواز سے کہنا ضروری ہے بہت سے لوگ اس میں غفلت کرتے ہیں پڑھتے ہی نہیں یا آہستہ پڑھ لیتے ہیں اسکی اصلاح ضروری ہے۔ تکبیرات تشریق مرد، عورت، مقیم ومسافر پر واجب ہے۔
مفتی بہ قول کے مطابق مذکورہ تاریخوں میں تکبیراتِ تشریق کا پڑھنا جماعت سے نماز پڑھنے والے اور تنہانماز پڑھنے والے، شہری اور دیہاتی، مقیم اور مسافر، مرد، عورت سب پر واجب ہے البتہ مرد متوسط بلند آواز سے جبکہ عورتآہستہ آوازسے پڑھے۔
سلام کے متصل بعد تکبیرات بھول جانے کی صورت میں اگر نماز کی منافی کوئی کام نہیں کیا تو یاد آنے پر کہہ دیناچاہیئے، اور اگر نماز کے منافی کوئی کام کرلیا مثلاً آوازسے ہنس پڑا، عمداًوضوتوڑدیا، عمداًسہواًکلام کرلیامسجدسے نکل گیا، میدان میں نمازپڑھی اور صفوں سے باہر نکل گیاتو تکبیر ات فوت ہوگئے۔ اب کہنے سے واجب ادا نہیں ہوگا۔
4۔ قربانی:
ان ایام میں چوتھا اور سب سے افضل عمل جو اللہ تعالیٰ نے ایام ذی الحجہ میں مقرر فرمایاہے، وہ قربانی کا عمل ہے، یہ عمل سال کے دوسرے ایام میں انجام نہیں دیا جاسکتا، صرف ذی الحجہ کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو انجام دیا جاسکتاہے۔ ان کے علاوہ دوسرے اوقات میں آدمی چاہے کتنے جانور ذبح کرلے، لیکن قربانی نہیں ہوسکتی۔