Tv Talk Show
ٹی وی ٹاک شو
عام طور پر تنقید کرنی ہو تو جمع بھی نہیں ہم ضرب کا قانون استعمال کرتے ہیں تاکہ بات میں مرچ مصالحہ پیدا ہو جب کے تعریف کے لیے منفی کا قانون تاکہ حق دار کی حوصلہ افزائی بھی نہ ہو اور رسم بھی ادا ہو جائے۔ کسی کا اچھا کام ہو تو اس کو یاد کر لینا چاہیے۔ پاکستان میں پرائیویٹ ٹی وی کو متعارف کرانے کا سہرا چاہتے نہ چاہتے آپ کو پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو دینا ہوگا۔ کیونکہ ان سے پہلے صرف ایک سرکاری ٹی وی ہوتا تھا اور وہ بھی خبر پوچھے بغیر نہیں چلا سکتا تھا اور جب خبر کا 40 واں ہو جاتا تب جا کر وہ نیشنل ٹیلی ویژن پر چلا کرتی تھی اور آج عالم یہ ہے کہ نجی چینلوں کی اس قدر بھرمار ہے کہ خبر کے ہونے سے پہلے جو خبر دے گا وہی جیتے گا وگرنہ کوئی چانس ہی نہیں۔
مقابلے کا رجحان اس قدر زیادہ ہو چکا ہے پاکستان میں بے شمار نجی ٹی وی اس وقت کام کر رہے ہیں ان کا آپس میں تو مقابلہ ہے ان کے لیے سردردی نئے یوٹیوبرز نے بھی بڑھا دی ہے اب ان کا اصل مقابلہ انہی یوٹیوبرز کے ساتھ ہے۔ ٹی وی چینلوں پر تو بہت سی پابندیاں ہوتی ہیں، بہت سی ذمہ داریاں ہوتی ہیں لیکن یوٹیوبر اس سے ابھی تک بالکل آزاد ہیں۔ اہل علم کے اس موقف کا بھی قائل ہوں کہ یوٹیوب پہ جو بھی مواد ڈالا جائے اس کو بھی چیکنگ کے پروسیس سے ضرور گزارا جانا چاہیے اس پر حکومتی کاروائی کا اب تک انتظار ہے۔
یہ مواد ہمارے نوجوان نسل تک زیادہ رسائی حاصل کرتا ہے اس لیے اس کی بھی تصحیح ہونا بہت ضروری ہے بہرحال ٹی وی ٹاک شوز ہم سب دیکھتے ہیں اور اس میں ہونے والے بدمزگیاں بھی اب عام ہو چکی ہیں سیاستدان ایک دوسرے کو برے القابات سے پکارتے ہیں اور بعض اوقات دست و گریبان بھی ہو جاتے ہیں ایسا ہی دیکھنے کو ملا جب پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل کا نون لیگ کے سینیٹر افنان اللہ کے ساتھ مشہور و معروف اینکر جاوید چوہدری کے پروگرام میں آمنا سامنا ہوا تو سینٹر صاحب نے انتہائی گری ہوئی زبان کا استعمال کیا اور پاکستان کے ایک بڑے لیڈر کے بارے میں الزامات لگائے یہاں تک کہ یہودی، یہودیوں کا بچہ اور بہت نامناسب الفاظ استعمال کیے جس پر شیر افضل نے ان کو پہلے منع کیا لیکن جب وہ باز نہ آئے تو ان کا پختون خون جوش مارا اور ان کو اٹھ کے تھپڑ مارے جس کی بنا پر آپس میں جھگڑا ہوا اور ہمارے دانشور صاحب جناب جاوید چوہدری آرام سے اس منظر کو دیکھتے رہے اور اس کی فلم بندی بھی ہوتی رہی۔
بہرحال کچھ دیر کے بعد جب یہ لڑائی بند ہوئی وہ دونوں چلے گئے اور یہ کہا گیا کہ یہ ٹی وی پہ نہیں چلایا جائے گا لیکن جو لوگ جاوید چودری صاحب کو جانتے ہیں اشرافیہ کو خوش کرنے کا ایسا نادر موقع تو وہ ضائع نہیں کر سکتے تھے۔ جاوید چودری صاحب ہمیشہ سے ہی اصل صاحب اقتدار کے منظور نظر رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد سوشل میڈیا پر پہلے تصاویر آنا شروع ہوئی اور اس کے بعد کچھ چھوٹے چھوٹے کلپ آنا شروع ہو گئے۔
