Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Zeashan Butt
  4. Bas Kar De Amir, Ab To

Bas Kar De Amir, Ab To

بس کر دے عامر، اب تو

پی ایس ایل کا دسویں ایڈیشن بھی آیا، کھیلا گیا اور لاہور قلندرز جیت گیا۔ وہی لاہور قلندرز، جسے شروع میں سب "ہنسی کا سامان" سمجھتے تھے، اب وہ سب کی ہنسی چھین کر ٹرافی کے ساتھ تصویریں کھنچوا رہا ہے۔ فائنل میں انہوں نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو ایسا دھویا کہ جیسے پرانے زمانے میں صابن لگا کے کپڑے دھوئے جاتے تھے، دو سو دو رنز کا پہاڑ ایسا سر کیا جیسے یہ مری کا مال روڈ ہو۔ لیکن لاہور کی جیت کے ساتھ ساتھ جو سب سے "نمکین" منظر رہا، وہ محمد عامر کی کارکردگی اور ان کے بعد کے بیانات تھے۔

اب بھئی عامر بھائی، بندہ ایک آدھ میچ خراب کر دے، کوئی بات نہیں۔ لیکن اگر ہر دوسرے تیسرے میچ میں آپ کی گیند نہیں، آپ کی زبان چل رہی ہو تو پھر مسئلہ ہے۔ خاص طور پر اس بار تو حد ہی ہوگئی۔ نہ صرف فائنل میں خوب "رنز کا ہدیہ" دیا، بلکہ اس سے پہلے امریکہ جیسی ٹیم (جو کرکٹ کم اور بیس بال زیادہ کھیلتی ہے) کے سامنے بھی کچھ خاص نہ کر سکے۔ سچ پوچھیے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے گیند نہیں، گیند نما لفافے پھینکے جا رہے ہوں، "لے بھائی، تو بھی لے جا چار رنز"۔

عامر کا سفر اگر کوئی فلم ہوتی تو ٹائٹل کچھ یوں ہوتا: "اُبھرا، گرا، سنبھلا، پھر پھسلا"۔ 2009 میں ٹیم میں انٹری لی، تو سب نے کہا "نیا وسیم اکرم آ گیا ہے"۔ چھوٹے سے قد، تیز گیند اور بڑے خواب لیے یہ لڑکا سب کا لاڈلا بن گیا۔ 2010 میں انگلینڈ میں ایسی بولنگ کی کہ خود انگلینڈ والے بھی کہنے لگے: "یار یہ تو خطرناک ہے"۔ لیکن پھر وہ دن آیا جب عامر بھائی نے صرف نو بال نہیں کرائی، قوم کی عزت کی بھی نو بال کرا دی۔ ہزاروں پاونڈز کے عوض کی گئی اسپاٹ فکسنگ نے سب کچھ الٹا دیا۔

جیل گئے، پابندی لگی، لیکن پھر موقع ملا۔ قوم نے معاف کیا، کرکٹ نے دوبارہ گلے لگایا۔ واپسی کے بعد کچھ میچز میں تو لگا کہ شاید وہی پرانا عامر ہے، لیکن جلد ہی اندازہ ہوا کہ اب عامر کا زور صرف گیند پر نہیں، سوشل میڈیا پر بھی ہے۔ جہاں موقع ملے، کوئی نہ کوئی "چٹ پٹا بیان" ضرور آنا ہے۔

اور حالیہ بیان؟"اگر آئی پی ایل سے آفر آئی تو اگلے سال پی ایس ایل نہیں کھیلوں گا"۔ واہ واہ! کیا بات ہے۔ جس پلیٹ نے کھلایا، اسی میں چھید؟ بھائی پہلے آئی پی ایل والے آفر تو کریں، پھر اتنے نخرے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی بندہ رشتہ لے کر نہ آئے اور آپ پہلے ہی کہہ دیں: "مجھے تو دبئی والا ہی چاہیے"۔

اب ذرا دوسری طرف نظر ڈالیں۔ سکندر رضا۔ جن کا جذبہ ایسا ہے جیسے کسی نیا نویلا لڑکا پہلی بار ٹیم میں آیا ہو۔ انگلینڈ میں خاندانی مصروفیات چھوڑ کر سیدھا پاکستان آئے اور لاہور قلندرز کے لیے وہ اوور کھیلا جس نے میچ کا نقشہ بدل دیا۔ آخری گیند پر چھکا مارا، زمین پر سجدہ کیا اور دل جیت لیا۔ وہ بھی چالیس کے قریب عمر میں! یعنی عمر بڑھتی گئی، مگر جذبہ کم نہ ہوا۔

ایک طرف سکندر رضا جو ہر میچ میں "جذبات کا طوفان" ہوتے ہیں اور دوسری طرف محمد عامر، جن کی بولنگ اب صرف "ماضی کی کہانی" لگتی ہے۔ اب آپ خود ہی بتائیں: اگر اگلے سال آئی پی ایل میں کھیلنے کا اتنا شوق ہے، تو جا کر کوکنگ شو میں ہی حصہ لے لیں، جہاں "آئی پی ایل" کا مطلب "آلو، پیاز، لہسن" ہو۔

عامر بھائی، ہم تو بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اگر واقعی عزت سے رخصتی چاہیے، تو ابھی وقت ہے۔ اب آپ کے لیے بہترین جگہ کمنٹری باکس ہے۔ وہاں نہ باؤنسر کھانے کی فکر، نہ یارکر مارنے کا جھنجھٹ۔ صرف بولیے اور بولیے۔ ویسے بھی آپ کے الفاظ گیند سے زیادہ رفتار پکڑ چکے ہیں۔

اور پی سی بی! حضور آپ سے بھی ایک گزارش ہے۔ خدارا کھلاڑیوں کے ساتھ میڈیا ٹریننگ کے دو تین سیشن رکھوا دیں۔ جس طرح انہیں یارکر سکھاتے ہیں، اسی طرح زبان قابو کرنے کا بھی کورس ہو جائے تو قوم کا بھلا ہوگا۔ خاص طور پر ایسے بیانات کہ "میں پی ایس ایل نہیں کھیلوں گا اگر۔۔ " بھائی پہلے پی ایس ایل والے ہی نہ روک لیں اگلے سال!

پی ایس ایل ایک جذبے کا نام ہے، ایک جنون کا، ایک شور کا۔ یہاں ہر چھکا دل جیتتا ہے اور ہر وکٹ امید جگاتی ہے۔ محمد عامر جیسے کھلاڑی اگر اپنی جگہ نئے نوجوانوں کے لیے خالی کر دیں، تو نہ صرف ان کا قد بڑھے گا، بلکہ نئے ستاروں کو چمکنے کا موقع بھی ملے گا۔

آخر میں بس اتنا کہوں گا: عامر بھائی، آپ نے بہت کچھ کیا، بہت عزت کمائی، تھوڑا سا گڑبڑ بھی کی۔ لیکن اب وقت ہے کہ آپ میدان سے عزت سے رخصت لیں اور اگر بولنے کا اتنا شوق ہے، تو کرکٹ تجزیہ کاری میں آ جائیں۔ وہاں کوئی وکٹ نہیں گرے گی، صرف الفاظ کی لائن لینتھ سنبھالنی ہوگی۔

ورنہ اگلے سال لوگ پی ایس ایل میں صرف ایک جملہ کہیں گے:

"بس کر دے عامر، اب تو!"

Check Also

Aatish Kada Baku (6)

By Ashfaq Inayat Kahlon