Sahafi Aur Aghaz e Sahafat
صحافی اور آغازِ صحافت
دنیا میں سب سے پہلے انسان کی آمد سے ہی صحافت کا آغاز سمجھ میں آتا ہے کیونکہ انسانی فطرت و مزاج میں یہ چیز شامل ہے کہ وہ اپنے جیسے دیگر ذی روح اور اردگرد کے حالات و واقعات سے باخبر رہنا ضروری سمجھتا ہے۔ اردگرد کے حالات و واقعات سے باخبر رکھنے اور رہنے کا نام ہی صحافت ہے۔ ابتدائی طور پر اس کی ضرورت و اہمیت پر زیادہ توجہ بادشاہوں نے دی جس کے لیے انہوں نے اپنے جاسوس استعمال کئے۔ جس کے لیے خط کا استعمال ہوا خطوط ارسال کرنے کے بھی مختلف طریقے تھے۔ جس میں تربیت یافتہ کبوتروں کا بڑا اہم رول رہا ہے۔ ماضی میں خط کو صحیفہ کہا جاتا تھا اسی بناء پر اک نیا فن ایجاد ہوا جسے صحافت کا نام دیا گیا۔
2۔ ابتدائی طور پر صحافت کو چار اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔
"تصویری صحافت"
صحافت کی ابتدائی شکل خط و کتابت تھی پھر اسی میں مزید بہتری لاتے ہوئے نقشوں اور علامات کے ذریعے تصاویر بھی خطوط کا حصہ بنیں۔ اردو زبان میں تصویر کا استعمال سب سے پہلے مولانا آزادؒ کے رسالے "الہلال" سے ہوا جسے بعد میں دیگر صحافت سے وابستہ اداروں نے بھی اپنایا جن میں قابلِ ذکر "امروز، جنگ، انجام اور کوہستان وغیرہ ہیں۔ روزنامہ حریت نے 1970ء میں اس فن میں مزید وسعتیں پیدا کر کے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔
"ریڈیائی صحافت یا سمعی صحافت"
تصویری صحافت کے بعد صحافت کا اگلا قدم ریڈیائی صحافت کی طرف بڑھا جس سے خبریں کانوں سے سننا ممکن ہوگیا۔ اگرچہ اس کی ابتداء بیسویں صدی میں ہو چکی تھی مگر عالمی جنگ کے بعد صحافت کے اس جدید طریقے کی ضرورت اہمیت کو مقبولیت کے پر لگ گئے، ریڈیائی صحافت میں بی بی سی لندن اور وائس آف امریکہ سر فہرست ادارے ہیں۔ ریڈیائی صحافت کی کامیابی میں خبروں کے ساتھ دیگر تقریبات و موضاعات کو زیرِ بحث لانا بھی بےحد مفید ثابت ہوا۔ ریڈیائی صحافت کو سمعی صحافت بھی کہا جا سکتا ہے۔
"ٹی وی صحافت یا بصری صحافت"
صحافت کا لازمی طور پر تیسرا ہدف ٹی وی والی یا بصری صحافت ہی بنتی تھی کیونکہ تحریری و تصویری صحافت کے ساتھ ریڈیائی صحافت کا ملاپ کیا جائے تو ٹی وی والی بصری صحافت وجود میں آتی ہے تصویر اور آواز کے ملاپ ہی سے ٹی وی کی صحافت کا وجود بنتا ہے۔ ٹی وی کے ذریعے دنیا کے مختلف کونوں میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات و معاملات کو انسان نہ صرف سن سکتا ہے بلکہ وڈیو کی صورت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی سکتا ہے۔ اسلئے صحافت کی اس ترقی یافتہ شکل کی سب سے زیادہ اہمیت و مقبولیت ہے۔
"صحافت کے جدید ذرائع"
اگرچہ ٹی وی والی صحافت کا عروج کسی سے چھپا ہوا نہیں مگر اس صحافتی ذریعہ سے اپنی بات دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا ہر کسی کے بس میں نہیں تھا۔ اسی پسِ منظر میں صحافتی میدان میں مزید انقلاب پیدا ہوا جس کے نتیجے میں مختلف سوشل میڈیا ایپس و ٹولز نے جنم لیا جس کے بعد اک عام سے عام آدمی کو بھی اپنی بات دنیا بھر میں پہنچانے اور پھیلانے کا موقع میسر آ چکا ہے۔ جس میں سرِ فہرست ٹوئیٹر، فیس بک، یوٹیوب، وٹس ایپ جیسی بے شمار اپلیکیشنز کا نام لیا جا سکتا ہے۔
3۔ کونسی صحافت کے حق میں اور کیوں؟
صحافت کے جدید ترین ذرائع جتنے بھی ہیں سبھی کے حق میں ہیں اس لئیے کہ انتہائی مختصر وقت میں معلومات موصول ہو جاتی ہیں جس سے بروقت حالات و واقعات کی حقیقت جاننا ممکن ہے مگر اس میں غیر مصدقہ خبروں کی آمیزش انتہائی خطرناک اور تشویشناک ہے۔
4۔ "صحافت کا مستقبل"
صحافت کا مستقبل اور بقاء دونوں ہی صحافت کے جدید ذرائع سے جڑا ہوا ہے۔ البتہ اخبار و رسائل کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں جدید اور قدیم صحافت کے تعلق کو آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کے جیسے کرکٹ میں ٹیسٹ میچ اور ٹی ٹوینٹی کا تعلق ہے۔ میرے خیال میں سوشل میڈیا ایپس مستقبل قریب میں صحافتی میدان میں انتہائی طاقتور ہتھیار بن جائیں گے۔ اس لئیے صحافتی شعبے سے وابستہ افراد کو بروقت اس ہتھیار کا استعمال بخوبی سیکھ لینا ازحد ضروری ہے۔