Tuesday, 23 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Zeashan Butt
  4. Insano Ki Iqsam

Insano Ki Iqsam

انسانوں کی اقسام

کہتے ہیں زندگی ایک دسترخوان کی طرح ہوتی ہے، جس پر طرح طرح کے ذائقے، خوشبوئیں اور رنگ بکھرے ہوتے ہیں۔ کوئی لقمہ زبان کو مزہ دیتا ہے، کوئی صحت بناتا ہے، کوئی وقتی ضرورت پوری کرتا ہے اور کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو پورا دسترخوان ہی الٹ پلٹ کر رکھ دیتا ہے۔ مشہور خلیفہ ہارون رشید کے صاحبزادے مامون رشید کا ایک قول اسی حقیقت کی سادہ مگر گہری تصویر پیش کرتا ہے کہ انسان تین قسم کے ہوتے ہیں: غذا کی مانند، دوا کی مانند اور بیماری کی مانند۔ بات بظاہر سادہ ہے مگر اگر ذرا ٹھہر کر غور کیا جائے تو یہی قول ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا پورا ایک نقشہ کھینچ دیتا ہے۔

سب سے پہلی قسم وہ لوگ ہوتے ہیں جو غذا کی مانند ہوتے ہیں۔ غذا وہ نعمت ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ غذا کی اہمیت ہمیں عموماً اس وقت سمجھ آتی ہے جب وہ میسر نہ ہو۔ روز کی روٹی، دال، سبزی یا نمک، یہ سب نظر تو آتے ہیں مگر ان کی قدر کم ہی کی جاتی ہے۔ نمک کو ہی لیجیے، سالن میں دکھائی نہیں دیتا مگر ذرا سا کم ہو جائے تو پورا سالن بے ذائقہ اور ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ ہماری زندگی میں بھی کچھ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ماں باپ، اساتذہ، بہن بھائی، شریکِ حیات، بچے اور چند مخلص دوست۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خاموشی سے ہماری زندگی کا ذائقہ درست رکھتے ہیں۔ نہ زیادہ شور، نہ زیادہ مطالبہ، بس اپنا فرض ادا کرتے رہتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو سب سے زیادہ نظرانداز بھی یہی کرتے ہیں۔ ماں کی دعا، باپ کی نصیحت، استاد کی سختی، بیوی کی فکرمندی اور بچوں کی معصوم خواہشیں، یہ سب ہمیں اکثر بوجھ محسوس ہوتی ہیں۔ ہم کہتے ہیں، "امی بہت ٹوکتی ہیں"، "ابو کو پرانے خیالات ہیں"، "استاد بہت سخت ہے"، "بیوی کو ہر بات پر اعتراض ہے"۔ ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہی سختی دراصل وہ مرچ ہے جو سالن کو خراب نہیں بلکہ قابلِ ہضم بناتی ہے۔ سمجھدار لوگ یہی کرتے ہیں کہ اگر مرچ زیادہ ہو جائے تو دہی ساتھ رکھ لیتے ہیں، سالن چھوڑ کر بھاگتے نہیں۔ مگر ہم جذبات میں آ کر پورا رشتہ ہی ترک کر دیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب ہم ان غذا جیسے لوگوں کی قدر نہیں کرتے تو آہستہ آہستہ خود کو ذہنی اور جذباتی طور پر بیمار کر لیتے ہیں۔ پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہی لوگ ہمارے سامنے ہوتے ہیں مگر ہم ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ جیسے ڈاکٹر شوگر کے مریض کو میٹھا کھانے سے منع کر دیتا ہے، ویسے ہی زندگی ہمیں بعض نعمتوں سے وقتی طور پر محروم کر دیتی ہے۔ تب ہم افسوس کرتے ہیں، یادیں دہراتے ہیں اور کہتے ہیں، "کاش میں نے وقت پر سمجھ لیا ہوتا"۔

دوسری قسم کے لوگ دوا کی مانند ہوتے ہیں۔ دوا ہر وقت نہیں لی جاتی، مگر جب بیماری آ جائے تو اس کے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ دوا کا کام مزہ دینا نہیں بلکہ شفا دینا ہوتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ ہماری زندگی میں اس وقت آتے ہیں جب ہم خود کو الجھا چکے ہوتے ہیں۔ یہ دوست، اساتذہ، علماء، مشائخ، سینئرز یا کبھی کبھار وہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں جن سے ہمیں براہِ راست کبھی خاص تعلق نہ رہا ہو، مگر جن کی بات، تحریر یا ویڈیو ہمیں راستہ دکھا دیتی ہے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوا کو بھی مٹھاس کے پیمانے سے تولتے ہیں۔ ہمیں مشورہ چاہیے مگر ایسا جو ہمارے کانوں کو اچھا لگے۔ ہمیں اصلاح چاہیے مگر بغیر تکلیف کے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر دوائیں کڑوی ہی ہوتی ہیں۔ اگر علاج صرف میٹھی دوائیوں سے ہو جاتا تو نہ کسی کو آپریشن کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی کڑوی گولیاں ایجاد ہوتیں۔ جو لوگ ہمیں سچ بتاتے ہیں، ہماری غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں، وہ عموماً ہمیں ناگوار گزرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں، "یہ تو بہت تنقید کرتا ہے"، "یہ تو دل توڑ دیتا ہے"، "یہ تو ہمیشہ منفی بات کرتا ہے"۔ حالانکہ وہ دراصل بیماری پر ہاتھ رکھ رہا ہوتا ہے۔

