Wahab Riaz Mustafi
وہاب ریاض مستعفی
کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جو پاکستان میں قومی کھیل نہ ہونے کے باوجود بھی قومی کھیل سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ تمام پاکستانیوں کے سر چڑھ کر بولتا ہے۔ کرکٹ کی دیوانگی اس قدر ہے کہ جو لوگ اس کی الف ب بھی نہیں جانتے وہ بھی اس کے بارے میں بہت جذباتی حیثیت رکھتے ہیں۔
بچے بوڑھے کیا خواتین بھی اس کھیل کی دیوانی ہیں۔ اسی لیے یہاں پر کرکٹرز کی بہت زیادہ مقبولیت ہے۔ عمران خان سے لے کر بابر اعظم تک ہر کرکٹ کی دیوانگی سر چڑھ کر بولتی ہے کرکٹرز کے عروج اور زوال بہت کچھ سکھا جاتے ہیں۔ اپنے عروج کے دور میں یہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے پھر چاہے میڈیا ہو یا نجی پروگرام ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کو زیب نہیں دیتی۔ پھر چاہے وہ ایک دوسرے پر الزام لگانا ہو یا ماضی کے قصے مزے سے سنانا۔
برصغیر میں ایک عام رواج یہ بھی پایا جاتا ہے کہ کرکٹرز یا تمام کھلاڑیوں کو ان کی اختتامی رخصت ان کے شایان شان نہیں ملتی زیادہ تر کرکٹرز کبھی اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان ہی نہیں کرتے یا کچھ جو ہیں وہ پریس کانفرنس کے ذریعے اعلان کر دیتے ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک کی بین الاقوامی سطح پر نمائندگی کرنے والوں کو مکمل طور پر ان کے اعزاز کے مطابق ان کو رخصتی ملے ان کو آخری میچ کھلا کر عوام کے سامنے اچھے طریقے سے رخصت کیا جائے مگر مختلف وجوہات کی بنا پر جن میں سیاسی وجوہات بھی شامل ہیں، بار بار بورڈ میں نااہل لوگوں کی شمولیت بھی ہے اور کرکٹرز کی خود بھی مزید کھیلنے کی خواہش ان سب اسباب کی وجہ سے ان کو باقاعدہ رخصتی نہیں مل پاتی۔
مختلف سرگرمیوں کی وجہ سے آج کل میڈیا کی زینت بنے ہوئے نگران صوبائی وزیر وہاب ریاض نے آج ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے کھیل جو ان کی وجہ شہرت تھی کرکٹ سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کر دیا۔ موصوف کبھی آج کل بارش میں گاڑی چلاتے اور لوگوں پر کیچڑ اچھالتے ملتے ہیں یا مختلف ٹی وی چینلز پر کمنٹری کرتے ہوئے ہی نظر آتے ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہاب ریاض ایک اعلی پائے کے کھلاڑی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی کارکردگی کو کھو دیا خصوصا پچھلے پی ایس ایل کے نمائشی میچ میں افتخار احمد جو کہ چاچا کے نام سے مشہور ہیں سے مسلسل چھ گیندوں پر چھ چھکے کھانے کے بعد ان کی پرفارمنس مزید گر گئی اور ان کو کرکٹ میں پھر وہ مقام نہیں حاصل ہوا جو وہ کرنا چاہتے تھے۔
وہاب ریاض ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ سے تو پہلے ہی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر چکے ہیں آج انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں انتہائی جذباتی انداز میں اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا اس موقع پر وہ اپنے والد کو یاد کرکے جذباتی بھی ہوے اور ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے پندرہ سالہ لمبے کیریئر میں ان کا ساتھ دیا۔ جن میں پی سی بی، تمام سابقہ کھلاڑی، ان کے کوچز اور ان کے گھر والے شامل ہیں۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں یہ ریٹائرمنٹ ایک فارمیلٹی تھی کیونکہ وہاب ریاض نے پچھلے دو سال سے پاکستان کی نمائندگی نہیں کی۔ انہوں نے آخری بار 2020 میں پاکستان کی طرف سے ٹی ٹونٹی میچ کھیلا تھا۔ وہاب ریاض نے 2010 میں ٹیسٹ ڈیبیو کیا اس وقت جب محمد عامر اور آصف پر الزامات لگے ہوئے تھے اور سلمان بٹ پاکستان کی بدنامی کے مرکزی کردار تھے وہاب ریاض سے بھی سوال کیے گئے لیکن ان پر کبھی کوئی الزام نہیں لگا۔
