Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Yasir
  4. Munafa Kahan Se Kamaun

Munafa Kahan Se Kamaun

منافع کہاں سے کماؤں

ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ آمدنی کے محض ایک ذریعہ پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔ کاروباری لوگ اپنا پیسہ مختلف طرح کے کاروبار میں لگاتے ہیں، ایسے ہی نوکری پیشہ لوگوں کو ہمیشہ بچت کا مشورہ اور ایک اضافی آمدنی کے ذریعے کی ترغیب دلائی جاتی ہے۔ لیکن ایک ایسا انسان جس نے کبھی کاروبار نا کیا ہو اور نا ہی ارادہ رکھتا ہو اور اپنی تنخواہ سے خوش اور آسودہ زندگی گزار رہا ہو، وہ کچھ پیسوں کی بچت کا تو سوچ سکتا ہے لیکن سرمایہ کاری کے معاملے میں بہت گھبراتا ہے اسلیے وہ اپنے پاس بچت کی رقم ایسی جگہ پر لگاتا ہے جہاں اس کی رقم محفوظ رہے اور کچھ منافع بھی ملتا رہے۔ کچھ لوگ انشورنس کروا لیتے ہیں، کچھ سرکاری بچت سکیموں میں پیسے جمع کرواتے ہیں، کچھ میوچل فنڈز میں لگاتے ہیں تو کچھ بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں رکھتے ہیں۔

لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو کوئی کاروبار کر رہے ہیں یا نوکری کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ایک اضافی چھوٹے طرز کا کاروبار شروع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس کے اہل بھی ہیں اور اس کو بہتر طریقے سے چلا بھی سکتے ہیں۔ لیکن کسی بھی کاروبار کو چلانے کے لیے افرادی سرمائے کی ضرورت بھی رہتی ہے اور یہ افرادی قوت ہمارے ہاں بڑی مشکل سے دستیاب ہوتی ہے، ایسا نہیں کہ ملازمتیں زیادہ اور لوگ کم ہیں بلکہ یہاں تو روزانہ بےروزگاری کا رونا رویا جاتا ہے۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ کوئی شخص اگر اپنے چھوٹے کاروبار کے لیے مزدور، ڈرائیور، کاریگر، مکینک وغیرہ کی تلاش کرتا ہے تو اسے شاذ و نادر ہی ایسا شخص مل پاتا ہے جس کے بھروسے وہ اپنی دکان، گاڑی یا سرمایہ چھوڑ سکے جس سے وہ بھی رزق کمائے اور سرمایہ دار بھی؟ وجہ ہے بے ایمانی، جو اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ اسے بے ایمانی اب سمجھا ہی نہیں جاتا، آپ کسی پر اعتبار نہیں کر سکتے، دھوکہ دہی اور فراڈ کی ایسی ایسی کہانیاں ہیں کہ لوگ ڈرتے ہیں اور اپنا پیسہ کسی ایسی جگہ نہیں لگاتے۔

انشورنس، سیونگ اکاؤنٹس، بانڈز وغیرہ میں سود کا عنصر شامل ہے تو زیادہ تر لوگ اس حوالے سے محطاط رہتے ہیں اور سود سے بچنے کے لیے ایسی کوئی سرمایہ کاری نہیں کرتے۔ لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان سب چیزوں کے اسلامی متبادل کے بارے میں بھی شکوک و شبہات رکھتے ہیں اور اس بات کا یقین نہیں رکھتے کہ بلا سود بھی منافع کمایا جا سکتا ہے۔ اسکی وجہ آگاہی کی کمی ہے، اسلیے کہہ دیا جاتا ہے کہ سب سود ہی کر رہے ہیں نام بدل کر۔ جیسا کہ اسلامی بینکنگ سیریز کے ہمارے پہلے کالم میں ہم اسلامی بینکاری کے معیارات اور طریقہ کار کے متعلق بات کر چکے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ سیریز پڑھنے والوں کے بہت سے سوالات کا احاطہ کرتی ہے۔ ایسے ہی آج اسلامی فنڈز اور انشورنس پہ مختصراً اور سادہ انداز میں بات کرتے ہیں۔

روایتی انشورنس میں انشورنس کمپنی کسی چیز کی انشورنس کرتی ہے تو اس کے بدلے سالانہ یا مختلف اقساط میں پریمیم چارج کرتی ہے۔ وہ پریمیم انشورنس کمپنی کماتی ہے اور اگر نقصان ہوتا ہے تو کمپنی اسے برداشت کرتی ہے۔ پالیسی ہولڈرز سے جو پریمیم لیا جاتا ہے اسے کمپنی کسی بھی طرح کے کاروبار میں لگا کر منافع بھی کماتی ہے اور نقصان کی صورت میں جو رقم ادا کرنا پڑے اس کے علاوہ بچ جانے والا منافع کمپنی ہی کماتی ہے۔ جبکہ اسلامی انشورنس میں ایک فنڈ قائم کیا جاتا پے جس میں مختلف لوگ ایک مخصوص رقم عطیہ کرتے ہیں کہ اگر اس فنڈ میں شامل ہونے والوں میں سے کسی کا بھی نقصان ہوتا ہے تو اس کا ازالہ کیا جائے گا۔ اسلامی انشورنس فنڈ قائم کرنے والی کمپنی اس رقم کو کسی بھی ایسے کاروبار میں نہیں لگاتی جو غیر شرعی ہو اور اس کی آمدنی میں حرام کا شبہ ہو۔ اس کے علاوہ منافع پر بچ جانے والی رقم پالیسی ہولڈرز کو واپس بھی کی جا سکتی ہے۔

اسی طرح روایتی بینکوں کے سیونگ اکاؤنٹ یا منافع فنڈ کاروبار کے شرعی یا غیر شرعی ہونے سے قطع نظر سرمایہ کاری کرتے ہیں اور ملنے والے منافع یا سود کو اکاؤنٹ ہولڈرز یا فنڈ ممبرز کے درمیان تقسیم کرتے ہیں۔ جبکہ اسلامی بینکنگ سیونگ اکاؤنٹ اور میوچل فنڈز کسی بھی غیر شرعی کاروبار میں اپنا سرمایہ نہیں لگاتے اور شرعی معیارات پہ پورا اترنے والی پراڈکٹس میں لگا کر منافع کماتے ہیں۔ اکاؤنٹ ہولڈرز سے ملنے والی رقم کو مختلف طرح کے فنڈ گروپس میں لگایا جاتا ہے۔ جن میں حصص (شئیرز) فنڈ، مرابحہ فنڈ، کموڈٹی فنڈ، مخلوط فنڈ وغیرہ شامل ہیں۔

حصص فنڈ کا پیسہ ایسی کمپنیوں کے حصص میں لگایا جاتا ہے جن کا کاروبار شرعی اصولوں پر مبنی ہو اور کاروبار کا بڑا حصہ یعنی پچانوے فیصد یا اس سے زیادہ شرعی معیارات کے مطابق اور حلال ہو، مرابحہ فنڈ کی سرمایہ کاری اسلامی بینکنگ کی پراڈکٹ مرابحہ کی فنانسنگ اور پھر اس سے نفع حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے، کموڈٹی فنڈ میں اشیا کی خرید و فروخت سے منافع کمایا جاتا ہے اور مخلوط فنڈ کا سرمایہ سارے باقی بیان کیے گئے فنڈز میں شامل کرکے لگایا جاتا ہے۔

ان تمام فنڈز سے حاصل ہونے والا منافع طے کی ہوئی شرح کے مطابق اکاؤنٹ ہولڈرز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ رقم مارکیٹ میں روایتی بینکوں کے اکاؤنٹس سے ملنے والے سود کے برابر ہو سکتی ہے جس کہ وجہ سے اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حلانکہ اگر ایک شخص شراب کے کاروبار میں ایک بوتل پر اپنا منافع پچاس روپے رکھے اور وہی شخص اس حرام کام کو چھوڑ کر شہد کا کاروبار کرے اور شہد کی بوتل پر بھی اپنا منافع پچاس روپے رکھے تو رقم تو ایک جتنا ہی کما رہا ہے مگر ایک حرام ہے اور دوسرا حلال۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz