Siasi App
سیاسی ایپ
میاں صاحب کی واپسی کے فیصلے نے پہلے ہی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ عوام اس بات پر بحث کر رہیں ہیں کہ میاں صاحب اپنے محل جائیں گئے یا اڈیالہ میں اپنے سیاسی مخالف کے پڑوسی بنیں گے۔ 21 اکتوبر کا وہ خوش قسمت دن ہوگا جب پاکستانی اپنے خود ساختہ محبوب ترین سیاستدان اور تین دفعہ کے وزیراعظم پاکستان مسلم نون کے قائد، میاں شہباز شریف کے بڑے بھائی، پاکستان کی سب سے سرگرم سیاسی خاتون مریم نواز کے والد گرامی لندن سے پاکستان واپس آئیں گے۔
کئی بزرگوں نے تو یہ بھی دعا کی ہے کہ مولا اس دن تک کی زندگی دے کہ میاں صاحب کی واپسی کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں کیونکہ پچھلے 16 مہینوں میں اپنے بھائی میاں شہباز کی حکومت میں بھی میاں نواز شریف پاکستان واپس نہ آئے اور لندن میں ہی رہ کر انہوں نے پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ یاد رہے کہ 50 روپے کے سٹام پر بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے فرار ہمارے مقبول ترین لیڈر میاں صاحب اب جلدی واپس آنے والے ہیں۔ لیکن ان کی پریشانیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
ایک تو وہ خود اپنے سیاسی دشمن ہیں بلا سوچے سمجھے بغیر موقع محل دیکھے وہ بھی ایسے بیان دے دیتے ہیں جو ان کے لیے، ان کی پارٹی کے لیے مصیبت کھڑی کر دیتے ہیں حالیہ دنوں میں ان کے سیاسی احتساب لینے کے بیان نے کافی مصیبت کھڑی کر دی۔ اور ان کو محفوظ رستہ دینے والے پھر ناراض ہو گئے جب شہباز شریف اور مریم نے جا کر ان کو سمجھایا کہ ابھی اس کا وقت نہیں ہے۔ تحمل کی ضرورت ہے پہلے آپ افہام و تفہیم سے واپس آ جائیں اور کسی طریقے سے ملک کے دوبارہ حکمران بن جائیں پھر آپ نے تو جو کرنا ہے تو وہی کرنا ہوگا۔
نوجوان بچوں کے لیے عرض ہے بزرگوں کو تو یاد ہے کہ 12 اکتوبر کو نواز شریف نے مشرف کو ہٹایا تھا تو اس وقت بھی انہوں نے اپنے بھائی میاں شہباز شریف اور اپنے قریبی ساتھی چوہدری نثار سے بھی بات کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اب بھی اگر انہوں نے اقتدار کسی نہ کسی طریقے سے حاصل کر لیا تو وہ یہی کریں گے۔ کیونکہ تین دفعہ ہم پہلے تجربہ کر چکے ہیں بہرحال نالائق آدمی کا ایک یہ مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے مشیر بھی نالائق ہی ہوتے ہیں کبھی ان کے بی گریڈ کے لیڈر ٹی وی پہ جا کر ایسے بیان دے دیتے ہیں جو ان کے لے جگ ہسائی کا باعث بنتے ہیں۔
ان میں عطا تاڑر، عظمی بخاری وغیرہ شامل ہیں اسی طرح کا مظاہرہ ان کے سیاسی وفادار رانا ثنا اللہ نے بھی کیا جو کہ جو کہ بدقسمتی سے ہمارے سابق وفاقی وزیر داخلہ بھی رہے ہیں انہوں نے ایک ایسی ایپ کو لانچ کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت اس بات کا تعین کیا جاسکے گا کہ کتنے لوگ جلسہ گاہ میں موجود ہیں اور پورے جلسے کے دوران رہے ہیں اور کتنے لوگ جلسے میں آئے ہی نہیں اپنے علاقے میں رہے ہیں اور کتنے لوگ پہلے واپس چلے گئے کتنے لوگوں نے آخر تک میاں صاحب کی زیارت سے لطف اندوز ہوئے ان کے فرمودات سے آفادہ کیا۔
اس سے یہ بھی معلوم کہ کون سا سیاستدان اپنے علاقے سے کتنے ساتھیوں کو ساتھ لے کر آیا تاکہ اس بات کا بھی اندازہ لگایا جاسکے کہ اس کو اگے جا کے ٹکٹ دینا بھی ہے یا نہیں۔ ظاہر سی بات ہے جو ٹکٹ کا امیدوار ہزاروں لوگوں جلسہ گاہ نہیں لا سکتا وہ پولنگ سٹیشن تک کیسے کیسے گا اس بات سے قطع نظر یہ سیاسی ایپ کس قدر کارگر ثابت ہوتی ہے اور مسلم لیگ نون اس سے اپنی مقبولیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں بہرحال سیاسی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس طرح کی حرکتیں انسان تبھی کرتا ہے جب وہ اپنی مقبولیت کھو چکا ہو اور اپنی دھونس اور زبردستی کے ذریعے لوگوں کو اپنے نظریے پہ بلایا جائے بلکہ نظریہ تو کوئی ہے ہی نہیں جلسے میں بلایا جائے۔ کیونکہ ملک عزیز کے اس وقت حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ لوگ اب ایک بریانی کی پلیٹ پر جلسے میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
لوگوں کو یہ سمجھ تو آ ہی گئی ہے کہ پچھلے 16 مہینے میں انہی پی ڈی ایم کی حکومت نے ملک کایہ حال کیا ہے۔ اب بہرحال مسلم لیگ کا حق ہے کہ وہ سیاست کریں۔ سیاست ان کا حق ہے وہ الیکشن میں حصہ لیں گے اب وہ چاہے ایک بڑی سیاسی جماعت کو بالکل سیاست سے آؤٹ کرکے ہی الیکشن جیتیں یا کچھ بھی کریں الیکشن لڑنا، جیتنا ان کا حق بنتا ہے۔ ہمارے بڑے کہتے تھے کہ پہلے تولو پھر بولو تو سیاست دانوں کو خصوصا قومی سطح کے سیاست دانوں کو اور بڑے سیاست دانوں کے جو مشیر ہوتے ہیں ان کو کم از کم بزرگوں کے فارمولے پر عمل کرنا چاہیے کہ بولنے سے پہلے سوچنا چاہیے اور اگر سوچنے کی صلاحیت نہیں ہے تو آج کل بے روزگاری بہت ہے جو سمجھدار لوگ ہیں انہیں تنخواہ پہ رکھ کے ان کے مشورے لیے جا سکتے ہیں تاکہ کم سے کم اپنی پارٹی کی اور ملک کی جگہ ہسائی نہ ہو۔
آخر میں یہ دعا کہ اس قوم کو یہ بات سمجھ آ جائے کہ قران میں لکھا ہے اللہ کسی قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت بدلنا نہ چاہتے ہوں اور اس حالیہ متوقع الیکشن میں جس کا ابھی دور دور تک ہونا ممکن نظر نہیں آ رہا، جب بھی الیکشن ہوں اور آج نہیں تو کل الیکشن ہونے ہی ہیں اس میں بہتر لوگ منتخب ہوں اور وہ ملک عزیز کے لیے کام کریں اور اس کو صحیح سمت میں آگے بڑھائیں۔