ایک دلچسپ طنزیہ پہلو یہ بھی ہے کہ ہم بیماری ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بیماری کو کمزوری سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر ذہنی بیماری کو۔ جب تک معاملہ حد سے نہ گزر جائے، ہم کہتے رہتے ہیں، "میں بالکل ٹھیک ہوں"، "مجھے کسی کی ضرورت نہیں"، "میں خود سب سنبھال لوں گا"۔ پھر جب حالات قابو سے باہر ہو جاتے ہیں تو ہمیں زبردستی دوا کی طرف لے جایا جاتا ہے اور جیسے ہی ذرا سا سکون آتا ہے، ہم دوا چھوڑ دیتے ہیں۔ علاج ادھورا رہ جاتا ہے اور بیماری دوبارہ سر اٹھا لیتی ہے۔

تیسری قسم کے لوگ بیماری کی مانند ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی موجودگی ہی نقصان دہ ہوتی ہے۔ جیسے کوئی بیماری جسے نہ کوئی خود چاہتا ہے اور نہ ہی کسی اپنے کے لیے پسند کرتا ہے۔ یہ لوگ منفی سوچ، غلط عادات اور بگاڑ کا پیکج ہوتے ہیں۔ خود بھی برباد، دوسروں کو بھی برباد کرنے پر تلے ہوئے۔ سگریٹ خود پیتے ہیں تو فخر سے کہتے ہیں، "یار ایک کش تو بنتا ہے"، برائی خود کرتے ہیں تو دوسروں کو بھی ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں اکیلے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔

یہ لوگ عموماً انہی کی زندگی میں جگہ بناتے ہیں جنہوں نے غذا والے اور دوا والے لوگوں کی قدر نہیں کی ہوتی۔ جب بنیادی رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور اصلاح کی آوازیں خاموش کر دی جاتی ہیں تو پھر بیماری خود چل کر آتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان آہستہ آہستہ معاشرے کا ناسور بن جاتا ہے۔ نہ گھر میں عزت رہتی ہے، نہ باہر اعتماد اور نہ ہی دل میں سکون۔

اصل سوال یہاں یہ نہیں کہ ہمیں کن لوگوں سے بچنا ہے، بلکہ یہ ہے کہ ہمیں خود کون سا انسان بننا ہے۔ ہم ساری زندگی دوسروں کو پرکھتے رہتے ہیں مگر خود کو بھول جاتے ہیں۔ سب سے اعلیٰ مقام یہ ہے کہ انسان خود دوسروں کے لیے غذا کی مانند بن جائے۔ خاموش، مفید اور لازمی۔ نمک کی طرح، جو اپنا کام کرکے پہچان کھو دیتا ہے۔ نہ جتلاتا ہے، نہ شور مچاتا ہے۔ والدین جب یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنا حق ادا کر دیا، اب بچے کی زندگی ہے، تو دراصل وہ غذا والے کردار کی بہترین مثال ہوتے ہیں۔

اگر ہم غذا نہیں بن سکتے تو کم از کم دوا بن جائیں۔ کسی کی زندگی میں کڑوی مگر سچی بات کہہ دیں، کسی ٹوٹے رشتے کو جوڑنے کی کوشش کر لیں، کسی غصے کو ٹھنڈا کر دیں۔ دو بھائیوں کے درمیان صلح کروا دینا، ایک دوست کو غلط راستے سے واپس لے آنا، یہ سب دوا کے کام ہیں اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کم از کم بیماری نہ بنیں۔ خود بھی بگاڑ کا شکار نہ ہوں اور دوسروں کو بھی خراب نہ کریں۔

حدیث کا مفہوم ہے کہ مومن وہ ہے جو فائدہ مند ہو۔ فائدہ ہر وقت بڑا اور نمایاں نہیں ہوتا، بعض اوقات خاموش فائدہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اس پورے مضمون کا خلاصہ یہی ہے کہ ہمیں غذا والے لوگوں کی قدر کرنی ہے، دوا والے لوگوں کی بات سننی ہے، بیماری والے لوگوں سے بچنا ہے اور سب سے بڑھ کر خود کو ایسا انسان بنانا ہے جس کی وجہ سے کسی کی زندگی میں آسانی پیدا ہو، مشکل نہیں۔

آخر میں یہی عرض ہے کہ تجربہ شرط ہے، سرسری نہیں بلکہ مکمل غور کریں۔ زندگی کے دسترخوان پر کون سا ذائقہ کم ہو رہا ہے اور کون سا زیادہ، اس کا اندازہ وقت پر ہو جائے تو بہت سی بیماریاں جنم ہی نہیں لیتی۔

Check Also

Moscow Se Makka (7)

By Mojahid Mirza