Kaba Kahan Hai
کعبہ کہاں ہے

میں تو سمجھتا تھا کہ مجھ میں بہت تڑپ ہے، مجھ سا مجنوں کون ہوگا جسے اللہ کے گھر کو دیکھنے کی اتنی چاہت ہوگی لیکن مسجد الحرام سے جمعہ کی نماز کے بعد نکلتے ہوئے میں نے ایک ایسے دیوانے کو دیکھا جس کی معصوم شکل اس دن سے میرے ذہن میں ہے، وہ وقت ایسا تھا کہ زیادہ تر لوگ حرم سے باہر آ رہے تھے لیکن وہ شاید اس وقت پہنچا تھا پہلی بار عمرہ ادا کرنے، دیہاتی، سانولا رنگ، ذرا بھاری جسم احرام پہنے ہوئے اپنی برقع پہنی ہوئی بیوی کے ساتھ وہ تیزی سے چلا آ رہا تھا مسجد کی دیواروں کھڑکیوں اور دروازوں کو دیوانگی سے دیکھتے ہوئے وہ اندر جانے کا راستہ ڈھونڈ رہا تھا مجھے سامنے سے آتے ہوئے دیکھ کر اس نے تھوڑا جھجکتے ہوئے انداز میں پوچھا "کعبہ کہاں ہے"۔
اس نے شاید اور لوگوں سے بھی پوچھا ہوگا جنہیں اسکی بولی سمجھ نا آئی ہوگی اسلیے مجھ سے پوچھتے ہوئے بھی اسے یہ خیال تھا کہ اسکی بات مجھے سمجھ آئے گی یا نہیں۔ لیکن میں اسکے چہرے کے تاثرات، اسکی آنکھوں سے اسکی دیدار کی تڑپ کو بھانپ چکا تھا۔ میں رکا اور اسے اچھے سے سمجھایا کہ بھائی فلاں گیٹ سے داخل ہونا اور ضرور اسی گیٹ سے داخل ہونا۔ "کعبہ کہاں ہے" یہ تو تھی اس دیوانے کی کہانی۔
اب آئیے اس طرف کہ پہلی بار عمرہ کے لیے جانے والوں کے لیے مخصوص گیٹ سے ہی حرم میں داخل ہونا کیوں ضروری ہے اور میں نے اس سے اسکا اصرار کیوں کیا۔ میں بھی پہلی بار گیا تھا مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ جس بھی دروازے سے داخل ہوں سامنے کعبہ ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے، مسجد انتظامیہ نے مختلف دروازوں کے داخلے کو تقسیم کر رکھا ہے کچھ دروازے ہیں جہاں سے آپ جائیں تو صرف نماز ادا کرنے کے لیے اوپری منزل یا صحن میں ایسی جگہ ہی پہنچ سکتے ہیں جہاں سے کعبہ نظر ہی نہیں آتا، احرام پہنے ہوئے لوگ چونکہ عمرہ کرنے آ رہے ہوتے ہیں اسلیے جن دروازوں سے وہ لوگ داخل ہوتے ہیں (اگر انہیں پہلے سے سہی دروازے کا پتا ہو) اس سے بغیر احرام والے لوگوں کو داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔
ایک دفعہ جب آپ کو منع کیا جاتا ہے تو لگتا ہے کہ یار ایسا کیوں ہے میں لاکھوں میل دور سے اپنی زندگی کا اہم ترین سفر کرکے پہنچا ہوں اور یہ لوگ مجھے داخلے سے روک کر کہہ رہے ہیں دوسرے گیٹ سے جاؤ۔ لیکن ایسا کرنا وہ اس لیے بہتر سمجھتے ہیں کہ عمرہ کے لیے مخصوص دروازے سے صرف وہ لوگ ہی داخل ہوں جو عمرہ کرنے اسی دن آئے ہیں اور احرام پہنے ہوئے ہیں تاکہ داخلے کے وقت انکی پہلی نظر کی روحانیت برقرار رہے اور مطاف صحن میں زیادہ رش نا ہو اور لوگ آرام سے طواف کر سکیں۔
میں نے وہاں ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جو عمرہ تو پہلے ادا کر چکے تھے لیکن اب مطاف صحن میں بغیر احرام داخلے پر پابندی کی وجہ سے صرف داخل ہونے کے لیے احرام پہن کر آئے تھے۔ میں سمجھتا ہوں یہ زیادتی ہے اور دھوکہ دہی کہ مترادف ہے ایسا نہیں کرنا چاہیے، اگر عمرہ والوں کے لیے ایک حق مخصوص کیا گیا ہے زیادہ رش کی وجہ سے تو پھر واقعی صحن میں صرف عمرہ والے لوگ ہی ہونے چاہئیں۔
انتظامیہ کو بھی یہ ہدایات لکھ دینی چاہیے اور شائع بھی کر دینی چاہیے تاکہ پہلی بار آنے والوں کو پہلے سے صحیح راستہ معلوم ہو، نا کہ ایسا ہو کہ وہ پہنچیں اور گیٹ پر کہا جائے ادھر سے نہیں ادھر سے جائیں۔ میں جب احرام پہنے پہنچا تو عشاء کی نماز کا وقت تھا، بڑے اور مرکزی نظر آنے والے دروازے سے داخل ہونے لگا تو سیکورٹی اہلکار نے کہا ادھر سے جائیں، مجھے نہیں پتا تھا کہ نماز کے وقت مطاف صحن کا داخلہ روک دیا جاتا ہے چاہے احرام پہنا ہی ہو۔
خیر میں نے سوچا ہو سکتا ہی ادھر سے اسلیے داخلہ نا ہو کہ کوئی کام ہو رہا ہو یہاں میں اگلے دروازے سے چلا جاتا ہوں لیکن اگلے دروازے سے جاتا ہوں تو چلتے چلتے پہلی منزل پر پہنچ جاتا ہوں، ستونوں اور دیواروں کے پیچھے سے کعبہ کے کچھ حصے کا پہلا دیدار ہوتا ہے، جو پہلی نظر میں کعبہ کو سامنے اور واضح دیکھنے کی امید تھی وہ تو ختم ہوگئی لیکن کعبہ تو کعبہ ہے اسکی وجاہت اور جلال تو وہی ہے، نظروں نے دیکھا اور دل نے دعائیں مانگیں۔ پھر چلتے چلتے میں نے ادھر کھڑے سیکورٹی اہلکار سے کہا کہ بھائی میں عمرہ کرنے آیا ہوں اور ادھر پہلے فلور پر آ پہنچا ہوں میں صحن میں جا کر طواف کرنا چاہتا ہوں اس نے کہا نماز کے بعد آپ وہاں اس راستے سے نیچے جا سکیں گے، خیر نماز ادا کی اور قریب ہی سیڑھیوں سے نیچے پہنچے صحن میں داخل ہوئے سامنے کعبہ تھا، اصل میں وہ تھی پہلی نظر اور پہلا مکمل دیدار۔ اللہ کی عظمت اور خوف نے اس دل کو گھر کیا اور رحمت کی درخواستیں کی۔
میرا پہلا مشورہ تو پہلی بار جانے والوں کو یہ ہے کہ جانے سے پہلے آپ کو معلوم ہو کہ آپ داخل کس دروازے سے ہوں۔ میری دانست میں آپ گیٹ نمبر ایک یا گیٹ نمبر اناسی سے داخل ہوں اور اگر آپ نماز کے وقت پہنچے ہیں تو بہتر ہے نماز باہر والے صحن میں ادا کرلیں لیکن داخل صحیح دروازے سے ہی ہوں لازماً۔
حرم جا کر وہاں کے انتظامات صفائی اور نظام دیکھ کر آپ کو رشک آتا ہے کہ کتنے بہترین انتظام کیے ہیں لاکھوں لوگوں کے لیے اور کیسے یہ خیال رکھا گیا ہے کہ ایک ایک آنے والے کو کسی قسم کی کوئی تنگی نا ہو۔ لیکن ایک دن حرم کے دوسرے فلور پر نماز والے صحن میں بیٹھے بیٹھے مجھے خیال آیا کہ میں مسجد الحرام میں نماز ادا کرہا ہوں اور کعبہ کا ایک کونہ بھی مجھے سامنے نظر نہیں آ رہا، مسجد میں نماز ادا کرنے والے زیادہ تر نمازیوں کو کعبہ نظر نہیں آتا۔ زیادہ نمازیوں کو عمارت میں سمونے اور اسے مضبوط بنانے کے لیے اسکا ڈیزائن شاید ایسا بنا ہے کہ ستون ہی ستون ہی اور موٹی پختہ دیواریں ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ بلڈنگ کے ڈیزائن کے وقت اس روحانیت کو مد نظر نہیں رکھا گیا کہ زیادہ لوگوں کو کعبہ نظر آئے بلکہ ترجیح یہ تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ سما سکیں۔ کیا یہ انجینئرنگ کی مجبوری تھی؟
میرے خیال میں نہیں، یہ ترجیحات کا فرق تھا، ورنہ عمارت کا ڈیزائن ایسا بھی بنایا جا سکتا تھا کہ زیادہ تر لوگ کعبہ کو سامنے دیکھ سکتے۔ ستونوں کی ترتیب اور انکا اینگل ایسا رکھا جا سکتا تھا کہ ویو لائن خراب نا ہو، پردوں پر شیشے لگائے جا سکتے تھے تاکہ نظر نا رکے، مطاف صحن میں تیس سے چالیس ہزار لوگ آ سکتے ہیں اور پورے حرم کی عمارت میں یہ تیس چالیس ہزار لوگ ہی کعبہ کو سامنے براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔ ایسی کیا ڈیزائن کی مجبوری تھی کہ ایک کرکٹ سٹیڈیم میں تو ڈیرھ لاکھ لوگ ایک پچ کو آنکھوں کے سامنے دیکھ سکتے ہیں وہ بھی گراؤنڈ سے باہر بیٹھ کر لیکن یہاں صرف چالیس ہزار لوگ ہی کعبہ کو دیکھ سکتے ہیں جو کہ ترتالیس فٹ اونچا بھی ہے۔
اور دوسری طرف اگر آپ کلاک ٹاور کے لگثری کمرے میں ڈالر ادا کرکے رہ رہے ہیں تو کعبہ کا مکمل منظر چوبیس گھنٹے آپ کے سامنے ہے، یہ کیسی انجینئرنگ ہے کہ کلاک ٹاور کے شیشوں سے تو کعبہ نظر آتا ہے لیکن حرم کی عمارت سے نہیں اور یہ کیسی ترجیحات ہیں کہ کلاک ٹاور تو پورے مکہ سے نظر آتا ہے لیکن کعبہ پورے مسجد الحرام سے بھی نہیں۔ ہاں صحیح ہے کعبہ کو اونچا نہیں کر سکتے کہ اسکی اصل اونچائی ہی رکھنا چاہیے اور خود کو اور نظروں کو ہی وہاں جھکانا چاہیے لیکن یہ کیا ہے کہ سعودی بادشاہت کے علامت ایک چھے سو میٹر بلند شان و شوکت سے چمکتی عمارت کو کعبہ کے سامنے ہی بنا دیا جائے۔ حرم میں آنے والے لوگ پہلی نظر کعبہ پر ڈالنے سے پہلے اس عمارت کی شوکت سے محصور ہو جاتے ہیں۔ حرم کے صحن میں بیٹھے اس چمکتی عمارت کو دیکھتے ہیں اور تصویریں بناتے ہیں کیونکہ ہر طرف سے نظر ہی وہ آتی ہے اور دلکش بھی لگتی ہے۔
یہ تو تھے تجربات اور کچھ شکایات، اب آخر میں آتے ہیں کچھ مشوروں کی طرف جو ایک پہلی بار کے مسافر کے طور پہ اپنے مشاہدے کے مطابق میں پہلی بار کے مسافروں کو دوں گا۔ ٹوُر کمپنیاں زیادہ تر جدہ۔ مکہ۔ مدینہ۔ مکہ۔ جدہ والا روٹ اختیار کراتے ہیں، میرے خیال میں جدہ۔ مکہ۔ مدینہ والا پلان بہتر ہے۔ وہاں جا کر زیادہ سے زیادہ وقت حرم میں ہی گزارنے کو ترجیح دیں، مدینہ میں ریاض الجنہ جانے کے لیے Nusuk ایپلیکیشن کے ذریعے پہلے سے بکنگ کروا لیں اور وہ جنت کا ٹکڑا ہے وہاں جوتا لے جانے سے گریز کریں چاہے بیگ میں ہی ہو، کم جگہ ہے سب نے نوافل پڑھنے ہوتے ہیں اور لوگوں نے بیچ میں بیگ رکھے ہوتے ہیں۔
ہوٹل صرف سامان رکھیں اور دن میں ایک دو بار کچھ دیر سونے کے لیے جائیں، کھانا پینا اچھا رکھیں لیکن کھانے کے لیے بھی دور دراز نکلنے کی ضرورت نہیں، مزید وقت بچانا ہے تو آن لائین آرڈر کر سکتے ہیں اچھی ایپس موجود ہیں، کافی پاکستانی ہوٹلز بھی ایک بار جا کر آئندہ کے لیے ڈیلیوری منگوا سکتے ہیں۔ شاپنگ میں وقت ضائع نا کریں پیاروں کو گفٹ دینے ہیں تو پاکستان سے ہی لے کر دے سکتے ہیں وہاں بھی زیادہ تر چیزیں چائنہ سے ہی جاتی ہیں، کپڑا پاکستان سے بہترین ملتا ہے (گو کہ میرے ساتھ خواتین نے شاپنگ کی کوئی کسر نہیں چھوڑی)، مکہ میں حرم آتے جاتے چھوٹی چھوٹی چیزیں روڈ پر بک رہی ہوتی ہیں یا ایک ریال دو ریال والی چیزوں کی دکانیں بھی ہیں مناسب قیمت ہوتی ہے نماز سے واپسی پر کچھ دیر رک کر لے سکتے ہیں۔
یہاں سے جاتے وقت سامان کم لے کر جائیں تاکہ واپسی پر کھجوریں زیادہ لا سکیں اور کھجور تو سب کو پتا ہے کہ مدینہ مزارع سے ہی بہترین ملتی ہے۔ زم زم جتنا اجازت ہے اتنا ہی لے کر آئیں بوتلیں بھر کر بیگ میں لانے والی چوری نا کریں۔ ہاں ہینڈ کیری میں چھوٹی ایک دو بوتل رکھنی تو رکھ لیں اسے ائیرپورٹ آفیسر چیکنک کے وقت نکلوانا چاہیں تو نکال دیں لیکن وہ لے جانے دیتے ہیں چھوٹی بوتل تو آپ پینے کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ سامان کی پیکنگ اچھی طرح کریں اور ائیرپورٹ جانے سے پہلے ہی وزن کرکے جائیں۔
دعا کریں اللہ میری یہ حاضری قبول فرمائیں اور میری یہ دعا ہے کہ اللہ آپ سب کو بار بار اپنے گھر بلائے اور آپ بار بار پیارے نبی ﷺ کے روضہ پر سلام کے لیے جائیں۔

