Dayeron Ka Safar
دائروں کا سفر
دائروں کے سفر کے مسافر کبھی منزل پر نہیں پہنچ سکتے اور ہم بحیثیت قوم پچھلے 75 سالوں سے دائروں کا سفر ہی کر رہے ہیں، ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ رہے ہیں نہ ہی بہتر راستے پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج کا سیاست کا محاذ پھر سے گرم ہے اور موضوع بنا ہوا ہے سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی ممکنہ نااہلی، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم پھر سے دائرے کا چکر لگانے جا رہے ہیں؟ وہ دائرہ جس پر ساری زندگی بھی چلا جائے تو منزل نہیں مل سکتی۔
ستر کی دہائی میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کی مقبول ترین جماعتیں تھیں۔ شیخ مجیب نے انتخابات میں اکثریت حاصل کی مگر انہیں اقتدار نہ سونپا گیا اور اس کا فائدہ بھٹو کو حاصل ہوا، 1977 کے انتخابات میں بھٹو نے اکثریت حاصل کی تو اپوزیشن نے ماننے سے انکار کر دیا نتیجے میں بھٹو کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا، وقت گزرتا گیا دائرے کا سفر چلتا رہا۔
سن 1988 کے انتخابات میں بے نظیر نا صرف پاکستان بلکہ امت مسلمہ کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں مگر مدت پوری ہونے سے پہلے اقتدار سے ہٹا دی گئیں، اس کے بعد نواز شریف کی حکومت بنی تو اسے بھی رخصت کر دیا گیا۔ دونوں کی دو دو حکومتیں اس طرح مدت پوری ہونے سے پہلے ختم ہو گئیں اور دائروں کا سفر چلتا رہا۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے مگر چار سال میں ہی گھر بھیج دیئے گئے۔
2013 میں نواز شریف کی پھر حکومت آئی وہ تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم بنے مگر وہ پھر وقت پورا نہ کر سکے اور نااہل ہو گئے اور دائروں کا سفر چلتا رہا اور آج پھر ہم دائرے کا ایک اور چکر لگانے کو تیار ہیں۔ آج پھر عمران خان کی نااہلی کی باتیں ہو رہی ہیں، آج پھر باقی سب سیاستدان عمران خان کو گرانے میں لگے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا؟ باقی تمام سیاسی لیڈروں کے پیچھے ان کا کوئی نہ کوئی سیاسی وارث تو موجود تھا۔
بھٹو نہ رہے تو بے نظیر نے پیپلز پارٹی کو سنبھالا اور نواز شریف نااہل ہوئے تو ان کے بھائی شہباز شریف اور بیٹی مریم نواز نے پارٹی کو سنبھالا مگر اب بات مختلف ہے، صورت حال مختلف ہے سچ تو یہ ہے تحریک انصاف عمران خان ہے اور عمران خان تحریک انصاف ہے اور عمران خان اس وقت اپنی مقبولیت کے عروج پر ہیں۔ وہ نااہل ہو گئے تو پیچھے کیا رہ جائے گا؟ یقینََ پیچھے عدم استحکام ہی بچے گا۔
امید ہے کہ اس یوم آزادی پر ہم فیصلہ کریں گے کہ ہمیں ان دائروں کے سفر سے نکلنا ہو گا اور اس راستے پر چلنا ہو گا، جس کا خواب ہم نے قیام پاکستان کے وقت دیکھا تھا۔