Aage Barhne Ka Rasta
آگے بڑھنے کا راستہ
انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کہتے تھے کہ "جب بحران اور تعطل پیدا ہوتا ہے تو ان کا کم از کم یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔"
اگر ہم آج پاکستان کے سیاسی، معاشی حالت کو دیکھیں تو ہمیں بہت آسانی سے اس بات کا اندازہ ہوجائیگا کے ہمارا ملک بھی اس وقت سخت قسم کے بحرانوں کا شکار ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو گئے ویسے تو شاید ابھی دو ہفتے ہی ہوۓ ہیں مگر ملک پچھلے دو ماہ سے ایک عجیب کیفیت کا شکار رہا ہے حکومت بجائے ملک کے فیصلے کرنے کے اپنی بقا کی جنگ لڑرہی تھی جبکہ اب حالات یہ ہیں کے نئے وزیر اعظم شہباز شریف کو حلف اٹھاے ایک ہفتہ ہوچکا مگر اب تک وه اپنی کابینہ کو مکمل نہیں کرسکے ساتھ ہی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ حکومت کتنے عرصے چلے گی؟
ایسے حالات میں کوئی بھی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا کیوں کے ملک ایک بحران کا شکار ہے اور اب ہمارے رہنماؤں کو فیصلہ کرنا ہے کے وه اس بحران کے بارے میں کھلے ذہن سے سوچتے ہیں یا نہیں، کیوں کہ اگر یہ بحران اسی طرح چلتا رہا تو اس سے قوم اور ملک کا نقصان ہوگا۔
یہ وقت کے ملک کے تمام سٹیک ہولدڑز مل کر بیٹھیں اور ملک اور قوم کا سوچیں، ہر ایک کو اپنی غلطی کو تسلیم کرنا ہوگا اور سب سے پہلے جتنی جلدی ہوسکے سب کو ایک صاف شفاف الیکشن کی طرف جانا چاہیے مگر اس سے پہلے کچھ اصول ہمیشہ کے لیے طے كرلیں۔
یہ اصول کے آئندہ الیکشن میں جو جماعت جیت کر آئے اس کی حکومت کو دل سے تسلیم کیا جائے اور اسے وقت سے پہلے گرانے کی کوشش نہ کی جائے اور اگر ایسی صورت آے بھی تو اس کا طریقہ کار خالصتا آئینی ہو نہ کے کسی اور جماعت کے لوگوں کو ساتھ ملا کر یا کوئی اور ایسا عمل کرکے حکومت کو گھر بھیجا جائے جو اس عمل کو مبہم کردے۔
ہر وزیر اعظم کو اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرنے دی جائیے اور پھر عوام اپنے ووٹ سے اس حکومت کا احتساب اور اگلی حکومت کا فیصلہ کریں۔ پرانی حکومتوں کے شروع کئے گئے منصوبوں کو سیاسی اختلاف کی نظر کرکے بند نہ کیا جائے اور کسی ملک کو یہ اجازت نہ ہو کے وه ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔
ہمارے رهنماؤں کو قوم کے لیے رول ماڈل ہونا چاہیے۔ انہیں اب اپنی ذات سے آگے دیکھ کر فیصلے کرنے ہونگے۔ یہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے، قومیں مشکل وقت اور ماضی سے سیکھتی ہیں اور ہمیں بھی اب اپنے ماضی سے سیکھنا چاہیے اسی میں ملک اور قوم کی فلاح ہے۔