Bachon Ki Tamam Harkat Ki Zimedar Maa
بچوں کی تمام حرکات کی ذمہ دار ماں
گزرے وقتوں کی بات ہے کہ ایک کام کاج سے تھکا ہارا کمہار گھر آیا، تو اس کے بچے آپس میں لڑ رہے تھے۔ تو اسے بہت غصہ آیا۔ اس نے بچوں کو سزا دی اور بار بار کہنے لگا کہ ماں کے دودھ کا اثر ہے۔ جیسی ماں ویسے بچے کمیارن کو بہت غصہ آیا، لیکن اس نے بہت تحمل سے کہ صرف ماں کے دودھ اور تربیت نہیں باپ کے تخم اور مزاج کا بھی اثر ہوتا ہے۔
کمہار چونکہ پہلے ہی غصے میں تھا۔ جیسے عام ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے، اس نے بچوں کو چھوڑ کر اپنی عورت سے لڑنا شروع کر دیا اتفاقاً ملکہ بھی شام کی سیر کے دوران وہاں سے گزر رہی تھی۔ اس نے سارا واقعہ سن لیا۔ واپس جا کر محل میں بادشاہ سے واقعے کا ذکر کیا ملکہ کو اس وقت بہت حیرت ہوئی کہ بادشاہ نے بھی اپنی مردانہ رویے کا اظہار کرتے ہوئے کمہار کی بات کو صحیح کہا۔
کہ واقعی ہی ماں کے دودھ کا اور اس کی تربیت کا اثر ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتے ہوئے والد کو بری الذمہ قرار دیا۔ ملکہ کو بہت بےعزتی محسوس ہوئی اس نے بادشاہ سے کہا کہ اپنی رائے کوئی کاغذ پہ لکھ دے اور نیچے اس نے اپنی رائے بھی لکھ کر اس کاغذ کو محفوظ کر لیا۔ کچھ عرصہ گزرا ملکہ امید سے ہوئی اور جب بچے کی ولادت کا وقت ہوا۔
تو اس نے اپنی خادمہ کی مدد سے قریبی کمہاروں کے نوزائیدہ بچے سے اپنے بچے کو تبدیل کرلیا۔ وقت گزرتا گیا ہے شہزادہ کمہاروں کے گھر اور ان کا بچہ محل میں پلتا رہا بادشاہ اپنے بچے کی عادات سے بہت پریشان تھا۔ کیونکہ وہ ہر نعمت اور سہولت کو ہچھوڑ کر صرف گدھوں کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا۔ دوسری طرف کمیار بھی بہت پریشان تھے ہمارا بچہ ہمارے خاندانی کام میں بالکل دلچسپی نہیں لیتا۔
انہوں نے اس کو پڑھنے سے ہٹایا، سزا بھی دی اور گدھوں کے ساتھ مکمل کام پر لگا دیا، ہے تو وہ شہزادہ تھا، حکومت کرنا اس کے خون میں تھا۔ اس نے سب کمہاروں کو اکٹھا کیا اور کہا کیا بے وقوفوں کی طرح سب گدھوں کی نگرانی کرتے رہتے ہو روزانہ ایک بندے کی ڈیوٹی لگاتے ہیں باقی سب آرام سے وقت گزاریں گے۔ اس کی یہ بات سب کو پسند آئی سب نے اس کو اپنا لیڈر بنا لیا۔
ایک جگہ مختص کی جہاں بیٹھ کر باقی لوگوں کے مسائل کو حل کیا کرتا تھا۔ سب کو کہا کہ ایک ایک روٹی فالتو لانا اور وہ کھانا مسافروں میں تقسیم کرنے لگا، اب اچھے کام کرو تو شہرت تو ہوتی ہے اور یہاں تک کہ جو لوگ بادشاہ کے فیصلوں سے مطمئن نہیں ہوتے وہ آ کر اس بچے سے فیصلے کرواتے ایک دفعہ ایک شخص کو ہیرا ملا اس نے اپنے دوست کو دیا کہ میرے گھر دیے دینا۔
دوست کی نیت بدل گئی اس نے وہ ہیرا تبدیل کر دیا گھر آ کر اس نے ہیرا دیکھا، تو وہ نقلی تھا۔ اس نے اپنی بیوی پر شک کیا۔ تینوں بادشاہ کے پاس گئے بادشاہ اور اس کے وزیر اس مسلے کو حل نہ کر سکے اور وقت مانگ لیا۔ جب وہ شہزادے کے پاس آئے تو اس نے تینوں سے کہا کہ کاغذ پر خاکہ بناؤ تو اس آدمی اور دوست کے خاکے ایک جیسے تھے۔ اس نے فوراً بتا دیا کہ چور اس کا دوست ہے۔
اپنے ساتھیوں سے اس کی تھوڑی مرمت کروائی تو وہ مانگ گیا اور ہیرا بھی واپس کر دیا۔ بچے کی شہرت آسمانوں کو چھو رہی تھی۔ بادشاہ کو اپنی بےعزتی محسوس ہوئی اس نے بچے کو گرفتار کروایا مقدمہ چلایا اس کو پھانسی کی سزا سنا دی تب ملکہ نے مداخلت کی اور اپنی خادمہ کو بلا کر سارا واقعہ سنایا۔ بادشاہ جان کر بہت خوش ہوا کہ یہ ذہین بچہ اس کا بیٹا ہے اور دوسری طرف اس کی وہ کمہاروں کے بچے سے بھی جان چھوٹ گئی۔
بادشاہ نے ملکہ سے سبب پوچھا، تو اس نے وہ بادشاہ کی تحریر سامنے رکھ دی بادشاہ بہت شرمندہ ہوا اور آخرکار یہ بات ماننے پر قائل ہو گیا کہ صرف ماں کے دودھ اور تربیت کا ہی نہیں بلکہ باپ کے تخم اور کردار کا بھی اثر ہوتا ہے۔ ہمیں اگر اپنے بچوں کو بہتر انسان بنانا ہے تو والدین کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ اللّہ پاک سے دعا ہے کہ سب کی اولادیں باکردار اور باعمل ہوں۔