Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Zeashan Butt/
  4. Garmiyon Ki Chuttiyon Ko Ba Maqsad Banayen

Garmiyon Ki Chuttiyon Ko Ba Maqsad Banayen

گرمیوں کی چھٹیوں کو بامقصد بنائیں

مشکل سے پھر اسکول نہ جانے کے دن آئے

بے فکری سے پھر وقت گنوانے کے دن آئے

طالب علموں کی زندگی میں بہترین وقت گرمیوں کی چھٹیوں کا وقت ہوتا ہے۔ ہر طالب علم کو اس کا شدت سے انتظار ہوتا ہے اور چھٹیاں ہونے سے پہلے ہی انہوں نے ان گنت منصوبے بنا لیے ہوتے ہیں۔ کسی قدر یہ بات ٹھیک بھی ہے کیونکہ پڑھائی کا دباؤ نہیں ہوتا روز مرہ کی سخت پابند زندگی کی ترتیب میں ٹھہراؤ آ جاتا ہے۔ بہرحال ان دنوں کو لے کر والدین، اساتذہ اور طالب علم تینوں طبقے ہی کسی قدر غلط فہمی کا شکار ہیں ان دنوں کو بہتر بنانے کے لئے کچھ گزارشات آغاز اساتذہ کرام سے کیونکہ زیادہ ذمہ داری آپ لوگوں کی ہے اسی لئے آپ کو معمار قوم کہا جاتا ہے۔

بہت ادب کے ساتھ آج کل جو قوم کی حالت ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے اساتذہ کرام اپنی ذمہ داریاں پوری طرح سے نہیں نبھا رہےہیں۔ آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ سال میں صرف یہی وقت اساتذہ کو اپنے لیے ملتا ہے۔ پھر بھی آپ نےجو شعبہ منتخب کیا ہے اس میں آپ دن کے 24 گھنٹے اور سال کے 365 دن اساتذہ ہوتے ہیں سر راہ بات یاد آ گئی کہ اتفاق سے عید کے دن ایک مسئلہ پوچھنے کے لئے دو علماء کو کال کی جواب آپ کی خدمت میں عرض ہے۔

پہلے محترم فرماتے ہیں کہ عید کے دن تو ہمیں بھی چھٹی دے دیا کریں تو مسئلہ پوچھنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ دوسرے حضرت کو کال کی مسئلہ پوچھا آخر میں کہا معذرت عید کے دن آپ کو زحمت دی ان کا جواب ہم اساتذہ کے لئے رہنما اصول ہے حضرت نے فرمایا میں آپکا شکر گزار ہوں کہ آپ نے سیکھنے کے لیے مجھے منتخب کیا اور میں کوئی عید کی نماز تو پڑھ نہیں رہا تھا جو آپ کی کال سے ٹوٹ گئی ہو۔ میری قوم کے محسنوں بات مثبت سوچ کی ہے آپ نے صرف اتنا کرنا ہے کہ

چھٹیوں میں اپنی استعداد کو بہتر بنائیں۔ اپنے علم کو مزید نکھار ہیں انٹرنیٹ کی مدد سے یہ کام بہت آسان ہے۔ اس کے علاوہ اپنی صحت پر توجہ دیں روانہ پیدل چلیں، اپنی شخصیت میں جو کمی ہے ان پر غور کریں۔ اپنے شاگردوں سے رابطہ میں رہیں۔ تاکہ وہ اپنی بات آپ تک پہنچا سکیں اور آپ ان کو بہتر سمجھ سکیں۔

مختلف ان لائن کورسز کیجئے، انگریزی جو کہ ہماری تدریسی زبان ہے اس میں کسی قدر بہتری لائیں تاکہ ہمارے بچوں میں جو ہچکچاہٹ ہے وہ دور ہو سکے۔ اس طرح چھٹیوں کے بعد آپ اپنے آپ کو ایک بہتر استاد محسوس کر سکیں گے کوشش کریں کم سے کم دس بچوں کے لیے آپ آئیڈیل استاد ضرور ہوں۔

دوسرا نمبر والدین کا ہے اکثر و بیشتر اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے یہ پیغام والدین تک پہنچا ہوں کہ آج کے اس پرفتن دور میں اگر آپ اپنی اولاد کی بہتر تربیت کر پائیں تو اس سے بڑا صدقہ جاریہ کوئی نہیں ہوگا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں سب سے پہلے آپ منصوبہ بندی کریں اس کام میں بچوں کی مشاورت ضروری ہے۔ ان کے آپ سے تین مطالبات ہونگے ایک تو یہ کہ نانی، خالہ، ماموں اور پھوپھو کے گھر رہنے جانا ہے دوسرا سیروتفریح کرنی ہے اور تیسرا مختلف کھیلوں میں حصہ لینا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو تین مطالبات ہی معقول ہیں اور ان کے ساتھ مذاکرات کرکے آپ اپنی بھی بہت سی باتیں منوا سکتے ہیں۔ شرط سے یہ کہتا ہوں کہ 90 فیصد پاکستانیوں کے گھروں میں بچوں سے بات چیت کا ماحول ہی نہیں ہے زیادہ تر والدین اعلی عدلیہ کی طرح فیصلہ سنا دیتے ہیں اور بچے وفاقی حکومت کی طرح ان کے فیصلوں پر عمل درآمد سے انکار کر دیتے ہیں اور اسی کشمکش میں قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے اور چھٹیوں کے بعد اساتذہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔

جو والدین پہلے سے منصوبہ بندی نہیں کرتے خصوصاً مائیں ان کے لیے چھٹیاں وبال جان ہو جاتی ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی دہائیاں سنتے ہیں کہ آخر سکول کب کھلیں گے؟

بچوں کو پہلے تو اس بات پر قائل کریں کہ نماز باقاعدہ پڑھیں۔ بہت سے مدارس میں مختلف کورس ہوتے ہیں ان میں داخلہ لیے اپنا دین سیکھیں رشتہ داروں کے گھر ضرور رہنے جائیں محترم والدین اس سے بچوں کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

اگر آپ کے بچے بڑے ہیں، تو آپ کے اردگرد کرکٹ بال اور دوسرے کھیلوں کی کلب ہوتے ہیں ان میں ان کے رجحان کے مطابق حصہ لیں، لڑکیاں مخلص آرٹس کے کورس کرسکتی ہیں اس سے انکے نئے دوست بنتے ہیں اور نئے اساتذہ بھی ملتے ہیں۔

ہر کامیاب شخص کی زندگی میں ایک ایسا استاد ضرور ہوتا ہے جس کی بات وہ بغیر کسی دلیل کے مانتا ہے۔ ان چھٹیوں میں ہوسکتا ہے ان کو وہ اساتذہ مل جائے اس کے علاوہ محترم والدین کم از کم ایک فیملی ٹرپ کا بندوبست ضرور کریں بچوں کو چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں دی جیسا کہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالنا، سامان وغیرہ لے کے جانا، بزرگوں کے ساتھ چلنا ہے لیکن اس کے لئے بھی بہتر منصوبہ بندی ضروری ہے اس سے وہ دوسرے شہروں یا سیاحتی مقامات کے بارے میں جان سکتے ہیں اور جو روزمرہ زندگی کا دباؤ ہوتا ہے اس میں بھی کمی آتی ہے۔

آخر میں ہمارے مستقبل یعنی بچوں کا نمبر ہے ویسے تو پہلے دونوں مخاطب اگر اپنی ذمہ داری ادا کریں تو بچوں کی زندگی میں نظم خودہی پیدا ہو جائے گا بچوں کے لئے ہمیشہ مثال ریل گاڑی کی دیتا ہوں جس کے والدین اور اساتذہ انجن اور ڈرائیور ہیں۔

عزیز بچو آپ نے پڑھائی کو بالکل چھوڑنا نہیں ہے۔ اکثر اپنے طلبا کو کہتا ہوں کہ اگر ایک طالب علم نے اسکول نہیں جانا اور نہ ہی کسی ٹیسٹ کے امتحان کا دباؤ ہے اب اگر وہ کتاب کو لے کر پڑھنے بیٹھتا ہے یہاں سے پڑھائی کی ابتدا ہوتی تو سوچے انتہا کہاں ہوگی آپ اکثر سنتے ہیں کہ فلاں سائنسدان اپنی شادی کا دن بھول گیا تو دوسرا اپنی ہی ایجاد کردہ چیز دوبارہ ایجاد کر بیٹھا یہ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اصل میں یہ جان چکے ہوتے ہیں کہ پڑھائی کس چیز کو کہتے ہیں یا اس کی انتہا کیا ہے۔

آپ نےچھٹیوں میں مندرجہ ذیل چیزوں کی پابندی کرنی ہے۔۔

نماز باقاعدگی سے پڑھیں، قرآن کی تلاوت کریں اور اپنا دین سیکھنے کی کوشش کریں، پیدل چلیں اپنے آپ کو صحت مند بنائیں، اپنی پسند کی کتابیں پڑھیں، والدین کا فرمانبردار بنے۔

اگر تینوں اساتذہ والدین اور بچے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تو گرمی کی چھٹیاں بھی بے مثال گزریں گی اور اس کے بعد اسکول میں بھی بہتر تعلیم حاصل کر سکیں گے مگر تجربہ شرط ہے ذرا نہیں مکمل غور کیجے۔

Check Also

Gandum, Nizam e Taleem, Hukumran Aur Awam (1)

By Zia Ur Rehman