Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Zeashan Butt
  4. Kya Hum Sab Mufti Hain?

Kya Hum Sab Mufti Hain?

کیا ہم سب مفتی ہیں؟

جب کبھی قلم پکڑوں اور دل و دماغ سنّاٹے میں ہوں، تو ایک ایسی ہستی کا سہارا لیتا ہوں جو الفاظ کے جنگل میں چراغ جلانے کا ہنر جانتی ہے۔ میرے روحانی استاد، اشفاق احمد صاحب، جن کی محبت بھری نصیحتیں آج بھی میرے اندر کہیں روشنی کرتی ہیں۔ اکثر جب کچھ سمجھ نہ آئے، تو وہ اندر سے گویا ہو کر کہتے ہیں، "پتر! تو استاد ہے مشاہدہ کر، لوگوں کے رویوں کو دیکھ، ان کے لب و لہجے کو سن، ان کی آنکھوں کے پردوں میں چھپی کہانیاں پڑھ، تجھے لکھنے کے لے بہت کچھ ملے گا"۔ اسی سوچ کے سمندر میں غوطہ زن تھا کہ اچانک ایک واقعہ یاد آ گیا، وہ واقعہ جو اشفاق صاحب نے اپنے مشہور زمانہ پروگرام "زاویہ" میں سنایا تھا۔

اشفاق احمد صاحب بتاتے ہیں کہ بچپن میں ایک مرتبہ وہ نیکر پہن کر، مختصر لباس میں مسجد سپارہ پڑھنے چلے گئے۔ اس وقت کا ماحول بڑا باادب اور روایات کا پاسدار تھا۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی مولانا صاحب نے شدید غصے میں ان سے کہا، "تم یہ کیا پہن کے آگئے ہو؟ تم تو جہنم میں جاؤ گے! " اشفاق صاحب کے نازک دل پر یہ جملہ گویا قیامت بن کر ٹوٹا۔ گھر لوٹے تو والدہ سے اپنی ساری بات کہہ سنائی۔ والدہ ماجدہ، جو خود بھی علم و حکمت کی دولت سے مالا مال تھیں، بیٹے کے معصوم چہرے کو دیکھ کر مسکرائیں اور شفقت بھرے لہجے میں سمجھایا، "بیٹا! استاد جی غصے میں تھے، اس لیے کہہ دیا ہوگا۔ لیکن سن، جہنم میں جانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے"۔

والدہ نے سمجھایا کہ انسان کو جہنم میں جانے کے لیے اللہ سے اپنا رشتہ توڑنا پڑتا ہے، اس کے احکامات کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ رسول پاک ﷺ کی سنت سے منہ موڑنا پڑتا ہے۔ معصوم لوگوں کے حقوق پامال کرنے پڑتے ہیں، والدین کی نافرمانی کرنی پڑتی ہے، بہن بھائیوں کا حق دبانا پڑتا ہے، جھوٹ، فریب، دھوکہ اور زیادتی جیسے گناہوں میں ڈوبنا پڑتا ہے۔ شراب نوشی، جوا، بدکاری اور دیگر گناہوں میں لتھڑنا پڑتا ہے۔ حرام کھانے کو معمولی بات سمجھنا پڑتا ہے۔ غرض کہ جہنم میں جانے کے لیے انسان کو برائی میں ایسا پختہ قدم رکھنا پڑتا ہے کہ نیکی کی کوئی کرن اس کی روح تک نہ پہنچ سکے۔

انہوں نے کہا، "اور تو تو ویسے بھی بڑا نرم دل ہے۔ ایک معصوم جانور کی موت دیکھ کر تیری آنکھیں بھر آتی ہیں، تو بھلا اتنے بڑے گناہ کیسے کر پائے گا؟ جہنم کی راہ کوئی کھیل نہیں، یہ تو ایک لمبی اور مشکل راہ ہے"۔ اشفاق صاحب کی یہ بات آج بھی ہمارے لیے سبق ہے۔