وہاب ریاض کی سب سے بہترین پرفارمنس 2011 میں جو کہ انڈیا کے خلاف تھی انہوں نے پانچ وکٹیں حاصل کی اس میں سب سے شاندار یارکر پر یوراج سنگھ کا آؤٹ کرنا تھا۔ اس کے علاوہ 2015 میں شین واٹسن کے خلاف شاندار باولنگ سپیل تھا وہ اکثر 90 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کرایا کرتے تھے۔ وہاب ریاض نے 27 ٹیسٹ میچ 91 ون ڈے اور 36 ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میں پاکستان کی نمائندگی کی، بائیں ہاتھ سے گیند کرنے والے تیز فاسٹ بالر اکثر دائیں ہاتھ سے اچھی بیٹنگ بھی کیا کرتے تھے اور کافی فائدے مند جلدی سے رنز کرکے ٹیم کے سکور کو بہتر کرتے تھے۔
ایک اچھے فیلڈر بھی تھے اور ان کی یہ خوبی بھی تھی کہ وہ ہمیشہ ٹیم کے لیے کھیلتے تھے اور ٹیم کا مورال کو ہمیشہ بلند رکھتے تھے 38 سالہ کرکٹر نے انٹرنیشنل کرکٹ کو خیر آباد کہہ دیا ہے، لیکن وہ فرنچائز کرکٹ ابھی کھیلتے رہیں گے اس کے علاوہ وہاب ریاض اس وقت بھی بہت مشہور ہوئے جب ان کو پنجاب کی نگران کابینہ میں وزیر کھیل کے طور پر شامل کیا گیا۔ کرکٹرز کی شخصیت نوجوانوں کے لیے متاثر کن شخصیات ہوتی ہیں اس کے لیے حکومت کو چاہیے قومی ہیروز کو ان کے شایان شان الودع کرے تاکہ نوجوانوں میں ملک کے لیے کھیلنے کا جذبہ پیدا ہو۔
اسی طرح کھلاڑیوں کو بھی چاہیے کہ جب وہ پرفارم نہ کر رہے ہوں تو خود دوسرے کھلاڑیوں کے لیے جگہ خالی کر دیں۔ باہر کی ٹیموں آسٹریلیا، انگلینڈ کی طرح خود سے مستعفیٰ ہو جائے جیسا کہ ابھی حالیہ ایشز سیریز میں معین علی کو انگلینڈ بورڈ نے ریٹائرمنٹ واپس لینے پرمجبور کیا کہ جب ان کے پاس سپنر نہیں تھا تو انہوں نے ان کو کہا کہ وہ آکے کھیلیں اور سیریز کے بعد انہوں نے دوبارہ ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔
دوسری طرف ہمارے ہاں کرکٹرز، سیاست دانوں کی طرح ایک اور موقع ملنے کے انتظار میں رہتے ہیں اور جب ان کی پرفارمنس گر جاتی ہے تو وہ اپنی پرفارمنس کو بہتر بنانے کی بجائے بورڈ پہ تنقید کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ سلیکشن کمیٹی نے ہمیں شامل نہیں کیا، جبکہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ جب ملک کے لیے کھیلتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب میری جگہ کسی دوسرے کا حق بنتا ہے نوجوان کو موقع ملنا چاہیے۔ ملک کا جھنڈا سر بلند رہے ہم نے جتنا کھیلنا تھا کھیل لیا۔
اس کی سب سے اہم مثال حالیہ دنوں میں سعید اجمل کے دیے گئے انٹرویوز میں جنہوں نے ہمارے ازلی دشمن ملک بھارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں بھارت کی طرف سے کھیلتا تو میں ایک ہزار وکٹیں لیتا جبکہ وہ وہاں کے خود موصوف کرکٹرز کا حال شاید بھول گئے کہ ہمارا صرف مذہب کا ہی فرق ہے باقی تو ہمارا تقریبا کلچر ایک جیسا ہی ہے وہاں بھی بڑے بڑے کریکٹرز یوراج سنگھ اور ہربجن وغیرہ الودائی میچ کا انتظار کرتے رہے اور آخر کار پریس کانفرنسز میں انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔
پاکستانی قوم کی طرف وہاب ریاض کے لیے نیک دعائیں اور ان کے مستقبل کے لیے نیک عزم کی تمنائیں ہیں اور اسی طرح پاکستان اچھے اچھے کرکٹر پیدا کرتا رہے جو کہ ملک کے لیے کھیلیں اور ملک کا نام روشن کریں۔