Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waris Dinari
  4. Kya Hamare Muntakhib Numaindon Ki Yahi Zimmedari Reh Gayi Hai?

Kya Hamare Muntakhib Numaindon Ki Yahi Zimmedari Reh Gayi Hai?

کیا ہمارے منتخب نمائندوں کی یہی زمہ داری رہ گئی ہے؟

ہر دور میں ہر حکومت کی جانب سے عوام کی فلاح و بہبود ان کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ جن میں پانی، بجلی، گیس، صحت، صفائی، تعلیم، روزگار، امن و امان، ذرائع مواصلات، سڑکیں وغیرہ جیسی سہولتیں شامل ہیں۔ ان ترقیاتی منصوبوں کو منتخب عوامی نمائندوں مقامی حکومتوں یعنی لوکل گورنمنٹ اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ کی معاونت سے سر انجام دیے جاتے ہیں۔ یعنی ایم پی اے ایم این اے سینیٹرز کے فنڈز کو ان ہی کے صوابدید پر خرچ کردیا جاتا ہے۔

اسی طرح سٹی گورنمنٹ اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے فنڈز میئر اور کونسلروں کی صوابدید پر خرچ ہوتے ہیں۔ ہر جگہ یہی طریقہ رائج ہے۔ بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں پارلیمنٹرین کا کام صرف قانون سازی خارجہ پالیسی ہے۔ بنیادی عوامی سہولتوں کی فراہمی کا کام لوکل گورنمنٹ کے زمہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی ہے تو اسی طرح لیکن ہوتا نہیں ہے خیر وطن عزیز میں کونسلر سے لے کر ایم پی، اے ایم این اے، سینیٹر تمام منتخب نمائندوں کو فنڈز دیئے جاتے ہیں۔ تاکہ وہ اپنے اپنے حلقے کے عوام کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کو پورا کرنے اور فلاح و بہبود کے لئے یہ پیسے خرچ کریں۔

دیکھا گیا ملک بھر میں اس طرح کے فنڈز کو اجتماعی مفاد کے منصوبوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ جس سے علاقے کے تمام لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے میرے صوبے بلوچستان میں خصوصاً نصیر آباد ڈویژن میں اس کے برعکس ہوتا آیا ہے۔ اجتماعی کاموں کی نسبت انفرادی کاموں کو ترجیح دی جاتی ہے شہر ہو یا دیہات ہر جگہ پر آپ کو یہ فرق نظر آئے گا۔ یہاں تک کہ درجہِ چہارم کے سرکاری ملازمتوں میں بھی یہی طریقہ روا رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہیں پر صرف چند گھروں پر مشتمل گوٹھ میں آپ کو پختہ سڑک سکول کیمونٹی سنٹر بجلی سمیت ہر طرح کی سہولت نظر آئے گی۔ لیکن کافی بڑے گوٹھوں میں ان سہولیات کا تصور نہیں ہے یہی نہیں ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے بھی اپنے ہی من پسند ٹھیکیداروں کو دیئے جاتے ہیں۔

یہ ذیادتی نا صرف دیہاتوں میں بلکہ شہروں میں بھی نظر آتی ہے اس وقت استا محمد شہر جو ضلعی ہیڈکوارٹر بھی ہے میں ایم پی اے فنڈز سے بجلی کی فراہمی کا ذکر کرنا چاہوں گا شہر کے کئی گلی محلے ہیں جہاں پر دور تک کوئی 50-25 کے وی کا ٹرانسفارمر نظر آئے تو بڑی بات ہے کچھ گلی محلوں میں بالکل قریب قریب 200-100 کے وی کے ٹرانسفارمر ملیں گے یہی نہیں بعض گلی محلوں میں دو دو فیڈروں سے بھی لوگ فیضیاب ہوتے ہیں۔ تو کوئی ایک سنگل کنکشن کے لئے پریشان ہے کسی کے تو دو فیڈروں سے بلا تعطل بجلی جاری ہے۔ یہاں تک اگر کسی گلی نکڑ پہ کوئی ٹرانسفارمر سے بجلی کا سنگل کنکشن لینا چاہیے تو ناممکن ہے کیونکہ یہ ٹرانسفارمر تو میں نے اپنے تعلقات کی بنیاد پر منتخب نمائندے سے لیا ہے۔

بجلی میری مرضی سے چلے گئی اور ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں میٹروالے باقاعدگی سے بل کی ادائیگی کرنے والے بیچارے بجلی سے محروم جبکہ پھوٹی کوڑی بھی حکومت کو نہ دینے والے ائیر کنڈیشنر کے مزے لوٹتے رہتے ہیں۔ یہی حال لوکل گورنمنٹ کے نمائندوں یعنی بعض کونسلرز حضرات کا ہے جو باقاعدگی کے ساتھ ہر بار جو بھی ترقیاتی کام کے لئے فنڈز ملتے ہیں اپنی ہی گلی میں خرچ کراتے ہیں باقی پورے وارڈ والے جائیں بھاڑ میں۔

اس طرح کی زیادتیاں آپ کو میرے علاقے میں ہر جگہ نظر آئیں گی۔ اجتماعی مفادات کے کاموں کا تصور بہت ہی کم ہے ضد اور انا کا مسئلہ درپیش ہے ہمارے یہاں اجتماعی کاموں کو کیوں ترجیح نہیں دی جاتی ہے یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔ یہی نہیں استا محمد شہر میں آپ کو سرکاری دفاتروں کی لوکیشن بھی حیران کر دینے والی ہے واپڈا آفیس شہر کے مشرق میں تو سوئی سدرن گیس کمپنی کا دفتر شہر کے مغرب میں یہی حال دوسرے سرکاری دفاتروں کا ہے دیکھا جائے تو مختلف سرکاری محکموں کو جمالی خاندان نے رضاکارانہ طور پر بلا معاوضہ زمینیں دی ہیں۔ جن میں گورنمنٹ ہائی سکول استا محمد بی اینڈ آر سٹی پولیس تھانہ لیبر ہسپتال وغیرہ کی قیمتی اراضی شامل ہیں۔

اس وقت شہر کے وسط میں بہت بڑی اراضی سرکاری زمین محکمہ زراعت کے پاس موجود ہے جو کہ سیڈ فارم کے تصرف میں ہے جس کا بہت بڑا رقبہ ایسے ہی غیر آباد بنجر بیکار پڑا ہے یہی پر جوڈیشل کمپلیکس بنائی گئی اس کے سامنے پی سی بی کرکٹ اسٹیڈیم بنایا گیا ہے، کچھ ہی فاصلے پر پولیس لائن بن رہی ہے فارسٹ آفیس بھی اسی جگہ بنایا گیا ہے اگر صوبائی حکومت منتخب نمائندے چاہیں تو تمام دفاتر ایک ہی جگہ پر بنائے جاسکتے ہیں۔ جس کے لئے زمین بھی موجود ہے اور وسائل بھی پیدا کئے جاسکتے ہیں بس صرف نیک نیتی سے کوشش کرنے کی ضرورت ہے اگر ایک ٹاؤن کمیٹی کا چیئرمین ایک کثیر منزلہ سیوک سینٹر بنا سکتا ہے تو ہمارے نمائندے یہ کام کیوں نہیں کر سکتے ہیں۔

سیوک سینٹر سے مجھے یاد آیا کہ حب چوکی اور استا محمد دونوں کا ضلع بننے کا نوٹیفکیشن ایک ساتھ جاری ہوا تو میں اس وقت حب میں تھا سابق میئر میونسپل کارپوریشن حب وڈیرہ رجب کو ضلع بننے کی مبارک باد دی میں نے کہا کہ حب استا محمد کی طرح ضلع تو بن گیا لیکن اس نو زائیدہ ضلعے کو فعال ہونے میں کافی وقت درکار ہوگا انھوں نے کہا کہ وہ کس لئے تو میں نے کہا کہ مختلف محکموں کے ضلعی سربراہان کے دفاتر اور ان کے لئے رہائش گاہیں وغیرہ بنانے میں تو کافی وقت درکار ہوگا انھوں نے بتایا کہ یہ کثیر منزلہ سیوک سینٹر کس کام کے لئے بنایا ہے تمام محکموں کے دفاتر آسانی کے ساتھ اس میں آ سکتے ہیں۔

آج کالم لکھتے وقت میں نے حب سیوک سینٹر کے بارے میں معلومات لینے کے لئے حب پریس کلب کے صدر سینئر صحافی چیف ایڈیٹر روزنامہ بولان محمد الیاس کمبوہ صاحب سے رابط کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ کثیر منزلہ عمارت تقریباً 25 سال قبل اس وقت حب چوکی ٹاؤن کمیٹی کے چیئرمین پرنس علی نے بنوایا تھا پانچ منزلہ یہ خوبصورت بلڈنگ حب شہر کے وسط میں مین آر سی ڈی شاہرہ کوثئہ روڈ پر واقع ہے اس وقت بلڈنگ میں درجن بھر سرکاری دفاتر واقع ہیں جن میونسپل کارپوریشن حب، نیشنل بینک، نادرا کے الیکٹرک سوئی سدرن گیس کمپنی، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، ڈی ایس پی ٹریژری، فشریز وغیرہ کے دفاتر اس سینٹر میں قائم ہیں۔ کئی ایک کے نام لکھنے سے رہ گئے ہیں۔

تمام دفاتر ایک چھت تلے ہونے سے لوگوں کے لئے بہت زیادہ آسانی ہے ایک تو ان کا وقت پچتا ہے تو دوسری جانب ٹرانسپورٹ کا خرچہ بھی ہر لحاظ سے نہ صرف عوام کے لئے آسانی کا باعث ہے بلکہ سرکار کے لئے بھی تمام اہم دفاتر ایک جگہ پر ہونے کی وجہ سے ان کے لئے سیکورٹی کے انتظامات کرنا بھی قدرے آسان ہوتا ہے 25 سال قبل بنائے گئے حب کے اس انتہائی قیمتی اثاثے سے روزانہ سینکڑوں لوگ مستفید ہورہے ہوتے ہیں۔

ضلع حب چوکی کا کوئی باسی سیوک سینٹر میں داخل ہوتا ہے تو پرنس علی اور ان کے رفقاء کے لئے بیساختہ دل سے دعا نکلتی ہے۔ ان کے ویزن کو سلام پیش کرتے ہیں۔ میرے یہاں بھی بہت سارے پرنس ہیں جو ایچی سن اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ لیکن ہمیں تلاش اور انتظار ہے پرنس علی جیسے لیڈر کا جو انفرادی کاموں کے بجائے اجتماعی کاموں کو ترجیح دے کر ایسے مفید کام کروائے جن سے حلقے کے لوگ دیر تک مستفید ہوتے رہیں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam