Kiraye Ki Gari Aur Kiraye Ka Ghar
کرائے کی گاڑی اور کرائے کا گھر

اسلامی بینک سے منسلک ہونے کی وجہ سے اکثر یہ سوال سننے کو ملتا ہے کہ کیا اس بینک سے بغیر سود گاڑی لے سکتے ہیں؟ اور قسط کتنی بنے گی؟ جواب ملنے پر کہا جاتا ہے کہ یہ تو اتنے ہی پیسے بنتے ہیں جتنے ایک روایتی بینک کی گاڑی کی قسط بنتی ہے۔ یہاں میرا سوال یہ ہے کہ یہ کیسے سمجھ لیا جاتا ہے کہ ٹرانزیکشن اگر اسلامی کریں گے تو رقم بھی کم ادا کرنا پڑے گی؟ بینک ایک کاروباری ادارہ ہے اور نفع کمانے کے لیے ہی قائم ہوا ہے۔ ایک اسلامی بینک سے گاڑی لینے اور ایک روایتی بینک سے گاڑی لینے کے لیے ایک جتنی ہی رقم ادا کرنا پڑتی ہے لیکن ایک کی ٹرانزیکشن سود پر مبنی حرام ہے اور ایک کی بالکل جائز اور بلا سود ہے۔ یہ کیسے ہوتا ہے اس کو سمجھ لیتے ہیں۔
جب آپ روایتی بینک سے گاڑی لینے جاتے ہیں تو بینک آپ کو گاڑی کی مالیت کے برابر یا اس سے کچھ کم قرض دے دیتا ہے اور اس قرض کی رقم پر مارکیٹ ریٹ کے حساب سے سود لگایا جاتا ہے اور طے شدہ ادوار کی قسطیں کر لی جاتی ہیں۔ آپ ہر قسط سود سمیت ادا کرتے ہیں اور قرضہ کی رقم پوری ہونے پر بینک گاڑی آپ کے نام کر دیتا ہے جو اس نے سیکورٹی کے طور پر قرضہ کی واپسی تک اپنے نام پہ رکھی تھی۔ اس صورت میں گاڑی کی لیز دورانیے میں اگر گاڑی کو کوئی نقصان ہوتا ہے اور وہ قابلِ استعمال نہیں رہتی تو وہ آپ کے ہی ذمہ ہے۔ بینک اپنی رقم آپ سے بدستور واپس لینے کا مجاز ہوگا۔
جبکہ اسلامی بینک سے اگر آپ گاڑی لیز کرانے جاتے ہیں تو وہاں روایتی لیز کے برعکس "اجارہ" کا معاہدہ کیا جاتا ہے۔ آپ کی مطلوبہ گاڑی بینک خود خریدتا ہے، اس کی انشورنس خود کرواتا ہے اور وہ گاڑی آپ کو کرائے پر دے دیتا ہے آپ بینک کی گاڑی استعمال کرتے ہیں اور ہر مہینے اس کا کرایہ ادا کرتے رہتے ہیں اور بینک اس کرائے کی مد میں ہی اپنا نفع اور اخراجات پورے کر لیتا ہے۔ بینک چونکہ مارکیٹ ریٹ استعمال کرتا ہے اور کرایہ کی بنیاد کراچی انٹر بینک ریٹ ہی ہوتی ہے تاکہ مارکیٹ سے مطابقت رہے تو یہ کرایہ اتنا ہی بنتا ہے جتنا روایتی لیز کی قسط بنتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کوئی گاڑی کرائے پہ لے کر کیوں استعمال کرے، یہ گاڑی کرائے پر لینے والے کی ذاتی ملکیت کیسے بنے گی؟ اس کا طریقہ کار یہ ہے کے معاہدے کے وقت دونوں فریقین یعنی بینک اور گاہک کے درمیان یہ طے پاتا ہے کہ اجارہ کی مدت ختم ہونے کے بعد بینک یہ گاڑی اپنے اس گاہک کو تحفتہً دے دے گا۔ بینک چونکہ کرائے کی مد میں گاڑی کی قیمت اور اپنا نفع موصول کر چکا ہوتا ہے اسلیے وہ ہبہ کے ایک الگ معاہدے کے تحت یہ گاڑی کسٹمر کو ہبہ کر دیتا پے۔ لیکن ہبہ کا یہ معاہدہ اجارہ کے معاہدے سے بالکل الگ ہوتا ہے اور اجارہ کے معاہدے میں ہبہ کی شرط عائد نہیں کی جا سکتی۔
روایتی لیز اور اجارہ میں اس کے علاوہ فرق یہ ہے کہ اجارہ میں گاہک اگر کرایہ ادا کرنے میں دیر کرتا ہے تو بینک اس پہ کوئی اضافی رقم وصول نہیں کر سکتا لیکن اس اسلامی اصول کو غلط استعمال سے بچانے کے لیے معاہدے میں یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ اگر کرایہ ایک مخصوص مدت سے زیادہ دیر سے دیا جائے گا تو اس کے ساتھ ایک طے شدہ تناسب سے کچھ رقم گاہک سے لے کر بینک کسی خیراتی ادارے کو خیرات کرے گا۔ یہ اضافی رقم بینک اپنی آمدن نہیں بنا سکتا۔ اجارہ میں گاڑی کا کرایہ تب ہی شروع ہوتا ہے جب گاڑی گاہک کو استعمال کے لیے مل جاتی ہے جبکہ روایتی لیز میں بینک قرضہ دینے کے پہلے مہینے سے ہی قسط وصول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اجارہ کے دوران اگر گاڑی کو قدرتی آفت سے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کو بینک خود برداشت کرے گا جبکہ روایتی لیز میں ایسا نہیں ہوتا۔
اجارہ کی مدت کے دوران گاڑی کے نفع نقصان کا مالک بینک ہی ہوتا ہے، گاہک صرف اس کے استعمال سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کا کرایہ ادا کرتا ہے۔ گاڑی کی معمولی دیکھ بھال گاہک کے ذمہ ہوتی ہے، جبکہ بڑی خرابی یا تباہی کی صورت میں بینک بطورِ مالک ذمہ دار ہوتا ہے اگر وہ تباہی گاہک کی لا پرواہی کی وجہ سے نا ہوئی ہو۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی بینک مکان کے قرضہ کے لیے کیا طریقہ کار استعمال کرتا ہے جو اسے روایتی بینک سے مختلف اور حلال بناتا ہے۔ روایتی بنک کا اس میں بھی سادہ سا اصول ہے کہ گھر کے لیے رقم قرض پہ دی جاتی ہے اور اقساط کے ساتھ سود وصول کیا جاتا ہے جبکہ اسلامی بینک اس کے لیے "مشارکہ" کا معاہدہ کرتا ہے۔ جو مکان گاہک کو خریدنا ہوتا ہے اس میں کچھ رقم گاہک کی اور باقی بینک اپنا حصہ ڈال کر مکان خرید لیتا ہے اور اسے کسٹمر کو کرائے پہ دے دیتا ہے۔ یہ کرایہ بینک مکان کے اپنے حصے کا وصول کرتا ہے۔ مثلاً اگر گھر کی قیمت 1 کروڑ ہے تو 30 لاکھ کسٹمر اور 70 لاکھ بینک دیتا ہے، کرایہ صرف 70 لاکھ کے حصے پر بنتا ہے۔
مشارکہ کے معاہدے کے تحت مکان کو یونٹس میں تقسیم کیا جاتا ہے اور یہ یونٹ کسٹمر اقساط میں بینک سے خریدتا رہتا ہے۔ جب جب کسٹمر بینک کو اس کے حصے کا کرایہ ادا کرتا ہے ساتھ ہی ساتھ یونٹس کی ادائیگی بھی کرتا رہتا ہے، ایسے ایک ایک کرکے مشارکہ کی مدت ختم ہونے تک وہ گھر کے سارے یونٹس کا مالک بن جاتا ہے اور گھر مکمل طور پر کسٹمر کی ملکیت میں آجاتا ہے۔ یہ "مشارکہ متناقصہ" کہلاتا ہے کیونکہ بینک کا حصہ وقت کے ساتھ کم ہوتا رہتا ہے۔ کرایہ اور نفع نقصان کے اصول جو اجارہ میں بیان کیے گئے ہیں وہی مشارکہ میں بھی لاگو ہوتے ہیں۔ اجارہ میں اثاثے کی مکمل ملکیت بینک کی ہوتی ہے اور مشارکہ میں بینک اثاثے میں حصہ دار ہوتا ہے۔ اسلیے بینک اپنے حصہ کے نفع نقصان کا مالک ہوتا ہے۔ انشورنس کی رقم بینک اور گاہک اپنے اپنے حصہ کے مطابق ادا کریں گے۔
اجارہ اور مشارکہ جیسے معاہدات میں ملکیت، ذمہ داری اور نفع و نقصان کی تقسیم کے اصول واضح طور پر متعین ہیں، جو انہیں سودی نظام سے جدا کرتے ہیں۔ اصل فرق نیت اور طریقۂ کار میں ہے، نہ کہ ظاہری اعداد و شمار میں۔ اسلامی بینک کا نفع حلال ہے کیونکہ وہ حقیقی تجارت اور ملکیت کی بنیاد پر کماتا ہے، قرض پر نہیں۔ یہی اسلامی معیشت کا انصاف پسند اصول ہے جو معاشرے میں برکت اور اطمینان پیدا کرتا ہے۔