پہلے یہ بات قابل غور ہے کہ یہ لڑائی اور جھگڑے کیوں ہوتے ہیں یا ان کی بنیادی وجہ کیا ہے یہ عرض کر دوں کہ ٹاک شو کا جو میزبان ہے اس کی مثال بالکل اس شخص کی جیسی ہے جو 72 بندوں کی بڑی گاڑی کا ڈرائیور کی سی کی ہے جس میں 71 آدمیوں کے سو جانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا اگر ڈرائیور مضبوط اعصاب کا مالک ہو تو کبھی بھی حادثہ پیش نہیں آتا، یہاں بھی جاوید چودری صاحب نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی جیسے ہی اختلافی گفتگو شروع ہوئی وہ بہت آسانی سے مزہ پیدا کرکے، کسی اور بات کی طرف لے کر جاسکتے تھے۔ کیونکہ وہ کوئی عام صحافی تو ہیں نہیں۔ ویسے بھی ریکارڈڈ پروگرام تھا لائو تو چل نہیں رہا تھا۔
حالیہ دنوں میں موقع ملتا ہے ٹی وی پہ جا کے بات کرنے کا تو کئی دفعہ ہم دیکھتے ہیں کہ پروگرام کے دوران ریکارڈنگ رکوا کر اینکر اپنی بات بتا دیتا ہے کہ یہ جواب بہت لمبے ہو رہے ہیں یا ایک ہی طرف موضوع چل رہا ہے ڈائریکٹر موجود ہوتا ہے، سٹاف موجود ہوتا ہے اور اگر جھگڑا ہو بھی جائے تو دو منٹ میں اتنے سارے لوگ ہومسیٹ پر موجود ہوتے ہیں بڑی آسانی سے اس کو چھڑوایا جا سکتا ہے مگر آپ چونکہ جانتے ہیں جاوید چوہدری دانشور ہیں اپنی جگہ سے اٹھنا مناسب نہیں سمجھتے لڑائی جھگڑے میں پڑھنا سفید کالر لوگوں کا کام نہیں ہوتا ایسے تو نہیں جا کے کسی لڑائی جھگڑے میں جائیں اور خود بھی مار کھا کے آ جائیں تو انہوں نے مناسب سمجھا کہ لڑتے رہیں ہمیں چونکہ ریٹنگ ملے گی تو صورتحال سے پہلے محظوظ ہوئے اور اس کے بعد اس پہ پھر ایک سے بڑھ کر ایک پروگرام کیے۔
دلچسپ بات ہے کہ دو تین منٹ کی لڑائی پر ہمارے جاوید چودری نے 21 منٹ کا پروگرام کر دیا جس پہ پوری رواں کمنٹری کی، ن لیگ کے ترجمان کی طرح تفصیل سے سنائی کہ پہلی لات کس نے ماری، پہلا گھونسہ کس کو پڑا، کس نے کتنی گالیاں دی، کون نیچے تھا اور۔ ثابت کیا کہ سینیٹر افنان بلیک بیلٹ چیمپین ہے اور بہت بہادر آدمی ہیں پر کہتے ہیں نہ کہ جب قسمت خراب ہو تو اونٹ پر بیٹھے شخص کو۔۔ موصوف سینیٹر نے جاوید چوہدری کی محنت پر پانی پھیر دیا جب تھانے میں درخواست جمع کروائی۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ شیر افضل مروت نے نجی ٹی وی پروگرام میں مجھے مارا پیٹا، مجھے تھپڑ مارے گئے، نیم بے ہوش ہوکر فرش پر گر پڑا۔ مجھے اپنے زخموں کا علاج کروانا پڑا میرے سر پر بھی چوٹیں آئیں۔
