Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waris Dinari
  4. Tareekh Saz Faisla, Aman Ki Janib Hawa Ka Pehla Jhonka

Tareekh Saz Faisla, Aman Ki Janib Hawa Ka Pehla Jhonka

تاریخ ساز فیصلہ، امن کی جانب ہوا کا پہلا جھونکا

اس وقت وطن عزیز میں لوگ بیشمار مسائل کا شکار ہیں گو کہ وہ اپنی بساط کے مطابق اپنی طرف سے ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان میں چند مسائل ایسے ہیں جن کو صرف گورنمنٹ ہی بہتر حکمت عملی اختیار کرکے حل کرسکتی ہے جن میں سر فہرست دہشت گردی، امن و امان کی تشویشناک صورتحال۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے واقعات میں تو بیرونی دشمن ملوث ہیں اس وقت ملک میں کہیں پر دہشت گردی ہے تو کہیں پر بد امنی چوری ڈکیتی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے شہری عاجز آگئے ہیں۔

دہشت گردوں کو بیرون سے سپورٹ ملتا ہے تو چور ڈاکووں کو اندرون سے سپورٹ مل رہا ہے اس وقت ملک بھر میں بد امنی لا قانونیت کا دور دورہ ہے۔ تاہم سندھ اور بلوچستان میں امن و امان کی حالت انتہائی ناگفتہ ہے یہ کہ لوگ کہیں بھی اپنی جان ومال کو محفوظ نہیں سمجھتے ہیں۔ رات ہو یا دن گھر دفتر دوکان روڈ راستے ہر جگہ پر خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ آئے روز ڈکیتی کے واقعات نے لوگوں کی راتوں کی نیند دن کاچین سب چھین لیا۔ سزا جزا نہ ہونے کی وجہ سے جرائم کی وارداتوں میں تیزی کے ساتھ اضافہ، یہی وجہ ہے کہ ان جرائم پیشہ افراد کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ رات کا اور گلیاں سڑکیں سنسان ہونے کا انتظار ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ دن دھاڑے سی سی ٹی وی کیمروں لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی لوٹ مار کرنے سے باز نہیں آتے ہیں۔

ان کو نا قانون کا ڈر نہ خوف خدا اور نہ ہی کہیں سے مزاحمت کا خوف کیونکہ ہمارے ہاں سندھ بلوچستان میں درجنوں واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ ڈاکیتی کے دوران اگر مزاحمت کرنے پر رہزنوں کی فائرنگ سے اگر مالک مکان دکان ہلاک ہو جائے تو ان کا خون رائگاں اور گم ہو جاتا ہے۔ اگر اتفاق سے کوئی شخص اپنی جان ومال بچاتے ہوئے فائرنگ سے کسی ڈاکو کو مار دیتا ہے تو نہ ختم ہونے والی دشمنی شروع جب تک مرنے والے اس رہزن ڈکیت کا خون بہا یا بدلا نہیں لیا جاتا دشمنی نے ختم ہونے کا نام نہیں لینا۔ ہمارے یہاں سندھ بلوچستان میں یہ حالت ہے ڈاکوں کو لوگ روڈ پر سر عام لوٹ مار کرتے دیکھنے کے باوجود ان کو پکڑنے یا متاثرہ شخص کو بچانے کی کوشش کوئی نہیں کرتا۔ اس لئے نہیں کرتے ہیں کہ ڈاکو طاقتور ہیں ان سے پنگا لینا بہت مہنگا پڑتا ہے۔

یہی حال بعض پولیس والوں کے ساتھ بھی ہوتا ہوا ہم نے دیکھا یہاں تک کئی پولیس والوں کے پورے خاندان کو جرائم پیشہ افراد نے قتل کر دیا۔ یا پھر پولیس والے پیسے ادا کرکے اپنی جان چھڑاتے ہیں مجھے کئی ایسے پولیس والے ملے جن کا کہنا ہے ہم ڈیوٹی کے دوران اسلحہ ساتھ رکھتے وقت بس اللہ اللہ کرتے ہیں کہ کوئی ہمارا اسلحہ نہ ہم سے چھین لے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ اگر مزاحمت کے دوران رہزن فائرنگ سے ہلاک ہوجاتا ہے تو پھر ہم غریب لوگ عذاب میں آجاتے ہیں۔ معمولی تنخواہ میں ہم لاکھوں روپے خون بہا تو ادا کرنے سے قاصر ہیں پھر ہماری جان چلی جاتی ہے۔ اس طرح کے کئی واقعات ہیں جن کا یہاں پر ذکر کرنا چاہوں تو کئی صفحات بھر جائیں گے۔

میرا ہمیشہ سے اصول رہا ہے کہ میں نے شخصیت پر کبھی بھی لکھنے کی کوشش نہیں کی ہے کچھ شخصیت کردار ایسے بھی ہیں ان کی بعض باتیں خوبیاں اوصاف لکھنے پر مجبور کرتے ہیں میں نے اپنی تیس سالہ صحافتی زندگی میں اس طرح کے دو یا تین ہی کالم لکھے ہیں ایک تو تھا بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے اس وقت کے چیرمین کیلاش ناتھ کوہلی جن کی سچائی اور میرٹ کرنے کی گواہی تمام بلوچستان کے نوجوان عمر بھر دیتے رہیں گے آج بھی آسی طرح کی ایک ہستی کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ جن کا ایک تاریخ ساز فیصلہ صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ اس گراں قدر شخصیت کا نام ہے سردار شفقت حسین جکھرانی صاحب جس نے چند روز قبل ایک تاریخ ساز فیصلہ دے کر سندھ بلوچستان میں لوگوں کے دلوں میں اپنے فیصلے سے نا صرف بے حساب عقیدت محبت پیدا کی بلکہ ان کے لئے امید، حوصلہ اور روشنی کی کرن بھی، سردار شفقت حسین جکھرانی کی صورت میں نظر ائی ہے۔

گزشتہ روز انھوں نے ایک تاریخ ساز فیصلہ کیا جن میں دو قبائل کے درمیان ڈکیتی کے دوران فائرنگ کے دوران ڈاکوں کی فائرنگ سے چانڈیہ برادری کا ایک شخص قتل ہوا تھا جبکہ چانڈیہ برادری کے افراد کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں ایک ڈاکو ہلاک ہوگیا تھا۔ جس کا تاریخی فیصلہ سردار شفقت حسین جکھرانی نے اس طرح کیا کہ جو ڈاکو فائرنگ میں ہلاک ہوگیا اس کا خون بہا کچھ نہیں اس کا خون رائیگاں جبکہ ڈاکوں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے شخص کا خون بہا دگنا یعنی ایک تو جان جانے کا دوسرا ان کا مال چھینے کا، اس طرح ڈاکوں پر دو ہرے قتل کے تاوان کا تاریخی حکم سنایا، مذکورہ فیصلہ ملک بھر میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے پر لوگوں نے اس تاریخ ساز فیصلے کو امن کی بحالی کا پہلا قدم کہا تو کسی اسے امن و امان کے لئے ہوا کا پہلا جھونکا کہا ہے۔

جب اس تاریخی فیصلے کے بارے میں راقم الحروف نے سردار شفقت حسین خان جکھرانی سے فون پر رابطہ کیا تو انھوں نے اسی وقت فون ریسیو کیا حالانکہ میرا نام نمبر ان کے پاس محفوظ نہیں تھا خیر سلام کے بعد اپنا مختصر تعارف کرانے کے بعد میں نے انھیں تاریخی فیصلہ سنانے پر مبارکباد دی۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کے فیصلوں سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ جرائم پیشہ افراد کے سخت خلاف ہو، ایک اکیلے آپ کے اس عمل کا کوئی خاص اثر تو نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ دیا۔ ہر ایک کی اپنی سوچ ہے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ سرداروں کی اکثریت چور ڈاکووں کے خلاف ہیں۔ انشاء اللہ وہ بھی ان قریب اس طرح کے فیصلے سنانے شروع کریں گے۔ کیونکہ لوگ سخت پریشان ہیں۔

اللہ کرے کہ انسانیت دوست سردار شفقت حسین خان جکھرانی کی یہ خواہش پوری ہو۔ ویسے دیکھا جائے تو جرائم پیشہ افراد کو پولیس کی کم قبائلی معتبرین بعض سرداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ کیونکہ اس طرح کے جرائم پیشہ افراد ہی ان کے گن مین اور فرنٹ مین ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے۔ جس طرح سردار شفقت حسین جکھرانی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چوری ڈکیتی کے دوران اگر چور مرجائے تو اس کا خون بہا کچھ نہیں بلکہ اس کا خون رائیگاں جبکہ اپنی مال کی حفاظت کرتے ہوئے مزاحمت کے دوران مالک قتل ہو جاتا ہے تو چور دوہرے قتل کا تاوان ادا کرنے کا پابند ہے۔

اسی طرح سندھ بلوچستان کے دیگر معزز سردار اور قبائلی عمائدین بھی محترم سردار شفقت حسین جکھرانی کی تقلید کرتے ہوئے اعلان کریں۔ تو میں سمجھتا ہوں سندھ بلوچستان میں مہینوں نہیں دنوں میں امن قائم ہو جائے گا۔ نیز قبائلی دشمنی کے نام پر بعض علاقوں میں کافی لوگوں نے لوٹ مار مچائی ہوئی ہے۔ قبائلی دشمنیوں کو ختم کرنے میں بھی تمام سردار اپنا کردار ادا کریں۔ بس بہت ہوگیا جنگ جدل اب سب کو امن کی طرف لوٹ آنا چاہیے۔ تاکہ کسی طرف سے عوام کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہو۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan