Kuch To Zimmedari Ka Saboot Dein
کچھ تو زمہ داری کا ثبوت دیں

بلوچستان بھر میں موبائل فون پر ایک ماہ تک انٹرنیٹ کی بندش سے جس تکلیف سے ہم گزرے ہیں وہ ہم ہی جانتے ہیں کاروباری افراد طلباء سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم استعمال کرنے والوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بیان کرنے سے باہر ہے البتہ جن کے پاس ڈی ایس ایل کی سہولت دستیاب تھی انھیں موبائل فون پر انٹرنیٹ کی بندش سے زیادہ فرق نہیں پڑا۔ خیر یہ مشکل وقت بھی جیسے تیسے کرکے ہم نے گزار لیا۔
جیسے ہی آن لائن ہوئے تو ملک بھر میں بارشوں سے ہلاکتوں اور تباہی کے مناظر دیکھنے کو ملے جس طرح سیلاب سے لوگوں کے گھر مال مویشی ڈوب گئے اسی طرح ان تباہی کے مناظر دیکھ کر لوگوں کے دل بھی ڈوب گئے۔ مون سون بارشوں کا سلسلہ تو جون کے آخری ہفتے سے شروع ہوا۔ جو۔ تاحال جاری ہے اور ہر آنے والے دن میں اس میں شدت دیکھی گئی۔ بارشوں سے جو جانی مالی نقصان ہوا۔ سو ہوا۔ پر اس دوران بھیڑ چال کا جو ماحول دیکھنے کو ملا اس کی مثال نہیں۔
بھیڑ چال کیا ہے؟ ان دیکھے بغیر سوچے سمجھے کسی کو فالو کرنا بغیر نفع نقصان جانے کسی کی پیروی کرنے کا نام بھیڑ چال ہے جیسے انگلش میں Crowd Hred of Sheep کہتے ہیں۔
پاکستان میں تقریباً ہر شخص کسی نہ کسی اسی طرح بھیڑ چال کا شکار ہے ہیں بھیڑ چال ایک مخصوص ذہنیت کا نام تھا۔ اب اس کو مختلف نام دے دیئے گئے ہیں ہماری سماج اور معاشرے میں کہیں سیاست تو کہیں پر مذہب تو کہیں پر فشن رسوم و رواج کا نام دیا گیا ہے اور ہم لوگ ریوڑ کی صورت میں اندھی تقلید کرنے پر مجبور ہیں۔
حالیہ بارشوں میں، میں سوشل میڈیا پر سیلابی صورتحال کے بارے میں رپورٹنگ میں بھیڑ چال کا ماحول دیکھا نا قابل بیان ہے بعض ہمارے میڈیا کے رپورٹرز نے جس طرح کی غیر سنجیدگی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے سنسنی خیزی اور بےجا خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ تقریباً ہر چینل کی ہیڈ لائنز کچھ اس طرح کا رہی۔ دریا بپھر گئے۔ سیلاب نے ہر طرف تباہی مچادی ہے۔ دھواں دھار بارش نے ہر طرف جل تھل کر دیا۔ شہر کی گلیاں اور بازار دریا کا منظر پیش کرنے لگے ہیں۔
یہی نہیں سندھ حکومت کی طرف سے شروع کے دنوں میں بیانات دے کر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ تباہ کن سیلاب کی آمد کا بتا کر لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کیا اس کے لئے غریبوں کی بد دعائیں ان کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑیں گے بلوچستان حکومت بھی سندھ کی تقلید میں پیش پیش رہی۔ اس ڈس انفارمیشن بھیڑ چال کو دیکھ کر مجھے پیکا کا آرڈینس یاد آیا۔ لیکن اس کا عمل مجھے کہیں پر بھی نظر نہیں آیا۔ حکومت نے پیکا ایکٹ پاس کرنے کے دوران یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اس قانون کا مقصد سائبر جرائم کی روک تھام۔ لیکن لگتا ہے یہی ہے حکومت نےاس قانون کا نفاذ تنقیدی آوازوں کو دبانے اختلاف رائے کو خاموش کروانے کے لئے کیا ہے۔ تاکہ جب چاہا جہاں چاہا اپنی مرضی سے استعمال کیا۔ کیا تمام پاکسانی اس قانون سے استفادہ کر سکتے ہیں؟
صرف حکمران ہی اس قانون سے مستفید ہو رہے ہیں دیگر صحافیوں کی طرح مجھے بھی پیکا ایکٹ کے کچھ شق سے اختلاف ضرور ہے پھر بھی اگر اس کا درست استعمال کیا جائے تو اس کے اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ تین روز قبل مجھے ایک پرائیویٹ سکول کا چوکیدار ملا سیلاب کی صورتحال کے بارے میں پوچھنے لگا تو میں نے کہا کہ بھائی اللہ تعالیٰ خیر کرے گا تو وہ زار و قطار رونے لگا ارے خیر محمد بھائی خیر تو ہے کہنے لگا حاجی صاحب سیلری آٹھ ہزار ہے اب سنا ہے سیلاب آنے والا ہے تو میں کہاں جاؤں گا میرا اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے دیکھا جائے۔
سیلاب سے ملک بھر میں جو نا قابل تلافی جانی و مالی نقصان ہوا ہے اس میں اس کو قدرتی اور بھارت کی دشمنی کی نسبت ہماری اپنی نا اہلی زیادہ ہے۔ تاہم جس طرح سندھ حکومت اور میڈیا نے دریائے سندھ میں لاکھوں کیوسک سیلابی پانی کی آمد کا بتا کر یہ بھی بتا دیا کہ 2010 میں سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقے شہر اس بار بھی سیلاب کے لپیٹ میں آنے والے ہیں 11-10-9 سے گڈو بیراج پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب رہنے کا بتایا گیا اس دوران کہیں سے کسی بھی وقت شگاف پڑنے کا خطرے کا بتا کر ان علاقوں میں آباد سندھ بلوچستان کے لوگوں میں خوف و ہراس کا فضا پیدا کیا۔
پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پسے لا قانونیت بدامنی سے پریشان عوام کو ذہنی مریض بنا کر چھوڑا ہے خیر کہتے ہیں کہ مشکل اور تکلیف دہ وقت میں لوگوں کی پہچان آسانی کے ساتھ ہو جاتی ہے۔ کون ڈرامے بازی کررہا ہے تو کون حقیقی معنوں میں خدمت جس طرح الیکشن کے دنوں میں یہ لوگ ووٹ کی خاطر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے مختلف ڈرامے کرتے ہیں تو بارش سیلاب کے دنوں میں بھی یہ لوگ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے ہیں لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی خاطر ڈرامے بازی کرنے والوں میں نہ صرف سیاست دان بلکہ بیوروکریٹس سماجی شوشل ورکر صحافی برادری بھی شامل ہے جو متاثرین کے ساتھ بیٹھ کر ان کی برائے نام مدد کرکے فوٹو سیشن کرکے رفو چکر ہو جاتے ہیں اور پھر ان تصاویر کو کئی سالوں تک مختلف مواقعوں پر نمایاں کرکے دیکھاتے رہتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دوران اچھے اور مخلص افراد بھی میدان میں آتے ہیں متاثرین کی خاموشی کے ساتھ مدد کرتے ہیں یہاں تک وہ اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرتے ہیں ایسے خدا ترس افراد میں بیوروکریٹس سماجی رضا کار سوشل ورکر صحافی بھی شامل ہیں حالیہ بارشوں میں سیلاب کی صورتحال پر نظر رکھنے اور پریشان عوام کو درست معلومات فراہم کرنے والوں میں یوں تو کئی نام ہونگے یہاں پر میں دو شخصیات کا ذکر کرونگا گا جنھوں نے نہ صرف ہر وقت درست معلومات فراہم کی بلکہ لوگوں کو حوصلہ بھی دیتے رہے میں سندھ سے جناب فاروق بجارانی صاحب پنجاب سے محترم ظفر اقبال وٹو صاحب انھوں نے مشکل وقت میں جہاں پر جھوٹے اور منگھڑت خبروں کا توڑ کرکے لوگوں کو درست معلومات فراہم کی اپنی درست تجزیوں سے لوگوں کو حوصلہ بھی دیا ہے۔
پنجاب حکومت نے بہتر حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیلابی پانی کو دریائے سندھ میں چھوڑ کر گڈو سکھر کوٹڑی بیراجوں کو نقصان پہنچنے سے بچالیا۔ اس موقعے پر کسی دل جلے نے تو کہا کہ پنجاب نے سیلاب کو روک روک کر چھوڑ کر سندھ حکومت کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا ہے مجھے نہیں معلوم کہ واقعی سندھ حکومت کے ارمانوں پر پانی پھیرا ہے یا نہیں۔ سندھ حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں کو روکنے میں کتنا سنجیدہ ہے ان کے بیانات سے چند روز قابل تو یو لگ رہا تھا سیلاب تو آ چکا ہے اس کے نقصانات کا تخمینہ لگانا باقی ہے یہ تو اللہ تعالیٰ نے کرم کیا بہتر حکمت عملی کے نتیجے میں پانی مرحلہ وار سندھ کے بیراجوں سے گزر رہا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس وقت یعنی 11ستمبر تک تمام بیراج اور حفاظتی بند محفوظ ہیں۔ مزید اللہ بہتر کرے گا تاہم کراچی میں بارش نے سندھ حکومت۔ لاہور میں پنجاب حکومت اور اسلام آباد میں وفاقی حکومت اور ذمہ دار اداروں کی قابلیت کا پول کھول کر عوام کے سامنے پیش کر دی ہے۔

