Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Yasir
  4. Laltain

Laltain

لالٹین

جب گاؤں سے شہر منتقل ہوئے تو بہت کچھ گاؤں میں ہی چھوڑ آئے۔ انسان کی زندگی میں تبدیلی آتی رہتی ہے وہ ہر چیز ہمیشہ اپنے ساتھ لے کر نہیں چل سکتا۔ کچھ چیزیں پیچھے چھوڑنا پڑتی ہیں اور کچھ مجبوری میں چھوٹ جاتی ہیں۔ جو مجبوری میں چھوٹتی ہیں ان کی یاد ہمیشہ ساتھ رہتی ہے۔ یادیں کبھی پیچھا نہیں چھوڑتی، انہیں کہیں چھوڑ کر آپ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ زمین ہونے کے باوجود مجھے کھیتی نہیں کرنی تھی، یہ فیصلہ میرے بچپن سے ہی میرے بڑوں کی طرف سے کر لیا گیا تھا اس لیے میں نے بھی کبھی اس طرف نہیں سوچا۔

اب روزگار کمانا تھا اور نوکری شہر میں تھی، وہ بھی قریبی شہر میں نہیں، ڈھائی سو کلو میٹر دور۔ ہم گاؤں چھوڑ رہے تھے ضروری اور نیا سامان لادا گیا باقی سب وہیں چھوڑ دیا کچھ پرانا اور کچھ ناکارہ سمجھ کر۔ ایک طرف نئی زندگی شروع کرنے کی خوشی تھی تو دوسری طرف گھر کی دیواروں پر اداسی چھائی تھی، سامان اٹھایا جا رہا تھا اور میں بیٹھا اپنے گھر کو دیکھ رہا تھا کہ جہاں میرا بچپن گزرا ہے جہاں میں بڑا ہوا ہوں یہاں دوبارہ نہیں آنا۔

شہر کی زندگی بہت مختلف تھی، یہاں کا گھر، گلیاں، محلہ، لوگ سب ایک الگ دنیا تھی۔ اللہ نے ہمت دی وقت گزرا روزگار بھی لگ گیا اور زندگی دوڑنے لگی۔ آہستہ آہستہ زندگی سہل ہونے لگی گھر میں ایک ایک کرکے ضروری چیزیں اور سہولتیں پوری کرتے رہے۔ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ تھا، چھوٹے گھروں میں گرمی گزارنا انتہائی مشکل ہے، یہ کونسا گاؤں ہے جہاں بجلی بند ہو تو چارپائی صحن میں درخت کے نیچے ڈالو اور پڑے رہو لہزا یو پی ایس بھی لگوا لیا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ اس کی بیٹری خراب ہو چکی تھی بجلی بند ہوتی تو یو پی ایس بھی بند ہو جاتا، سردیوں کے دن تھے ضرورت صرف لائیٹس کی تھی۔

میں نے سوچا کہ ابھی عارضی لائیٹ لگا کر گزارا کرتے ہیں بیٹری سردی گزرنے کے بعد گرمیوں میں لگوا لیں گے۔ بیٹری والی لائیٹس اور بلب کئی خراب ہو چکے تھے، میرے ذہن میں آیا کہ ایک لالٹین ہوتی تھی ہمارے گھر میں، وہ سال ہا سال سے استعمال ہوتی آ رہی تھی وہ کبھی خراب نہیں ہوتی۔ لیکن اسے بھی پرانے سامان کے ساتھ ہی چھوڑ آئے تھے۔ اب نئی لالٹین پتا نہیں ملتی ہوگی یا نہیں، کیونکہ زمانہ ہی نہیں اب اس کا۔ پھر بھی میں نے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ ریل بازار میں ایک پرانی کریانہ کی دکان ہے وہاں سے شاید مل جائے۔ میں وہاں گیا ادھر سے لالٹین مل گئی۔ اسکے ساتھ شعلہ جلانے والی لڑی میں اضافی لے آیا کہ بعد میں شاید ملے نا ملے۔

ایک شام بجلی بند ہوئی تو لالٹین میں تیل ڈال کر اسکا شعلہ جلایا، اسکی مہک گھر میں پھیل گئی۔ یہ مہک بہت سالوں بعد محسوس کی۔ خوشبو اور موسیقی دو ایسی چیزیں ہیں جب بھی دوبارہ سنیں اور سونگھیں یہ آپ کو وہیں لے جاتے ہیں جہاں پہلی بار سنا اور محسوس کیا ہوتا ہے۔ لالٹین کی مہک مجھے کئی برس پہلے کی یادوں میں لے گئی۔ آخری بار جب یہ مہک سونگھی تھی تو زندگی کتنا مختلف تھی، ابو زِندہ تھے۔ لالٹین وہی جلایا کرتے۔ میری آنکھوں کے سامنے منظر گھوم گیا کہ ہم گاؤں والے گھر میں ہیں، بجلی بند ہوئی اور ابو نے دکان سے مٹی کا تیل لے کر لالٹین میں ڈالا اور ماچس لے کر اسے جلایا۔ میں بیٹھا اس کے شعلے کے ساتھ کھیلتا رہتا۔

ابو کی کریانہ کی دکان تھی، جو ہمارے گھر کے ساتھ ہی تھی۔ گاؤں میں دکان کا دروازہ بند بھی ہو تو لوگ کھٹکھٹا کر سودا لے لیتے ہیں۔ جب بھی بجلی بند ہوتی لوگ مٹی کا تیل لینے آتے، کوئی بچہ کوئی بڑا بوتل، برتن ساتھ لاتے اور لالٹین یا دیا جلانے کے لیے تیل لے کر جاتے۔ کچھ لوگ لالٹین ہی اٹھا لاتے کہ سیدھا اسی میں ڈال دو، مختلف طرح کے بتیوں والے چولہے اور دیے لے آتے۔ ابو ہاتھ سے چلانے والے ایک چھوٹے پمپ کے ذریعے تیل کے بڑے کین سے تیل ایک بوتل میں ڈالتے پھر گاہک کی بوتل، دیے، لالٹین یا برتن میں ڈالتے۔ یہ بوتل پیمانے کے طور پہ رکھی ہوئی تھی۔ یہ کولڈ ڈرنک کی ریگولر بوتل تھی، اس وقت پانچ روپے میں تیل سے بھر جاتی تھی۔

گاؤں میں رات کے وقت ویسے ہی خاموشی ہی خاموشی ہوتی ہے۔ بس کسی کسی گھر سے ٹی وی کی آواز وہ بھی دھیمی اور کہیں اگر کوئی ٹریکٹر والا رات کے وقت کھیتوں میں کام کرہا ہو تو اس کے ٹیپ ریکارڈر کی آواز آتی۔ میں اکثر لیٹے لیٹے یہ میوزک شوق سے سنتا رہتا، کوئی پسند کا گانا لگ جاتا تو بہت مزہ آتا، تب کونسا گیجیٹس کا زمانہ تھا، نا یو ٹیوب تھا، میوزک ایسے ہی سنتے تھے۔ پاس پڑی ہوئی کچھ کیسٹس بار بار سن لی یا کسی دوست کی بیٹھک میں پڑے میوزک سسٹم پہ سن لیا، ریڈیو کے موسیقی پروگرام رات کے وقت سنا کرتے تھے۔ اچانک اپنی پسند کا میوزک کانوں میں پڑتا تو بہت اچھا لگتا۔ جب بجلی بند ہو تو پھر تو جو کوئی آواز آتی ہے وہ بھی نہیں آتی، سردیوں کی رات ہو تو کئی بار ایسی خاموشی خوفناک حد تک سکوت طاری کر دیتی۔ ایسی خاموشی ہو آپ اکیلے ہوں پاس کوئی موبائل فون نا ہو کوئی ٹی وی بھی نا چل رہا ہو تو آپ کو آپکی سانسوں اپنی دھڑکن کی آواز تک سنائی دیتی ہے۔ یہ سکوت ایک نعمت سے کم نہیں۔

ابو ہر کام خود ہی کیا کرتے۔ کبھی کسی سے نا کہتے، مجھ سے کوئی کام نا کرواتے، شاید میں چھوٹا تھا، یا ان کا لاڈ تھا یا شاید ان کے خود کام کرنے کی عادت تھی۔ دکان کا سودا سلف خود ترتیب دیتے، خود ہی لے کر آتے تھے، وہ بھی سائیکل پر۔ وہ اپنی سائیکل بھی خود صاف کرتے مجھے مدد کے لیے بھی نا کہتے۔ میں کچھ کرتا تو کہتے پتر تم رہنے دو میں خود کر لیتا ہوں۔ انہیں پتا تھا انہوں نے میرے لیے کیا سوچا ہے اسلیے مجھے کبھی دکان کے کام نا سمجھاتے نا ہی کھیتی کا کوئی کام کراتے۔ جو زندگی انہوں نے خود گزاری تھی وہ مجھے اس سے مختلف اور بہت اچھی زندگی دینا چاہتے تھے۔ میں انکا واحد بیٹا تھا۔

مجھے کہتے پتر میں نے بہت محنت کی ہے۔ تمہارے لیے اتنا کر دیا ہے کہ تمہیں میری طرح مشقت نہیں کرنی پڑے گے۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ مجھ سے کتنا پیار کرتے تھے، لیکن کبھی بھی کہہ کر نہیں بتاتے تھے۔ شاید سارے ابا ایسے ہی ہوتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کیا میں اپنے بچوں کا ویسا باپ بن پاؤں گا جیسے ابو میرے تھے؟ وہ مجھے بہت یاد آتے ہیں۔ گاؤں کے گھر کی یاد بھی ان سے ہی منسلک ہے۔ میں بس ان کے ساتھ گزرا تھوڑا سا وقت وہ تھوڑی سی زندگی بہت یاد کرتا ہوں۔ جب شوق سے سائیکل چلاتا ہوں تو انکا ضرورت سے سائیکل چلانا یاد آتا ہے، لالٹین بھی جلاؤں تو ابو یاد آتے ہیں۔

میں انکے ساتھ گزارے لمحے ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گا۔ اللہ انہیں ہمیشہ اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed