Ashraf
اشرف
انسان کی پیدائش بھی ایک حسن ہے۔ رب کے کمالات میں سے ایک عظیم کمال ہے۔ اس کی رحمت ہے، شفقت ہے، احسان ہے۔ اور ایک خوبصورت تحفہ ہے۔ رب ہونے کے باوجود اس کا عظیم احسان کہ اس نے اپنی صفات کے کتنے مظہر انسان کو عطا کر دیے اور اسے تو اس میں سے کسی چیز کا، کچھ فائدہ بھی نہیں۔ مگر دیے۔
اب بات کرتے ہیں کہ، ہم تھوڑی دیر کے لئے اس وقت کے دائرے میں، ان لمحات میں چلے جاتے ہیں۔ جب اس عظیم انسان کی تخلیق ہوچکی۔ اس کو پیدا کر دیا گیا اور سب سے خاص بات اسے اشرف بنا دیا گیا۔ ممتاز کر دیا۔ مگر جیسےسردار آپ نے ہم پلہ لوگوں میں خوش رہتا ہے جوان، جوانوں میں۔ کاروباری، کاروباری حضرات میں۔ بادشاہ بادشاھوں میں۔ تو وہ رب بھی اپنی ربوبیت کسی عام چیز سے تو تسلیم نہیں کراے گا۔ اور عام چیز سے تسلیم کرا بھی لے تو مزا نہیں اس بات میں۔ فرشتوں جیسی اعلی مخلوق موجود تھی۔ وہ بھی اسی کی پیدا کردہ۔ ایک سے بڑھ کر ایک خاصیت۔
بلا کی طاقت، بلا کی اطاعت، بلا کا حلم اور انسان کو ایک زیور 'کلہا اسماء' عطا کردیا۔ پھر حکم کیا فرشتوں کو کہ، اے میرے بندو آدم سے سوال کرو۔ سوال بھی خود کرایا گیا۔ سوال کیا گیا۔ فرشتوں فرشتوں نے کہا ہم نہیں جانتے حکم ہوا آدم سے پوچھو جس نے سب بتا دیا۔ پھر اس عظیم مخلوق سے انسان کی اشرفیت قبول کرای گی۔ انسان کو ممتاز اور اشرفیت کا تاج پہنایا گیا۔
اب اس منظر کے اندر انسان آ جائے، میں آجاؤ، آپ آ جائیں اور مزہ لے ان لمحات کا، اس کیفیت کا۔ اب ہونے والا ہے، اب وقت آن پہنچا ہے۔
فرشتوں کو کہا سجدہ کرو انسان کو (آدم کو) فرشتوں سے 'اشرفیت' کی 'سند' دلوائی گئی۔ 'سند' مل گئی۔ اب اشرف کو کہا گیا سجدہ کرو میرے آگے، اپنے 'رب' کے آگئے اور اپنی 'ربوبیت' تسلیم کرا دی گئی۔