Lut-te, Lutaate
لٹتے، لٹاتے

اس وقت ہر پاکستانی ملک میں مہنگائی بیروزگاری کا رونا روتے ہوئے آپ کو ملے گا۔ اس کے باوجود آپ نے دیکھا کہ خوشی غمی شادی بیاہ کے موقعوں پر جس طرح کا اسراف اور نمود و نمائش کی جاتی ہے۔ کوئی بھی متوسط گھرانہ اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ہیں اس کے باوجود دیکھا دیکھی میں ہم لوگ اپنی حیثیت سے کئی گنا زیادہ خرچ کر بیٹھتے ہیں اور پھر تمام عمر روتے ہوئے قرض چکانے میں گزار دیتے ہیں یہی نہیں لوگوں میں خود کو نمایاں کرنے اپنے آپ کو مالدار ثابت کرنے کے لئے شوخی میں جب ہم اپنے دوستوں رشتہ داروں کے ساتھ کسی شاپنگ مال یا کسی ریسٹورنٹ میں داخل ہوتے ہیں۔ گو کہ ہمارا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہونے کے باوجود ہم وہاں پر حاتم طائی بن جاتے ہیں کوئی حساب کتاب بل چیک کئے بغیر خوشی خوشی ایک بھاری رقم بمعہ ٹپ ادا کرکے چلے جاتے ہیں۔
آپ میں سے کئی لوگ اس طرح کے مراحل سے گزرے ہونگے۔ جو ناچاہتے ہوئے بھی اس طرح کر بیٹھتے ہیں اس طرح کے مناظر آپ کو ہر جگہ نظر آتے ہیں تاہم کچھ جگہوں پر ان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ جیسے کہ کے ایف سی، پیزاہٹ، میکڈونلڈ وغیرہ اسی طرح برانڈ اور سروس چین کے نام پر قائم ان مارکیٹوں میں ایک ہی چیز کے مختلف علاقوں میں ریٹ مختلف ہوتے ہیں۔
ایک ہی معیار کی مختلف اشیاء خوردونوش کی مختلف ریسٹورینٹ میں قیمتیں بھی مختلف ہوتی ہیں یہی نہیں مختلف نجی سکولز کالجز کا بھی یہی حال ہے ان کی فیسیں دیگر اخراجات جو کہ نا قابل برداشت ہونے کے باوجود صرف اس وجہ سے ہم اپنے بچوں کا وہاں پر ایڈمیشن کراتے ہیں کہ یہاں اس سکول کالج میں بڑے لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں گو کہ اس سے کئی گنا کم اخراجات میں اسی معیار کی تعلیم فراہم کرنے والے کئی سکول موجود ہوتے ہیں لیکن بس نام کی خاطر ہم یہ سب کچھ کرتے رہتے ہیں اس طرح کی کئی جگہیں ہیں جہاں پر ہم خوشی خوشی اپنا پیسہ لوٹاتے رہتے ہیں، جن میں سے چند ایک کی نشاندھی کی گئی ہے جہاں پر بعض اوقات دل نہیں کرتا ہے اس کے باوجود اپنی دولت لوٹاتے پیسہ برباد کرتے رہتے ہیں۔
اب آتے ہیں اس طرف جہاں پر ہمیں لوٹتے ہیں۔ ہمارے یہاں لوٹ مار کے حوالے سے کچے کے ڈاکوں کا نام آتا ہے دیکھا جائے تو ملک میں کئی قسم کے ڈاکو پائے جاتے ہیں البتہ کچے کے ڈاکو گن پوائنٹ پر لوٹتے ہیں جبکہ پکے کے ڈاکوں کا طریقہ واردات کئی قسم کا ہوتا ہے ان میں سے چند ایک پر کچھ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں یہ سنی سنائی باتیں نہیں بلکہ حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ بیشتر قومی شاہراہوں پر واقع کاروبار کرنے والے حضرات جن میں ہوٹل ٹک شاپ والے خاص طور پر لوٹ مار کرنے والوں میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے مسافروں کو تو یہ لوگ دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ یہ ڈرائیور حضرات اپنی گاڑیاں ایسے ایسے ویران جگہوں پر روکتے ہیں جہاں آس پاس کوئی ہوٹل یا شاپ نہیں بس یہ سب مسافر اسی ایک ہوٹل اور ایک ہی ٹک شاپ والے کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔
کوچ یا ویگن کے ڈرائیوروں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ یہ لوگ کس طرح مسافروں کو لوٹتے ہیں بس ان کو اور ان کے اسٹاف کو فری میں طرح طرح کے لزیذ کھانے چاہے بوتل مل جائے باقی تمام مسافر بھاڑ میں جائیں ان کو جس طرح کا کھانا ملے جس قیمت میں ملے گاڑی والوں کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہے ڈرائیوروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ملک بھر میں مختلف روٹس پر پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والے سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد گواہی دیں گےکہ کس طرح یہ ہوٹل اور ٹک شاپ والے غریب مسافروں کی کھال ادھیڑنے میں مصروف ہیں اسی ہوٹل کے ٹک شاپ پر جائیں تمام اشیاء خوردونوش عام دوکان کی نسبت بیس سے چالیس فیصد زائد قیمتوں پر فروخت کی جاتیں ہیں۔
آٹھ دس گھنٹے کی طویل سفر میں یقیناً انسان کو بھوک اور پیاس بھی لگتی ہے قریب کوئی شاپ نہ ہونے کی وجہ مسافر مجبور ہو کر زیادہ قیمت ادا کرکے چیزیں لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں یہی نہیں اسی ہوٹل میں کھانا کھانے یا چائے پینے کے بعد اسی مسافر کو رفع حاجت کرنے کے لئے بھی پیسے دینے پڑے ہیں۔ یہی لوٹ مار بعض پٹرول پمپس سی این جی اسٹیشنز ان کے ساتھ واقع ٹک شاپ پر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ایک عام پانی کی بوتل نیسلے، داسانی، ایکوافینا وغیرہ جو کہ شہر کے گلی محلوں کے دوکانوں پر بھی ایک سو دس سے ایک سو بیس میں فروخت کی جاتی ہیں لیکن یہاں پر ایک سو تیس سے ڈیڈھ سو روپے میں یہ ٹک شاپ والے فروخت کرتے ہیں۔
پہلے آپ ان سے پانی کی بوتل مانگیں تو آپ کو لوکل پانی دیں گے کیونکہ اس میں مارجن زیادہ ہے۔ بہت اسرار کرنے پر آپ کو معیاری پانی منہ مانگے قیمت پر دینے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ جب کہ ان پٹرول پمپ پر واقع باتھ رومز کے باہر ایک شخص بیٹھا ہوا آپ کو نظر آتا ہے باتھ روم استعمال کرنے کے پیسے دینے پڑے وہ تو شکر ہے مساجدوں میں نماز ادا کرنے کے پیسے نہیں لیتے لگتا ہے ایک دن اس کے پیسے بھی وصول کرنا شروع کردیں گے۔ مقدار میں چیلر پیسے پانچ دس روپے واپس نہ کرنے کی شکایات عام سی بات بن گئی ہے۔ پٹرول پمپس اور سی این جی لگانے کے لائسنس این او سی لائسنس جاری کرتے وقت کئی شرائط ہوتے ہیں۔ جن میں چند ایک یہ بھی ہیں مسجد پبلک باتھ رومز پینے کے لئے صاف ٹھنڈے پانی کی فراہمی RO پلانٹ کی تنصیب۔ ٹائر شاپ جہاں پر گاڑیوں کے ٹائروں کی ہوا چیک کرنے کے ساتھ بلا معاوضہ ہوا بھرنا شامل ہے مذکورہ تمام سہولتیں مفت فراہم کی جانی ہوتی ہیں۔