اتنے بڑے صحافی کو ایسا منفی کردار ادا نہیں کرنا چاہیے تھا ٹھیک ہے وہ اس وقت کیمرے کی تاروں میں بندے ہوتے ہیں اٹھ نہیں سکتے تھے اپنی جگہ سے لڑائی نہیں چھڑوا سکے لیکن سے کم سے کم ان کو اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے اس خبر کو یہیں پہ روک دینا چاہیے تھا اور بڑی آسانی سے وہ روک بھی سکتے تھے یا چلیں مان لیا سوشل میڈیا کا دور ہے نہیں روکا جا سکتا خبر لیک ہوگئی لیکن کم سے کم اس بات کو بڑی آسانی سے سنبھالا جا سکتا تھا اور ایسا تو نہیں کہ جلتی پہ تیل چھڑکنے کا کام نون لیگ کی قیادت کو خوش کرکے 21 منٹ کا اس کے پر پروگرام کیا اس میں یہ بتایا گیا کہ جی وہ سینٹر صاحب تو بہت سپر پاور چیز ہے اور جو دوسرا بندہ تھا ساری غلطی اس کی تھی صحافی کو مناسب رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
اینکر میزبان ہوتا ہے اور میزبان ہے کوئی جج نہیں کہ وہ یہ دیکھے کہ کس کی غلطی ہے ہمیشہ صلح صفائی والے معاملے کی طرف لے کر جاتا ہے اور جو ہمارے ہاں آج بھی اینکرز موجود ہیں حامد میر کے پروگرام آپ دیکھ سکتے ہیں اور بہت بڑے بڑے صحافی ہیں جب بھی کوئی تنازعے کی گفتگو ہوتی ہے وہ ہمیشہ مزاح کا کوئی پہلو پیدا کر دیتے ہیں جس سے معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے قصور وار انتظامیہ ٹی وی اور جاوید چوہدری ہیں ہمارے نوجوان میڈیا میں شامل ہوتے ہیں ان کو بھی یہ بات سمجھنا چاہیے اور زیادہ ریٹنگ ملتی کہ جب جاوید چوھری اس کو ختم کروا دیتے یا کوئی بھی اینکر ہوتا وہ جھگڑے کو ختم کراتا معذرت کرتا اور بڑے اچھے طریقے سے پروگرام آگے چلتا پروگرام کے اختتام پر دونوں خوشی خوشی اپنے راستے جاتے اس سے زیادہ ریٹنگ ملتی لیکن ہم بحیثیت قوم غیر پڑھے لکھے ہیں۔
ہمارا مزاج ہی تعلیم یافتہ نہیں ہے، سوچ محدود ہے۔ مجھے ویورشپ مل جائے میرے چینل ہٹ ہو جائے میرا پروگرام ہٹ ہو جائے اخلاقیات کا جنازہ ہی کیوں نہ نکل جاے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں تب ہی ہم دنیا میں اس وقت کس مقام پر ہیں۔ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
ہمارا معیار میڈیا پہ ایسا ہونا چاہیے کہ جسے دیکھ کر نوجوان سبق سیکھے یہ نہیں کہ وہ اور متنفر ہوں اور دن بدن انہیں حرکتوں کی وجہ سے بڑے چینلز کی ویوورشپ بھی کم ہوتی جا رہی ہے اور یوٹیوبر جو ریڑھی پہ کھڑے ہو کے لوگوں کے کھانے دکھا رہے ہیں یا دکانوں کے بارے میں بتا رہے ہیں یا گلی محلے کے جو لوکل سیاستدان ہیں ان کی گفتگو کے لاکھوں کے ویورز چلے گئے ہیں اور مین سٹریم چینلوں کو دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔
چینل مالکان کو سوچنا پڑے گا اس کے حوالے سے اور اینکرز کو بھی اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ ٹی وی شو میں جانے والے سیاستدان یا مہمان ہیں انہیں بھی اپنے رویوں کا خیال کرنا چاہیے۔ شیر افضل بھی ایک بہت بڑے وکیل ہیں اور سینیٹر کو بھی اپنی زبان پر قابو ہونا چاہیے اتنی برداشت ہونی چاہیے کہ اگر ایک شخص غلط بات کر رہا ہے تو اس کو برداشت کرنا چاہیے ایک سبق آموز بات یاد اگئی ایک ساتھی کہتے ہیں کہ مجھ سے غلط بات برداشت نہیں ہوتی میں نے بڑے ادب سے گزارش کی جی کہ غلط بات کو ہی برداشت کرنا ہوتا ہے صحیح بات کو تو تسلیم کیا جاتا ہے۔
ذرا نہیں مکمل سوچیے گا۔۔