مگر افسوس، آج کا دور ایسا آ گیا ہے کہ ہم نے جہنم کے پروانے اپنے ہاتھ میں پکڑ لیے ہیں۔ ہر دوسرے شخص کو، جس کا نظریہ، جس کا اندازِ زندگی، جس کی سیاسی وابستگی یا کسی مسئلے پر رائے ہم سے مختلف ہو، فوراً دوزخ کا حقدار قرار دے دیتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر علماء کرام کے فتوے سننے کو ملتے ہیں۔ کسی نے فلاں پارٹی کو ووٹ دیا تو دوزخی، کسی نے فلاں لباس پہنا تو گمراہ، کسی نے فلاں کام کر لیا تو سیدھا جہنم کا ایندھن۔

چند دن پہلے ایک مولوی صاحب کا بیان سنا کہ جس نے فلاں سیاسی جماعت کو ووٹ دیا وہ دوزخ میں جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی سیاسی پارٹی کو ووٹ دینے یا نہ دینے سے انسان کی آخرت کا فیصلہ ہو جاتا ہے؟ کیا اللہ رب العزت کی رحمت اتنی چھوٹی ہوگئی ہے کہ محض سیاسی جھکاؤ کی بنیاد پر کسی کی بخشش یا عذاب کا فیصلہ ہو جائے؟

اللہ تعالیٰ تو بڑا غفور الرحیم ہے۔ قرآن بار بار ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ ہمارے نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی رحمت کے بغیر کوئی جنت میں نہیں جائے گا۔ یہاں تک کہ میں بھی نہیں، اگر اللہ کی رحمت شامل حال نہ ہو۔ ایک پیاسی کتیا کو پانی پلانے والی عورت کی مغفرت ہو جاتی ہے اور ننانوے قتل کرنے والے کو بھی اللہ توبہ کی توفیق دے کر معاف کر سکتا ہے۔ تو پھر ہم کون ہوتے ہیں جو اتنی آسانی سے دوسروں کو جہنم کی سند دے دیں؟

جنت حاصل کرنا مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔ دنیا بذاتِ خود بری چیز نہیں، بلکہ اسی دنیا میں رہ کر اللہ کی رضا حاصل کرنی ہے۔ ہمارے استاد حافظ عبدالحمید اظہر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ دنیا ایک کھیت ہے، یہاں جو بوو گے وہی آخرت میں کاٹو گے۔ اگر ہم نیکی کے بیج بوتے رہیں، آسانیاں پیدا کرتے رہیں، معاف کرتے رہیں، دلوں کو جوڑتے رہیں، حق ادا کرتے رہیں، تو ان شاء اللہ جنت ہمارا مقدر بنے گی۔

نیکی کے کاموں میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ بعض اوقات لوگ سوچتے ہیں کہ بڑی رقم ہوگی تو خیرات کریں گے، یا جب بہت زیادہ لوگ جمع ہوں گے تو خیر کی بات کہیں گے۔ یہ سوچ غلط ہے۔ اللہ کے ہاں نیکی کی قیمت نیت سے ہے، مقدار سے نہیں۔ اگر ایک گلاس پانی بھی کسی پیاسے کو دے دیا تو اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو سکتا ہے۔ اگر ایک مسکراہٹ سے کسی کا دل خوش کر دیا، تو یہ بھی صدقہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ نیکی میں پہل کریں، جیسا کہ قرآن نے ہمیں تعلیم دی ہے: "نیکی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ"۔

جہنم کے خوف سے زیادہ اللہ کی رحمت کی امید دل میں بسانی چاہیے۔ خود بھی خیر کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور دوسروں کو بھی خیر کی طرف بلانا چاہیے۔ سختی سے نہیں، محبت اور نرمی سے۔ اللہ کے بندے سختی سے نہیں بلکہ نرمی سے جیتے جاتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اللہ کی رحمت اور جنت کی طرف لے جائے گا۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed