Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Yasir
  4. Kya Islami Bankari Mumkin Hai?

Kya Islami Bankari Mumkin Hai?

کیا اسلامی بینکاری ممکن ہے؟

بینکاری کے حوالے سے عام طور پر لوگوں میں ایک جیسی ہی رائے پائی جاتی ہے۔ بینک قرضہ دیتے ہیں اور لوگوں سے سود لیتے ہیں۔ ان کی کمائی حرام ہے اور جو لوگ بینک کے ملازم ہیں ان کی تنخواہ چونکہ سود کی کمائی سے آتی ہے اس لیے وہ بھی حرام ہے اور ان کے قرضوں کے چنگل سے جان چھڑانا آسان نہیں۔ روایتی بینکوں کی حد تک تو کہہ سکتے ہیں کہ ان کا کاروبار ہی سود پہ منحصر ہے لیکن اگر بتایا جائے کہ اس کے متوازی ایسے بینک بھی قائم ہیں جو اسلامی اصولوں پہ کام کرتے ہیں اور ان کے ساتھ بینکنگ کرکے آپ سود سے بچ سکتے ہیں۔ تو تقریباً سو فیصد لوگوں سے ایک ہی جواب سننے کو ملتا ہی کہ چھوڑیں جی نام ہی اسلامی رکھا ہوا ہے کرتے تو وہی کچھ ہیں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی بینکنگ اتنا بڑا سبجیکٹ ہے اسے یونہی چلتے چلتے بات کرتے نہیں سمجھ سکتے اور اتنا سادہ بھی نہیں ہے کہ جلدی سمجھ آ جائے کافی پیچیدہ معاملات ہیں اور اگر کوئی اصرار بھی کرے کہ ذرا سمجھاؤ تو یہ کیسے ہوتا ہے تو پوری بات سننے کے بعد جواب آتا ہے کہ بات تو وہی ہوئی کان ادھر سے پکڑ لو یا ادھر سے۔

تو کیا اسلامی بینکنگ واقعی ایک دھوکہ ہے؟ روایتی بینکاری سے پرہیز کرنے والے کسٹمرز کو اسلام کا نام دے کر اپنی طرف لانے کے لیے یا اسلامی بینک واقعی سود کے خاتمے کے مشن کے لیے قائم ہوئے ہیں؟ ان سوالات کے جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں مرحلہ وار اس موضوع کو سمجھنا ہوگا۔ اسلامی بینکنگ کا آغاز، اسکی تاریخ، اسکے معیار اور اسکے کام کرنے کے طریقے، ان سب کا احاطہ یقیناً ایک کالم میں نہیں ہو سکتا لیکن آج ہم اسلامی بینکنگ کے قیام اور کچھ اسکے اصولوں پہ بات کرتے ہیں تاکہ اس موضوع کو سمجھنے میں کچھ نا کچھ آسانی ہو سکے۔

اسلامی بینکاری کا باقاعدہ آغاز 1975 میں یو اے ای میں دبئی اسلامک بینک کے قیام سے ہوا۔ اس سے پہلے تجرباتی طور پر مصر میں کچھ ادارے کام کر رہے تھے لیکن ایک اسلامی قانون کے تحت باقاعدہ طور پر ایک بڑے بینک کا قیام دبئی اسلامک بینک سے ہوا جس میں شریعت کے طے کردہ اصولوں کے تحت بینکاری کو متعارف کرایا گیا، اس کے بعد سعودی عرب اور ملائشیا میں اسلامک بینک قائم کیے گئے۔ پاکستان میں بینکاری کو سود سے پاک کرنے کے لیے سب سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل نے 1979 میں تجویز دی جس کے بعد 1980 میں اسٹیٹ بینک نے روایتی کمرشل بینکوں کو سود سے پاک پراڈکٹ متعارف کرانے کی ہدایات دی۔ جس کے چند عرصہ بعد بینکوں نے مرابحہ، مضاربہ، مشارکہ اور اجارہ جیسے پراڈکٹ استعمال کرنا شروع کیے۔

پاکستانی عدالتوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور وفاقی شرعی عدالت نے 1991 میں سود کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے حکومت کو اس کے خاتمے کے لیے کہا۔ 1999 میں سپریم کورٹ نے سود کے مکمل خاتمے کا حکم دیا لیکن 2002 میں اس کے فوری انعقاد کو روک دیا گیا۔ 2001 میں اسٹیٹ بینک نے پہلا اسلامی بینک لائسنس جاری کیا جس کے تحت قائم ہونے والا بینک آج پاکستان کا سب سے بڑا سود سے مکمل پاک اسلامی بینک ہے۔

اس کے بعد بینکوں کو مرحلہ وار اسلامی بینکاری کی طرف آنے کی اجازت دی گئی اور روایتی بینکوں نے اپنی اسلامی برانچیں کھولیں۔ اس کاوش میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ 2022 کا ہے جس کے مطابق 2027 تک تمام روایتی بینک مکمل طور پر اسلامی بینکاری کی طرف چلے جائیں گے۔

1990 میں متعدد اسلامی مالیاتی اداروں کے مابین ایک بنیادی معاہدے کے تحت "اکاؤنٹنگ اینڈ آڈیٹنگ آرگنائزیشن برائے اسلامی مالیاتی ادارے" (AAOIFI) کی بنیاد بحرین میں رکھی گئی جو ایک غیر نفع بخش ادارہ ہے۔ اس کا مقصد اسلامی مالیاتی اداروں کی جانچ، جائزے اور حسابی معائنے کی فکر کی ترقی اور اس کی نشر و اشاعت کرنا جیسا کہ تربیتی دورے، مختلف مجالس کا انعقاد، تحقیقاتی مباحث اور اسلامی مالیاتی اداروں کے لیے معیارات (Standards) نشر کرنا ہے۔ یہ تمام کام AAOIFI اسلامی شریعت کے متفقہ احکام اور بنیادوں کے تحت کرتا ہے۔ اس کا مقصد اسلامی بینکاری کے اداروں کے مالیاتی گوشواروں کا صارفین پہ اعتماد قائم کرنا اور اسلامی بینکاری میں سرمایہ کاری اور ان کی خدمات سے استفادہ حاصل کرنے کی تحریک دینا ہے۔

اس ادارے کے کا انتظامی ڈھانچہ جنرل سیکریٹریٹ، بورڈ آف ٹرسٹیز، نگران کمیٹی، جنرل اسمبلی، مجلس شرعی، اکاؤنٹنگ بورڈ اور گورنس و اخلاقیات بورڈ پر مشتمل ہے۔ اسلامی مالیاتی اداروں کے لیے جو معیارات اس ادارے کی طرف سے مرتب کیے جاتے ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ ان کے معاملات اسلامی اصولوں کے مطابق رہ سکیں، اسلامی بینکاری کو ایک واضح نظام دیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے ادارے میں مجلس شرعی کی بنیاد رکھی گئی جس کے اراکین فقہ المعاملات اور اسلامی بینکاری میں امتیازی حیثیت رکھنے والے علما ہیں۔

اس ادارے کی طرف سے اب تک 59 شرعی معیارات (Shariah Standards) شائع ہو چکے ہیں جن میں تقریباً ان تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے جن کی شرعی حیثیت جاننے کے لیے اسلامی مالیاتی اداروں یا اسلامی بینکوں کو ضرورت رہتی ہے۔ یہ معیارات اسلامی بینکاری میں قابل اعتماد رہنمائی کے طور پہ اور ان یونیورسٹیوں میں نصاب کا درجہ حاصل کر چکے ہیں جہاں طلبا اسلامی بینکاری کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ کئی ممالک میں مرکزی بینکوں کی طرف سے اسلامی بینکوں کے لیے ان معیارات کو لازمی یا رہنما ضابطہ مقرر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اب تک AAOIFI کے 20 شرعی معیارات اپنا لیے ہیں جن کی پابندی کرنا پاکستان کے اسلامی بینکوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے۔

ان معیارات کے اجراح سے قبل مجلس شرعی کی طرف سے حتی الوسع احتیاط کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ہر معیار کی تیاری سے پہلے اس موضوع کے ماہر اور عصر حاضر کے علما نے قران مجید، سنت نبوی اور فقہ کی روشنی میں جدید مسائل پر مشتمل بھرپور اور جامع تحقیق کی اور پہلے مشاورتی مسودہ تیار ہوا۔ اس مسودے کو مجلس شرعی کے اجلاس میں پیش کیا گیا جہاں ایک ایک شق پر بھرپور مباحثہ ہوا یہاں تک کے مجلس میں شامل شرعی کمیٹی کے تمام یا اکثریت ممبران کا مکمل اتفاق رائے سے معیار منتخب ہوا۔ اگلے مرحلے میں پھر اسے ادارے کے ایک اجلاس میں پیش کیا گیا جہاں علما اور ماہرین اس پر اپنی آراء کا اظہار کرتے ہیں اور بعض اوقات اس مشاورتی مسودے میں علما کی طرف سے کسی امر کے حذف، اضافے یا تبدیلی کا مشورہ دیا گیا جو اس سے اگلے اجلاس میں غور و خوض کے بعد حتمی مسودے کی شکل میں آیا اور ان سب مراحل کو طے کرنے کے بعد معیار کو باقاعدہ شائع کیا گیا۔

AAOIFI کی طرف سے گورنس معیارات کا اجراح بھی کیا گیا ہے جس کے تحت اسلامی بینکوں کے شرعی ڈیپارٹمنٹ کام کریں گے۔ اس معیار کے تحت اسلامی مالیاتی ادارے یا اسلامی بینک کا ایک شرعی سپروائزری بورڈ ہوتا ہے جو پراڈکٹ اور پالیسی کی حتمی منظوری دیتا ہے۔ ایک شرعی ریویو ہوتا ہے جس کا کام بینک کے روز مرہ کے معاملات کا جائزہ لینا ہوتا ہے آیا کہ وہ لاگو کیے گئے شرعی معیارات کے مطابق ہیں یا نہیں۔ ایک انٹرنل شرعی ریویو ہوتا ہے جو بینک کے اندرونی نظام کا حصہ ہوتا ہے اور اس کا کام مسلسل ریویو کرنا اور چیک کرنا ہے کہ سٹاف اسلامی معیارات کے اصولوں اور اسلامی پراڈکٹ کو صحیح معنوں میں لاگو کر رہا ہے یا نہیں اور کسٹمرز کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے اور معاملات شرعی اصولوں کے مطابق کیے گئے ہیں یا نہیں۔ اسکی رپورٹ شرعی سپروائزری بورڈ اور اسٹیٹ بینک کو بھی دی جاتی ہے۔

اس سب کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی بینکاری کا نظام روایتی بینکاری کے ایک مکمل متبادل کے طور پر آ سکتا ہے اور آنے والے وقت میں تمام تر بینکاری سود سے پاک ہو سکتی ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق اسلامی بینکاری کے معیارات مرتب کرنے اور اسلامی پراڈکٹ کے ڈیزائن میں حتی الامکان کوئی سقم نہیں چھوڑا گیا۔ ہاں اسکے اطلاق میں مسائل آ سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی بینکاری تب ہی ممکن ہے جب صارفین بھی اسلامی بینکاری کرنے کو ترجیح دیتے ہوں۔ لیکن اگر صارفین اسلامی بینکوں سے اپنے معاہدے صرف اضافی دستاویزات سمجھ کر دستخط کریں اور انہیں پراڈکٹ کا صحیح علم نا ہو تو وہ یہی کہیں گے کہ کان ادھر سے نہیں ادھر سے پکڑا ہے۔

اسلامی بینکاری کے موضوع اور اس کی پراڈکٹس کو سمجھنے کے لیے ایک کالم سیریز لکھنے کا ارادہ ہے جن میں ایک ایک کرکے تمام پراڈکٹس کی تفصیل بیان کریں گے۔ انشاللہ اس مضمون کا مکمل احاطہ کریں گے۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz