Hamare Column Nigar
ہمارے کالم کار

سنہ دو ہزار بارہ کی بات ہے میں ایک ٹیکسٹائل مل میں نوکری کرتا تھا، مل کی گاڑی افسران کو مختلف مقامات سے لے کر مل پہنچایا کرتی۔ جہاں میرا سٹاپ تھا وہاں سے دفتر پہنچنے میں چالیس سے پینتالیس منٹ لگتے۔ کبھی ساتھیوں سے باتیں کرتے اور کبھی اونگھتے ہوئے یہ پینتالیس منٹ گزرتے۔ وہ بلیک بیری کا زمانہ تھا اینڈرائڈ اتنا عام نہیں ہوئے تھے۔
سیاست اور حالات حاضرہ سے دلچسپی تو تھی، کبھی ٹوئٹر سے خبر اخبار دیکھ لی تو کبھی ای پیپر کھول لیا، وہیں سے کالم پڑھنا شروع کیے۔ بس پھر کوئی خبر نہیں کوئی ٹوئٹر نہیں صرف کالم ہی پڑھا کرتا۔ دلچسپی بڑھتی گئی اور مختلف اخبارات میں لکھنے والے کالم کاروں کو پڑھنا شروع کیا۔ پھر مختلف اخبارات باری باری کھولنے کی بجائے ایسی ویب سائٹس دیکھی جہاں پر سارے کالم کاروں کے شائع ہونے والے کالم ایک جگہ پر مل جائیں۔ ڈیلی اردو کالمز اور اردو کالمز آن لائن سب سے بہترین سائٹس ہیں۔
بس میں سوار ہوتے ہی پڑھنا شروع کر دینا اور پھر دفتر پہنچنے تک اس کے بعد دفتر میں چائے کے وقفے اور کھانے کے وقفے میں میں اس دن شائع ہونے والے سارے کالم پڑھ ڈالتا۔ پڑھنے کی عادت سے بہت فائدہ ہوا، حالات کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کا پتا چلا بہت سی اچھی معلومات روزانہ آشکار ہوئیں۔ اس حساب سے طبیعت میں بھی بدلاؤ آیا۔ پڑھے لکھے لوگوں کی باتیں پڑھ کر بہت کچھ سیکھا۔ پھر دلچسپی کے حساب سے پسند نا پسند بھی الگ ہوئی، سب سے پہلے اپنے پسندیدہ ترین کالم پڑھتا اور پھر بالترتیب سارے پڑھتا۔
سب سے پہلے نمبر پر میں عامر خاکوانی صاحب کو رکھتا ہوں ان جیسا مدلل، دھیما مزاج اور خوبصورت لکھاری کوئی نہیں ہے۔ نا زیادہ جذباتی ہوتے ہیں نا ہی غیر ضروری بات کرتے ہیں بہت ہی خوبصورت انداز ہے۔ اس کے بعد رؤف کلاسرا صاحب آتے ہیں ان سے لگاؤ اس لیے بھی ہے کے ہمارے سرائیکی وسیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہت ہی پیارے انداز میں سیدھ سادھی بات کرتے ہیں۔ اپنے وسیب کے بارے کافی لکھتے رہتے ہیں، سیاست میں جہاں اتفاق ہو یا اختلاف ہو اپنا اظہار اچھے اور صحیح انداز میں کرتے ہیں۔ اوریا مقبول جان صاحب مجھے بہت پسند ہیں، ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں لیکن اپنی طرز کے منفرد آفیسر ہی رہے ہونگے انکی سروس کے زمانے کا تو زیادہ علم نہیں، ان کے کالمز سے ہی اندازہ ہوتا ہے۔
سود کے خلاف انکی کاوشیں قابل تعریف ہیں، انکے کالمز میں پاکستان افغانستان، اسلام اور یہودیت کے موضوعات پڑھنے کو زیادہ ملتے ہیں۔ ان کے بعد پسندیدہ لکھاریوں میں ہارون الرشید صاحب، اظہار الحق صاحب، نذیر ناجی صاحب، حامد میر صاحب، ارشاد احمد عارف صاحب اور کبھی کبھی یاسر پیر زادہ صاحب کے کالم بھی اچھے لگتے۔ ان کے علاوہ ایک اور صحافی صاحب تھے جنکے کالم کافی مشہور تھے، میں نے بھی پڑھنا شروع کیے تو بہت اچھے لگے خاص طور پر سفر پر لکھی ہوئی تحریریں۔ لیکن جیسے جیسے انکی شخصیت کا تعارف ہوا انہیں ٹی وی پر بولتے دیکھا تو ایسا گمان ہونے لگا جیسے جو کالم اخبار میں ان کے نام سے شائع ہوتا ہے وہ انکا لکھا ہوا ہے ہی نہیں بلکہ یہ کسی پڑھے لکھے انٹلکچوئل سے لکھوا کر اپنے نام سے شائع کرا دیتے ہیں۔ خیر پھر انہیں پڑھنا ہی چھوڑ دیا۔
عامر خاکوانی صاحب اور کلاسرا صاحب کی تحریروں سے انکے کتابوں کے ذوق کا بھی پتا چلا اور انکی طرف دیکھ کر کتابیں بھی پڑھنا شروع کی۔ سب سے پہلے انکی اپنی لکھی ہوئی کتابیں پڑھیں، عامر صاحب کی "زنگار"، کلاسرہ صاحب کی تو ساری کتابیں پڑھی، 'گمنام گاؤں کا آخری مزار" بہت پسند آئی۔ پھر انکی تحریروں سے اور بھی اچھی اور مشہور کتابوں کا تعارف ہوا اور پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ ان جیسے بن تو نہیں سکتے لیکن مطالعہ اور علمی حوالے سے ان جیسا بننے کی خواھش ہے۔
اخبار میں کالم کے عنوان کے ساتھ لکھاری کا ای میل ایڈریس لکھا ہوتا ہے، میں اکثر اوقات کالم پڑھ کر اس ای میل پر فیڈ بیک دے دیا کرتا ہوں، کئی لوگوں کا جواب بھی آیا۔ عامر خاکوانی صاحب تو فیس بک پر بھی کافی ایکٹو ہیں اور اپنی کمیونٹی سے بات کرنے کے لیے انہوں نے واٹس ایپ گروپ بھی بنا رکھا ہے۔ ایک بار کرکٹ میچ کے دوران کلاسرہ صاحب ٹوئٹر پر تبصرہ ٹویٹس کر رہے تھے میں نے انکی ایک بات کا جواب انکی ٹویٹ کے نیچے دیا تو انہیں نا گوار گزرا اور مجھے فوراً بلاک کر دیا۔
مجھے بہت افسوس ہوا اور برا لگا، پھر میں نے انہیں ای میل کرکے معذرت کی اور ان بلاک کرنے کا کہا، انکا جواب آیا اور انہوں نے مجھے ان بلاک بھی کر دیا۔ اسکے بعد اکثر کالمز اور انکی کتابیں پڑھنے کے بعد فیڈ بیک ای میلز اور ٹویٹس کی لیکن کبھی انکا جواب نہیں آیا۔ انکے علاوہ ہارون الرشید صاحب اور اوریا مقبول صاحب کبھی ای میلز کا جواب نہیں دیتے، شاید وہ ای میل استعمال ہی کم کرتے ہونگے۔
آج کل میری بینک کی نوکری ہے، موٹر سائیکل یا گاڑی پر دفتر پندرہ منٹ میں پہنچ جاتا ہوں، شام کو واپسی بھی لیٹ ہوتی ہے۔ روزانہ سارے کالم نہیں پڑھ پاتا لیکن ایک دن فرصت میں بیٹھ کر سارے پڑھ ڈالتا ہوں، پھر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے پرانے دوستوں کے ساتھ ملاقات ہوگئی ہو۔ جن سے کبھی روز ملا کرتے تھے۔

