Qurbani Qabool Ho Gi
قربانی قبول ہوگی
ہر سال 10 ذوالحجہ کو اللہ تعالی کے حکم پر نبی کریم ﷺ کی سنت کو اپناتے ہوئے، آپ کے جد امجد حضرت ابراہیمؑ کی عظیم قربانی کی یاد میں ہم لوگ اپنے پاک حلال طیب مال سے پاکیزہ جانوروں کو اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔
قرآن پاک میں خود رب العالمین نے ارشاد فرمایا۔
خدا تک نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون۔ بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ اسی طرح خدا نے ان کو تمہارا مسخر کر دیا ہے تاکہ اس بات کے بدلے کہ اس نے تم کو ہدایت بخشی ہے۔ اسے بزرگی سے یاد کرو۔ اور (اے پیغمبر) نیکوکاروں کو خوشخبری سنا دو۔
اسی طرح ہمارے پیارے نبی رحمت العالمین ﷺ نے نے ارشاد فرمایا۔
قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا، جو اللہ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ پسندیدہ ہو، اور قیامّت کے دن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہو جاتا ہے، لہذا تم اس کی وجہ سے (قربانی کرکے) اپنے دلوں کو خوش کرو۔ (مشکوٰة المصابیح، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری قربانی قبول ہوتی بھی ہے یا نہیں؟
جیسے حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں نے اللہ کی راہ میں قربانی پیش کی اہل کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا قصہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دے، جب ان دونوں نے قربانی کی ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی، اس نے کہا میں تجھے مار ڈالوں گا، اس نے جواب دیا اللہ پرہیزگاروں ہی سے قبول کرتا ہے۔ قربان جائیں ہمارے نبی کریم ﷺ کی عظمت پر کہ۔
جو ہمیں چودہ سو سال پہلے ہمارے ذہن میں آج اٹھنے والے کے ہر سوال کا جواب پہلے سے ارشاد فرمایا، قربانی قبول ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ ہم اللہ کے مطیع اور فرماں بردار بن جائے۔ حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے کی قربانی دینے سے پہلے اللہ سے دعا کر رہے ہیں۔ اللہ مجھے اور میرے بیٹے کو اپنا فرمانبردار بنا، حضرت ابرہیمؑ کی نہ صرف قربانی بلکہ تمام زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ خود کو اور اپنی اولاد کو اللہ کا فرمانبردار بنانا ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ایمان والو پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ، مسلم کہتے ہی اس اونٹ کو ہیں جس کی نکیل اس کے مالک کے ہاتھ میں ہو۔ پھر وہ یہ نہیں سوچتا کہ مالک کا حکم کیسا ہے۔ اس میں اگر مگر کی گنجائش نہیں نکالتی، جو حکم ہوتا ہے، اس کی تکمیل کرتا ہے۔ اسی کو سامنے رکھ کر اقبال نے فرمایا تھا۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
پھر ہمیں صرف قربانی کے لئے ہی نہیں زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کے حکم کو، اللہ کے نبی کے طریقے کو اپنانا ہوگا صبح سے لے کر شام تک، زندگی کی شروعات سے لے کر اختتام تک، خوشی میں غمی میں ہر مسئلہ میں ہمیں اتباع رسول ﷺ کو اپنانا ہوگا۔ پھر انشاءاللہ ہماری قربانی کے ساتھ ساتھ تمام اعمال قبول ہوں جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کو بھی فرمانبردار بنانا ہوگا۔
اس سلسلے میں گزارش ہے کہ اولاد عمل سے سیکھتی ہے۔ اگر والدین خود اللہ کے رسول ﷺ کے فرمانبردار ہونگے تو انشاءاللہ ان کی اولاد بھی فرمانبردار ہو گی، وہ ان کے گھر میں خیر و برکت نازل ہونے کا سبب بنے گی۔ قربانی کے قبول ہونے کی شرائط میں سے دوسری یہ ہے کہ عمل میں اخلاص ہو۔ جس کی آج کل بہت کمی ہے، قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ۔
خدا تک نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون۔ بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ اسی طرح خدا نے ان کو تمہارا مسخر کر دیا ہے تاکہ اس بات کے بدلے کہ اس نے تم کو ہدایت بخشی ہے۔ اسے بزرگی سے یاد کرو۔ اور (اے پیغمبر) نیکوکاروں کو خوشخبری سنا دو۔ اسی طرح میر تقی میر نے اپنی خوبصورت انداز میں وضاحت کی ہے
اخلاص دل سے چاہیے سجدہ نماز میں
بے فائدہ ہے یوں وقت کھویے
اس لئے جس حد تک ممکن ہو سکے ہر عمل کو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا جائے۔ بلا وجہ کی نمود و نمائش سے بچا جائے اپنے اس پاک عمل کو سوشل میڈیا سے دور رکھا جائے۔ تیسری شرط احساس ہے۔ قربانی کے گوشت کو جس حد تک ممکن ہو سکے۔ حقدار تک پہنچانے کی حتیٰ الوسع کوشش کریں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کی قربانی کو قبول فرمائے اور اس کو ہمارے لئے ذریعہ نجات بنائے۔