Deeni Qayadat Ka Khamosh Charagh Gul Ho Gaya
دینی قیادت کا خاموش چراغ گل ہو گیا

پروفیسر سینیٹر ساجد میر مرحوم پاکستان کے ان گنے چنے افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ دین کی خدمت، علم کی روشنی پھیلانے اور قوم کی رہنمائی میں صرف کیا۔ وہ ایک ایسے عالمِ دین، معلم اور سیاستدان تھے جنہوں نے نہ صرف دینی حلقوں میں اپنا مقام بنایا بلکہ سیاست کے میدان میں بھی اپنی بصیرت اور اصول پسندی سے پہچان قائم کی۔
2 اکتوبر 1938ء کو سیالکوٹ کے ایک علمی اور دینی خانوادے میں پیدا ہونے والے ساجد میر بچپن ہی سے علم و دین کی طرف راغب تھے۔ ان کے والد محترم خود بھی علم سے لگاؤ رکھنے والے شخص تھے اور بیٹے کی تعلیم و تربیت کو دین اور اخلاق کے سانچے میں ڈھالنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ عام حفاظ سے مختلف بڑی عمر میں والدہ مرحومہ کی خواہش کی تکمیل کے لے قرآن مجید حفظ کیا، عربی، تفسیر، حدیث اور فقہ جیسے علوم میں مہارت حاصل کی اور ساتھ ساتھ جدید تعلیم میں بھی اعلیٰ کارکردگی دکھائی۔ انہوں نے بی اے، ایم اے انگریزی اور ایم اے اسلامیات کی ڈگریاں حاصل کیں اور تعلیمی میدان میں ہمیشہ اول رہے۔ ان کی علمی پیاس انہیں درس و تدریس کے میدان میں لے گئی جہاں انہوں نے کئی عشروں تک ہزاروں طلبہ کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا۔
تدریس کے ابتدائی ایّام سیالکوٹ کے مختلف تعلیمی اداروں سے شروع ہوئے اور پھر لاہور کے مشہور کالجوں میں انگریزی کے استاد رہے۔ بعد ازاں، انہوں نے نائجیریا کی یونیورسٹیوں میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر کی حیثیت سے بین الاقوامی سطح پر بھی خدمات انجام دیں۔ ان کی تعلیمی خدمات نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک میں بھی ان کی شہرت کو چار چاند لگا دیے۔
پروفیسر ساجد میر نے دینِ اسلام کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا۔ تراویح کی امامت ہو یا جمعہ کے خطبات، ان کی آواز میں جو درد، علم اور اخلاص ہوتا تھا، وہ دلوں کو چھو جاتا تھا۔ نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک انہوں نے مختلف مساجد میں باقاعدگی سے تراویح کی امامت کی، جو ان کی عبادت گزاری اور دین سے محبت کی روشن دلیل ہے۔ ان کے جمعہ کے خطبات، دینی درس اور علمی گفتگو ہمیشہ عام فہم، مدلل اور اصلاحی ہوا کرتی تھی۔ ان کی گفتگو میں روایتی وعظ نہیں بلکہ حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں اسلامی رہنمائی ہوتی تھی، جو سننے والوں کو عمل پر ابھارتی تھی۔
اہلِ حدیث جماعت کو منظم کرنے میں ان کا کردار نہایت نمایاں رہا۔ جماعت کے ساتھ ان کی وابستگی ابتدائی زمانے سے تھی، جب وہ سیالکوٹ میں سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جماعت میں ان کا وقار اور اثرورسوخ بڑھتا گیا اور علامہ احسان الہٰی ظہیر کی شہادت کے بعد وہ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے امیر مقرر ہوئے۔ انہوں نے جماعت کو منظم، متحرک اور ملک گیر بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ وہ اہلِ حدیث فکر کی نمائندگی نہ صرف پاکستان میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کرتے رہے۔ سعودی عرب، ترکی، امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں ہونے والی دینی کانفرنسوں میں ان کی شرکت اور خطاب اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک عالمی سطح کے مفکر اور رہنما تھے۔
پروفیسر ساجد میر کا سیاسی کردار بھی بہت مضبوط اور باوقار رہا۔ وہ نظریاتی سیاست کے قائل تھے اور ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ان کی طویل وابستگی نے انہیں ایک ایسا مقام دیا کہ وہ بارہا سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ پارلیمنٹ میں ان کی موجودگی ہمیشہ ایک علمی و اخلاقی قوت کے طور پر دیکھی گئی۔ انہوں نے قانون سازی، تعلیم، اقلیتوں کے حقوق اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کے مسائل پر بھرپور آواز بلند کی۔ وہ سینیٹ کی کئی اہم کمیٹیوں کے رکن اور چیئرمین رہے اور ہمیشہ اپنی بات دلائل کے ساتھ، تہذیب کے دائرے میں رہ کر پیش کرتے۔ ان کا سیاسی انداز نفرت انگیزی یا ذاتی حملوں سے پاک ہوتا تھا۔
پروفیسر ساجد میر کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو سنتِ نبوی ﷺ کی پیروی تھی۔ وہ ہر کام میں سنت کو مدِنظر رکھتے۔ ان کی زندگی سادگی، انکساری، دیانت داری اور خدمتِ خلق کا عملی نمونہ تھی۔ وہ بزرگوں کے ادب، چھوٹوں پر شفقت اور عام لوگوں کے مسائل سے دلچسپی کو ایمان کا حصہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں اُمت مسلمہ کو اتحاد، تقویٰ اور اخلاقِ حسنہ کی دعوت دی۔
ان کی وفات پر ملک بھر سے تعزیتی پیغامات کا آنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایک مقبول، محترم اور ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ علمائے کرام، سیاسی قائدین، طلبہ اور عوام الناس سب نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ان کے چاہنے والوں کا حلقہ بہت وسیع تھا، جو نہ صرف ان کی علمی قابلیت بلکہ ان کی محبت، شفقت اور خدمت خلق کے جذبے کی وجہ سے ان سے جُڑے ہوئے تھے۔
پروفیسر سینیٹر ساجد میر کی زندگی ہم سب کے لیے ایک سبق ہے کہ کس طرح علم، عمل، اخلاص، تقویٰ اور اصول پسندی کے ساتھ زندگیاں گزاری جاتی ہیں۔ انہوں نے نہ صرف یہ بتایا کہ دین کی خدمت کیسے کی جاتی ہے بلکہ یہ بھی سکھایا کہ سیاست اور دینی قیادت کو کیسے ایک ساتھ لے کر چلا جا سکتا ہے۔ وہ ایک ایسے قافلہ سالار تھے جو اپنے پیچھے ایک کارواں چھوڑ گئے۔ ان کا مشن، ان کی تعلیمات اور ان کا اسلوب آج بھی راہنمائی کا ذریعہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے مشن کو زندہ رکھنے کی توفیق ہم سب کو عطا کرے۔

