Ye Jan To Aani Jani Hai, Iss Jan Ki Koi Baat Nahi
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں

آج میرا دماغ ماؤف ہوگیا ہے ہاتھ کانپ رہے ہیں سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کہوں کیا لکھوں، ان ویڈیوز کا منظر بار بار آنکھوں کے سامنے آرہا ہے جس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ دونوں ویڈیوز گزشتہ روز سے وائرل ہوئی ہیں۔ ویڈیوز تو وائرل ہوئی ہیں لیکن ان ویڈیوز نے تمام دیکھنے والوں کے دل چیر کے رکھ دیے سوائے ان قاتلوں کے جو جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں یا جو اس وقت قتل کے موقعہ پر وہاں پر کھڑے تھے اور شریک جرم تھے۔ میرے خیال میں ان قاتلوں کو بھی بعد میں نہ صرف احساس ہوا ہوگا بلکہ شرمندگی بھی ہوئی ہوگی اب یہ شرمندگی ہمیشہ کے لئے ان کے گلے کا طوق بن گی۔
پہلا واقعہ کچھ اس طرح کا ہے کہ ملتان کے علاقے سے تعلق رکھنے والے دو بھائی جو روزگار کی تلاش میں سندھ کے علاقے ٹھل آتے جہاں پر وہ ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ڈاکو تاوان نہ دینے پر تیز دھار آلے سے ایک مغوی کا گلہ کاٹ دیتے ہیں جبکہ دوسرے بھائی کے بھی گلے پر چھُری پھیر دیتے ہیں نعش اور زخمی کو پھینک کر فرار ہو جاتے جب مقتول کے والد ہسپتال میں پہنچ کر اپنے ایک بیٹے کا سر کٹا نعش اور دوسرے بیٹے کو زخمی حالت میں دیکھتا ہے تو بیساختہ وہ ہسپتال کے دیواروں سے اپنا سر ٹکرا ٹکرا کر خون سے لت پت ہو کر بے ہوش ہو جاتے ہیں۔
دوسرا واقعہ ایک بہادر لڑکی کا جس کا جرم پسند کی شادی قرار پاتا ہے۔ کیا دیکھتا ہوں ایک لڑکی جو نہتی لیکن انتہائی بہادر جس کی بہادری کی مثال دینے سے میں قاصر ہوں، درجنوں مسلح افراد کے سامنے موت کو گلے لگانے کے لئے مجمع سے نکلتی ہے صرف اتنا کہتی ہے کہ میں نے شادی کی ہے کوئی زنا نہیں مجھے مرنا تو گولی مرنا مزید میرے ساتھ کچھ نہیں کرنا یہ جملہ ادا کرنے کے بعد مرنے کے لئے باوقار انداز میں پیٹھ کرکے کھڑی ہو جاتی ہے۔ ظاہر درجنوں مسلح افراد میں شامل لڑکی کے والد بھائی قریبی رشتہ دار ہونگے اس بہادر لڑکی نے ان کو ایک بار بھی موڑ کر دیکھا اور نہ ہی کسی سے رحم کی اپیل کی نہ آخری خواہش کا اظہار کیا بس یہی کہا کہ میں نے شادی کی کوئی زنا نہیں مجھے صرف گولی مارنا پھر دیکھتے ہی ان مسلح سورمائوں نے اندھا دھند فائرنگ کرکے ان کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا۔
اس لڑکی کی بہادری کو دیکھ کر حق بات کہنے اور حق کی خاطر جان دینے کا جذبہ آج نہ صرف خواتین میں بلکہ مردوں میں بھی ایک جزبہ پروان چڑھایا ہے کہ جب حق سچ کی خاطر ایک نہتی لڑکی سیسہ پلائی دیوار بن کر اپنی جان دیتی ہے تو ہم مرد ہیں ہم حق کے لیے آواز بلند کیوں نہیں کرتے ہیں بس اس نے تو اپنی جان دی لیکن ہمارے مردہ سماج جو ہر وقت ظلم ہستی ہے لیکن اس معاشرے سے بغاوت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
آج اس لڑکی نے ثابت کردیا کہ موت کو گلے لگا کر ہمیشہ کے لئے امر بن جانا کوئی مشکل نہیں ہے۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی کوئی بات نہیں
سندھ اور بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات تو آئے روز ہوتے آئے ہیں اور پھر بلوچستان میں آنر کلینگ کے حوالے سے میرا نصیر آباد ڈویژن سر فہرست ہے تقریباً پندرہ سال قبل نصیر آباد میں غیرت کے نام پر مبینہ طور خواتین کو زندہ گڑھے میں پھینک کر اندھا دھند فائرنگ کرکے وہی پر ان کو موت کے گھاٹ اتار کر اسی گڑھے پر مٹی ڈال کر وہی پر اجتماعی طور پر ان کو دفن کر دیا گیا تھا۔
اہل علاقہ ایک عرصے تک واقعے سے لاعلم رہے یا پھر جن کو واقعے کا علم تھا تو وہ ڈر خوف یا پھر عزت کی وجہ سے اپنی زبان بند کر رکھی تھی بی بی سی دیگر عالمی نشریاتی اداروں انسانی حقوق والوں کی جانب سے رپورٹیں آئیں تو پھر شور اٹھا یہاں تک کہ ایوان بالا سینٹ میں اس کی بازگشت سنائی دی جس پر بلوچستان حکومت حرکت میں آتی ہے گرفتاریاں ہوتی ہیں اور پھر جرم ثابت ہونے پر سزائیں سنائی جاتیں ہیں۔
گزشتہ روز والے ویڈیو میں کون لوگ ہیں اور وقوع کہاں پر ہوا ہے مکمل حقیقت اور جرم کی اصل نوعیت کیا ہے جس کی اتنی بڑی سزا پسند کی شادی یا کچھ اور ہے۔ کچھ تو حقائق کے بارے میں جان کاری ملی ہے مزید معلومات بھی جلد ہونے کا امکان ہے اس کالم کی اشاعت تک سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ بلوچستان حکومت نے واقعے کی سخت مذمت کرتے ہوئے ہر حال میں ملزمان کو گرفتار کرکے ان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
بلوچستان بار کونسل نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مسلح قبائل کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خاتون مرد کا قتلِ کا مقدمہ متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کے خلاف درج کیا جائے مذکورہ واقع کے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعے ہر طرف سے آواز آٹھ رہا ہے۔ اسلام میں پسند کی شادی کرنا کوئی جرم نہیں ہے تاہم ولی کی رضا مندی کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے پسند کی شادی جائز ہے البتہ اس کی بنیاد اور معیار وہ ہونا چاہیے جو شریعت نے مقرر کئے ہیں احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رشتے کے انتخاب میں مال، دولت، خوبصورتی حسب ونسب اور دینداری میں سے دینداری کو ترجیح دینا چاہیے۔
اب آتے غیرت کے نام پر قتل کی حقیقت پر ویسے تو اس پر بہت کچھ لکھا گیا بہت ہی باریک بینی سے اس کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا گیا مزید اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ میں بس اتنا ہی کہنے اور پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ غیرت صرف اپنی خواتین ہی پر کیوں اپنے مردوں دوسری عورتوں کے لئے بھی یہی جذبہ ہو تو ٹھیک ہے ہم نے اکثر دیکھا کہ شوہر نے بیوی کو بھائی نے بہن کو باپ نے بیٹی کو یہاں تک بیٹے نے ماں کو بھی غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔ یہ کبھی نہیں سنا کہ کسی باپ نے اپنے یا کسی بھائی نے اپنے بھائی یا پھر بیٹے نے اپنے باپ کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا ہو۔ بلکہ جب ان پر سیاہ کار کئے جاتے ہیں تو ان کی جان بچانے کے خاطر ہر طرح کے جتن کرتے ہیں لاکھوں روپے ہرجانہ، زمین یہاں تک کہ خون بہا کے طور پر اپنی بہن بیٹی تک دینے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔
مقصد کسی طرح بھی ہو اس سیاہ کار مرد کا جان بچانا ہے جبکہ عورت کے معاملے میں اس کے برعکس کیا جاتا ہے۔ جو کہ یہ عمل ہمارے معاشرے میں بد نما داغ ہے اس داغ کو مٹانے کی خاطر ہمیں اسلام سے مکمل رہنمائی ملتی ہے بس عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