اگر کہیں پر ان سہولیات فراہم کرنے پر کوتاہی نظر آئے مذکورہ بالا سہولیات فراہمی پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا تو پٹرول سپلائی کرنے والی کمپنیوں علاقے کی ڈسٹرکٹ انتظامیہ اوگرا کو شکایت کی جاسکتی ہے۔ جس پر کوتاہی ثابت ہونے پر بھاری جرمانے اور پمپ کو سیل بھی کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ اگر کوئی ہمت کرکے ان با اثر افراد کے خلاف آواز اٹھاتا بھی ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی ہے اور پھر مسافر مجبوری میں لوٹتے رہتے ہیں چند ماہ قبل میں کراچی میں ایک بہت بڑے پٹرول پمپ جن کی کراچی میں کئی شاخیں ہیں حب ریور روڈ واقع پٹرول پمپ سے پٹرول لینے کے بعد ٹک شاپ سے پانی لینے گیا تو دیکھا وہاں پر لوکل اور امپورٹڈ پانی رکھا ہوا تھا۔
لوکل پانی مجھے پینا نہیں تھا جبکہ امپورٹڈ پانی مہنگا ہونے کی وجہ سے میں پی نہیں سکتا تھا جب میں نے کہا کہ بھائی مجھے ایکوفینا، داسانی، یا نیسلے دیں تو انھوں نے معزرت کی میں نے پمپ کے مینیجر سے ملنے کو کہا تو گارڈ نے بتایا کہ وہ مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں تو میں نے بھی سفری نماز ادا کرکے مینیجر صاحب کے باہر نکلنے کا انتظار کیا خیر کچھ دیر کے بعد موصوف مسجد سے باہر آئے تو میں نے ان کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہوئے سوال کیا آپ کے ٹک شاپ پر پانی نہیں لوکل پانی مجھے پینا نہیں ہے جبکہ امپورٹڈ پانی مہنگا ہونے کی وجہ سے میں پی نہیں سکتا آپ نے داسانی نیسلے وغیرہ کیوں نہیں رکھا ہے تو موصوف نے کہا کہ بھائی ہم یہودیوں کے مصنوعات نہیں رکھتے ہیں۔
میں نے کہا یہودیوں کے تمام مصنوعات یا صرف پانی تو انھوں کہا کہ نہیں تمام جس پر میں نے عرض کیا کہ بھائی یہ پیپسی کوک۔ لیز چپس لیو کے بسکٹ وغیرہ تو رکھے ہوئے ہیں یہ پھر کس حاجی صاحب کے فیکٹری کے ہیں۔ میں نے انھیں کہا کہ میں حب جارہا ہوں دو دن کے بعد واپسی ہے آگر دو دن کے بعد میں نے ان تینوں کمپنیوں میں سے کسی ایک کمپنی کے پانی کی بوتلیں نظر نہ آئے تو میں لائیو ویڈیو ریکارڈ کرکے تمام گروپوں میں شئیر کروں گا۔ جس پر اس نے معزرت کرتے ہوئے کہا کہ کل تک آپ کو پانی کی تینوں برانڈ ملیں گے اور منت سماجت کرکے مجھے فری امپورٹڈ پانی کی بوتل دے کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی۔ دن رات یہ ہوٹل۔ ٹک شاپ۔ پٹرول پمپس والے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں انتظامیہ دیگر متعلقہ اداروں کو یہ ظلم ذیادتیاں نظر کیوں نہیں آتیں ہیں کیا ان سب کا غصہ ایک ریڑھی والے پر نکلتا ہے کیا لاوارث پھل سبزی پھل فروش ہیں ان کو سزائیں جرمانہ کیا جاتا ہے۔ تمام متعلقہ اداروں سے گزارش ہے کچھ اس طرف بھی توجہ مبذول کریں۔

