Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Yasir
  4. Sood Kya Ziyan Kya Hai

Sood Kya Ziyan Kya Hai

سود کیا زیاں کیا ہے

گزشتہ کالم میں ہم نے اسلامی بینکاری کی تاریخ اور اس کے معیارات کی بنیاد کے بارے میں تحقیق کی تھی۔ آج ہم یہ دیکھیں گے کہ قرض کیا ہے اور سود کیا ہے۔ اس معاملے میں بھی اکثر ابہام پایا جاتا ہے۔ امانت اور قرض کے فرق کے بارے اور سود اور نفع کے بارے کافی ایسی چیزیں ہیں جس پہ بات کرنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ بعض اوقات نفع کو سود سمجھ کر غلط قرار دے دیا جاتا ہے اور کہیں سود کو منافع سمجھ کر قبول کر لیا جاتا ہے۔

سود دو طرح کا ہے، ربا النسیہ اور ربا الفضل، پہلی قسم وہ ہے جس میں قرض پہ اضافی رقم لی جاتی ہے اور یہ سود کی وہ قسم ہے جس کی قران میں مذمت بیان ہوئی ہے اور اس سے منع فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں فرمایا، "سود خور لوگ نہ کھڑے ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے، یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے حالانکہ اللہ تعالٰی نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام"۔

اگر ہم قرض کی رقم پر منفعت لیں گے تو وہ سود ہوگا لیکن اگر ہم اشیاء کی تجارت کرکے منافع کمائیں گے تو وہ حلال ہوگا۔

دوسری قسم وہ ہے جس میں اشیا کے تبادلے میں برابر مقدار کی بجائے بڑھا کر تبادلہ کیا جائے۔ جیسے سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور اور نمک کم مقدار میں دے کر زیادہ مقدار میں لیا جائے یا ان کے تبادلے میں کسی بھی طرح مقدار ایک جیسی نا رکھی جائے۔ اس کے بارے میں نبی ﷺ کی ایک حدیث ہے، "حضرت بلالؓ نبی ﷺ کے پاس اچھی قسم کی کھجور لائے، نبی ﷺ نے پوچھا یہ کہاں سے لائے ہو؟ بلالؓ نے کہا ہمارے پاس خراب کھجوریں تھیں ہم نے دو صاع کے بدلے ایک صاع اچھی کھجور لے لی تاکہ کھانے میں اچھی لگے۔ نبی ﷺ نے فرمایا آہ، یہ تو خالص سود ہے خالص سود، ایسا مت کرو، اگر تمہیں اچھی کھجوریں خریدنی ہیں تو پہلے اپنی خراب کھجوریں بیچ دو پھر ان سے (ملی رقم) سے اچھی کھجوریں خریدو"۔

قرض اس طرح سے کسی کو مال یا رقم کی منتقلی ہے کہ اس کا لینے والے شخص کو اس مال کے مثل واپس کرنا لازم قرار پائے۔ قرض خواہ کے لیے قرض میں زیادتی کی شرط لگانا حرام ہے چاہے وہ زیادتی خصوصیت اور معیار کی شکل میں ہو یا مقدار کی شکل میں ہو اور چاہے وہ زیادتی میں کسی اور اثاثے کا مطالبہ کرے یا کوئی بھی اور نفع لے، سود ہے، چاہے یہ شرط معاہدے میں لگائی جائے یا اسکی مدت کے اندر یا تاخیر کی صورت یا اگر اس لیے بھی لگائی جائے کہ یہ اس منڈی کا اصول ہو۔ یہ بھی جائز نہیں کہ قرض کی مدت کے دوران مقروض اس قرض کی وجہ سے قرض خواہ کو کوئی تحفہ پیش کرے یا کسی فائدے کی پیشکش کرے جبکہ اس کا یہ معمول قرض سے پہلے نا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اگر تم میں سے کوئی شخص کسی کو قرض دے اور مقروض اس کے لیے ہدیہ پیش کرے یا اسے سواری پر سوار کروائے تو اسے چاہیے کہ نہ تو وہ اس سواری پر سوار ہو اور نہ اس ہدیہ کو قبول کرے، الا٘ یہ کہ ان دونوں کے درمیان (قرض سے) پہلے سے اس طرح کے معاملات چلتے آ رہے ہوں۔

مگر قرض کی واپسی کے وقت کوئی زیادہ رقم یا کوئی تحفہ یا کوئی فائدہ اس صورت میں جائز ہے اگر اس کی شرط نا لگائی گئی ہو اور نا ہی یہ مارکیٹ کا طے اصول ہو۔ حضرت محمد ﷺ نے ایک شخص سے بالکل چھوٹی عمر کا ایک اونٹ ادھار لیا کچھ عرصہ بعد صدقے کے اونٹوں میں سے کچھ اونٹ آپ ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے حضرت ابو رافعؓ سے فرمایا کہ اس شخص کا وہ چھوٹی عمر کا اونٹ واپس کر دیں، ابو رافع تشریف لائے تو فرمایا کہ سوائے ایک چار سالہ بالکل جوان اونٹ کے میں نے وہاں کچھ نہیں پایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہی اونٹ اس کو دے دو، حقیقت یہ ہے کہ لوگوں میں بہترین وہی ہوتے ہیں جو چیزوں کی واپسی کے معاملے میں سب سے بہتر ہوتے ہیں۔

قرض میں واپسی کی مدت کی شرط لگائی جا سکتی ہے، چناچہ مقروض پر اس مدت سے پہلے قرض واپس کرنا لازم نا ہوگا اور نا قرض خواہ کو اس مدت سے پہلے مطالبے کا حق ہوگا لیکن اگر ایسی کوئی شرط نہیں لگائی گئی تو مطالبے کے وقت قرض کی واپسی واجب ہوگی اور قرض کے معاہدے میں کسی اور عقد کی شرط لگانا جائز نہیں ہے مثلآ قرض کے ساتھ کسی چیز کو بیچنے خریدنے یا اجرت پر لینے کی شرط پہ قرض دینا یا لینا۔

قرض دینے والے ادارے (بینک) کے لیے جائز ہے کہ وہ قرضوں کی خدمات کے بدلے اتنے اخراجات وصول کرے جو ان خدمات پر آنے والے حقیقی اور براہ راست اخراجات کے برابر ہوں۔ اس سے زائد وصول کرنا جائز نہیں۔ بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ اپنی حقیقت کے اعتبار سے قرضے ہیں، چناچہ بینک اس رقم کا مالک بن جاتا ہے اور اسے لوٹانا اس پہ واجب ہوتا ہے۔ اے ٹی ایم کارڈ یا چیک بک کی خدمات چونکہ قرض کی حوالگی یا واپسی سے متعلقہ ہیں لہذا بنک اس پہ چارجز لے بھی سکتا اور نہیں بھی۔ بینک کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس قرض (کرنٹ اکاؤنٹ) کی وجہ سے گاہک کو کوئی ایسی سہولت فراہم کرے جس کا تعلق ڈپازٹ یا اسکی واپسی سے نہیں۔ لیکن ایسی سہولیات جو سب گاہکوں کو دی جارہی ہوں وہ کرنٹ اکاؤنٹ والوں کو بھی دی جا سکتی ہیں۔ کارڈ کے ذریعے اے ٹی ایم مشین سے رقم نکالے جانے پہ جو خرچہ وصول کیا جاتا ہے وہ درحقیقت اس سروس کی اجرت ہوتی ہے اس کا قرض سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہاں اس کو نکالی جانے ولی رقم سے منسلک نا کیا جائے۔

امید ہے ہم اس بات کو سمجھ پائے ہیں کہ قرض میں ہر قسم کا مشروط اضافہ سود ہے اور یہ سختی سے منع ہے، جبکہ تجارت، محنت اور جائز کاروبار سے حاصل ہونے والا نفع حلال اور برکت والا ہے۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرض اور نفع کے فرق کو اچھی طرح سمجھے تاکہ غلطی سے سود کو نفع نہ سمجھے اور نفع کو سود قرار دے کر حلال کو حرام نہ ٹھہرائے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam