Karachi Ki Bahadur Beti
کراچی کی بہادر بیٹی
گزشتہ دنوں دنیا کے مقبول سرچ انجن گوگل نے اپنا ڈوڈل پاکستان کی سماجی کارکن اور اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈاریکٹر پروین رحمان کی 65 ویں سالگرہ پر ان کے نام کیا۔ یہ دیکھ کر ایک پل تو دل میں میں خوشی بھر آئی کہ پاکستان اور خاص کر کراچی کی اس بہادر بیٹی کی انسانیت اور غریب لوگوں کے لیے خدمات کو عالمی سطح پر سراہا گیا لیکن اگلے ہی لمحے دل اُداسی سے بھر گیا کے آہ! آخر کیوں ہم ہمیشہ ہی اپنے محسنوں کی ناقدری کرتے ہیں۔
پروین رحمان مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے دارالحکومت ڈھاکا میں 22 جنوری سنہ 1957 میں پیدا ہوئیں۔ پروین رحمان نے ابتدائی تعلیم ڈھاکہ میں حاصل کی لیکن بی اے کی ڈگری انجنئیرنگ (آرکیٹیکچر)میں کراچی کے داؤکالج آف انجنئیرنگ اور ٹیکنالوجی (جسے اب یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہے) سے سنہ 1981 میں حاصل کی اوراگلے ہی سال وہ کراچی کی کچی آبادیوں میں رہنے والے غریب لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم اورنگی پائلٹ پروجیکٹ (او پی پی) میں بغیر تنخواہ کے انٹرن کے طور پر ملازمت اختیار کرلی۔
انہوں نے کراچی میں مینگروز کی کٹائی، پانی کی غیر قانونی چوری کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی ان کا خیال تھا کہ کراچی میں پینے کے پانی کی کوئی کمی نہیں بلکہ وه سمجھتی تھیں کہ کراچی کو ملنے والے پانی کی ایک بہت بڑی مقدار (تقریباً 40 فیصد) کو چوری کیا جاتا ہے۔ جس سے شہر میں پانی کی کمی ہوتی ہے اور اس سارے عمل کے پیچھے ایک بہت بڑا مافیا ہے۔ وه شہر میں ہونے والی بے ہنگم تعمیرات کے خلاف بھی ایک توانا آواز تھیں ان کا خیال تھا ترقی اصل میں لوگوں کی ترقی اور ان کی زندگی میں بہتری کا نام ہے نہ کے وه کنکریٹ کے بے ہنگم پھیلتے ہوۓ جنگل کو ترقی کہا جاسکتا ہے۔
شاید اس وقت پروین رحمان کی بات پر ذرا سی توجہ دی جاتی تو آج نہ تو نسلہ ٹاور گرانا پڑتا اور ناہی ہی نالوں پر بنائی گئی غیر کانونی عمارات زمین بوس ہوتیں۔ وه سمجھتی تھیں کے دبئی کسی صورت ہمارے لیے رول ماڈل نہیں ہوسکتا بلکہ ہمارے لیے رول ماڈل ہمارے کراچی کا خوبصورت ماضی ہے۔
13 مارچ 2013 کو پروین رحمان کو دفتر جاتے ہوئے دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے قتل کردیا۔ پروین رحمان کو ان کے ڈرائیور نے شدید زخمی حالت میں عباسی شہید اسپتال پہنچایا تھا، جہاں وہ علاج کے دوران دم توڑ گئیں۔