Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Zeashan Butt
  4. Aalmi Youm e Asatza

Aalmi Youm e Asatza

عالمی یوم اساتذہ

ہم تو پتھر تھے راہوں میں بھٹکا کرتے تھے

آپ نے تراش کر انمول کر دیا

قرآن کریم اس موضوع پر ارشاد فرماتا ہے "انسان خود علم حاصل کرے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے"۔

قرآن میں ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے کہ عالم اور جاہل ہرگز دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ عالم (استاد)کے درجات بلند کرے گا۔

امام الانبیاء، خاتم النبیّین، سیّد المرسلین، رحمۃ للعالمین، حضور اکرم ﷺ جب رسالت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے، تو آپ ﷺ کو معلّم کا منصب عطا فرمایا گیا۔ چناں چہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا "اِنما بعثت معلما" (ترجمہ) میں بہ طور معلّم (استاد) مبعوث کیا گیا ہوں۔

ہر سال دنیا بھر میں پانچ اکتوبر کو یوم اساتذہ منایا جاتا ہے ان عالمی دنوں کو منانے کا مقصد ان دنوں سے متعلق مسائل کو اجاگر کرنا، بہتر اگاہی مہیا کرنا اور ان کے مسائل کا حل تلاش کرنا۔

اساتذہ دنیا میں پیشہ ہی ایسا ہے جو کہ مسائل کے حل کے لیے ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ جہالت، لاعلمی، نہ جاننا ہے۔ استاد ہی وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے اس کا حل کیا جاتا ہے۔ حکومتوں اور تمام صاحب اختیار کو چاہیے کہ کم سے کم اساتذہ کے مسائل کو حل کیا جائے تاکہ وہ بہتر طور پر دنیا کی رہنمائی حاصل کر سکیں۔ دنیا میں کوئی بھی کامیاب شخص ہو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں بغیر استاد کے کامیاب ہوا ہوں استاد کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دنیا کا ہر شعبہ سابقہ ہو سکتا ہے۔

میاں بیوی کا تعلق کتنا قرب ہے لیکن طلاق کے بعد اس کو بھی سابقہ شوہر یا سابقہ بیوی کہا جاتا ہے لیکن کوئی بھی شخص اپنے استاد کے ساتھ سابقہ کا لفظ نہیں استعمال کر سکتا کہ یہ میرے سابقہ استاد تھے کسی نےاستاد کے بارے میں خوبصورت بات کی استاد دنیا میں وہ لوگ ہیں جو خود سے زیادہ اپنے شاگرد کو چاہتے ہیں کہ وہ اس سے آگے جائے چونکہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ایک بہت اچھا سٹیٹس نظر سے گزرا جس میں دیکھا جاتا ہے کہ سیڑھی پر سے بچے اوپر جا رہے ہیں اور اوپر لکھا ہوتا ہے کامیابی، جب غور سے دیکھا جاتا ہے تو وہ اساتذہ کے ہاتھ اور کندھے ہوتے ہیں تو یہ بہت خوبصورت پیغام مجھے لگا کہ ترقی آپ کو اپنے اساتذہ کے ذریعے ہی ملتی ہے۔

آج کے دور میں ہم نے علم تو کسی قدر حاصل کر لیا ہے بہرحال تربیت کا فقدان ہے، عمل کی بہت کمی ہے پاکستان جو کہ پہلے ہی مسائل سے گھرا ہوا ہے۔ تعلیم کبھی بھی حکمرانوں کی توجہ نہیں رہی۔ آج تک کوئی پاکستان میں تعلیم دوست حکومت نہیں آئی کیونکہ یہ سیاست دان بنیادی طور پر جانتے ہیں اگر یہ عوام پڑھ لکھ گئی ان کو شعور آگیا تو پھر یہ ہمارا منجن نہیں خریدیں گے۔ یہ تحریر لکھ کر میں اساتذہ کی خدمات کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں خود میں اپنے عظیم استاد سر محبوب کا یہاں بہت ذکر کرنا چاہوں گا بچوں سے جو لگاؤ، محبت ان سے زیادہ میں نے کسی میں نہیں دیکھی۔

آج کے جو اساتذہ میں کردار کی کمی ہے وہ ہمارے استاد کی خوبی تھی۔ خود ایک سپورٹس مین تھے، روزانہ فٹبال کھیلتے، اپنی فٹنس کا خیال رکھتے، لباس بے شک سادہ تھا لیکن نفاست پسند انسان ہیں، الفاظ کا چناؤ بہت خوبصورت تھا طالب علموں کی عزت نفس کا ہمیشہ خیال رکھا کرتے تھے۔ کسی بھی قسم کی تفریق ان کے ہاں نہیں پائی جاتی تھی پھر وہ چاہے لسانی ہو، طبقاتی ہو، مذہبی ہو یا علاقائی ہو۔

آج کے استاد نے جہاں اپنے آپ کو کتاب تک محدود کر رکھا ہے ہمارے استاد اس سے مبرا تھے وہ ہمیشہ بچوں کو اخلاقی طور پر مضبوط بنانے کی کوشش کرتے تھے آج کے اساتذہ جو بچوں میں مقابلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بچوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت پیدا ہوتی ہے میرے عظیم استاد اس سے کوسوں دور تھے وہ ہمیشہ ایک لائک اور ایک ایوریج بچے کی جوڑی بنایا کرتے تھے اور سوالات بھی ٹیم کی شکل میں کرتے تھے تاکہ تعلیم بھی ہوتی رہے اور بچوں میں حوصلہ افزائی بھی پیدا ہو اج جہاں ایک دوسرے سے دوری کا رجحان ہے ہمارے استاد ہمیشہ بچوں کو مل کر رہنا سکھایا کرتے تھے۔

اکثر اپنے گھر پہ بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی پارٹی کا بندوبست کرنا تاکہ بچے مل کر ایک دوسرے کے ساتھ محظوظ ہو سکیں آج اکثر مجھے دوست پوچھتے ہیں کہ آپ کی یہ جو صلاحیت ہے لوگوں کو جوڑنے کی تو میں اپنے استاد محترم کا ذکر کرتا ہوں کہ میرے استاد نے بچپن میں میرے ساتھ یہ شفقت فرمائی کہ ہمیں مل کے رہنا سکھایا تو اس کا فائدہ ہے کہ ہمیشہ لوگ ہمارے کمپنی میں خوش اور آباد رہتے ہیں۔

اسی طرح جب میں تدریسی شعبے سے وابستہ ہوا تو میرے ساتھی جناب سر ادریس صاحب مجھے ایسے استاد ملے، ان کا سیکھنے اور سکھانے کا جذبہ کمال ہے۔ ہمیشہ مکمل تیاری سے اپنی کلاس لینے جاتے ہیں اور بچوں سے ذہنی امنگی حاصل کرتے ہیں جس کی بنا پر وہ بچوں کے پسندیدہ استاد کہلائے جاتے ہیں۔

اسی طرح طلباء کو بھی چاہیے کہ اگر وہ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو صرف علم حاصل کر لینا کوئی بڑی بات نہیں۔ علم پر عمل کرنا ضروری ہے اور سب سے بڑا عمل ادب ہے۔ ادب کے بغیر کوئی چیز حاصل نہیں کی جا سکتی اس لیے اگر اپ اپنی زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنے اساتذہ کا حقیقی ادب کریں حضرت علیؓ کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک لفظ سکھا دیا وہ بھی میرا استاد ہے۔ خلیفہ ہارون رشید کے بچے اپنے استاد کی جوتیاں اٹھانے کا مقابلہ کیا کرتے تھے یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حقیقت میں کامیابی حاصل کی اگر آپ بھی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنے استاد کی کی دل سے عملی عزت کیجیے۔

سکندر اعظم کا قول ہے کہ میرا باپ مجھے زمین پر لایا اور میرا استاد مجھے آسمان پر لے گیا۔ ذرا نہیں مکمل غور کیجے گا۔۔

Check Also

Selfie Program

By Syed Mehdi Bukhari