Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waris Dinari
  4. Ilteja

Ilteja

التجا

میں اپنے ہی شہر میں اجنبی کیوں بن گیا ہوں؟ ایک ماہ سے زیادہ عرصے کی غیر حاضری کی وجہ کچھ نجی مصروفیات پھر پریس کلب کے الیکشن الحمداللہ جیت کے بعد پھر دوستوں کی پریس کلب آمد کئی روز کا مبارک باد کا سلسلہ چل پڑا جو ابھی تک جاری ہے۔ سوچا تھا مزید چند روز تک چھٹی رہے لیکن ایک واقعے نے قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ اس کا تقریباََ ہم سب شکار ہوتے آ رہے ہیں۔

میں نے اپنے گھر کے ساتھ ایک کریانہ کی دوکان کھولی ہوئی ہے روز کا میرا معمول ہے کہ فجر نماز کی ادائیگی کے بعد جا کر دوکان کھولتا ہوں۔ آج اعلیٰ صبح جونہی میں نے دوکان کھولی تو تین افراد دوکان میں داخل ہوئے جو شکل و صورت سے محنت کش لگ رہے تھے۔ ان میں ایک نے کہا کہ بھائی ایک نہانے والا، ایک کپڑے دھونے والا صابن اور ایک پاؤ سرسوں کا تیل دو۔ دوسرے نے بھی کہا مجھے بھی صابن تیل دے دو۔ تیسرے شخص نے بھی یہی کہا تینوں نے ایک جیسا سودا لیا۔

تو میں نے ان سے پوچھا بھائی کیا آپ لوگ مزدور ہو اور مزدوری کی غرض سے کچھ دنوں کیلئے شہر سے باہر جا رہے یا یہاں عدالت میں پیشی پر آئے ہوئے قیدیوں کو یہ چیزیں دینی ہیں؟ عدالت کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں کیوں کہ جوڈیشنل کمپلیکس میری دوکان کے قریب ہے۔ تو انہوں نے جو بات کہی اس بات نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم صوبہ سندھ کے رہنے والے ہیں یہاں اسی کالونی میں ہمارے ایک رشتہ دار کا انتقال ہوگیا ہے۔

رسم رواج کے مطابق برادری کے وہ تمام افراد جو شادی شدہ ہیں ہر ایک فرد لازمی طور پر فوتگی والے گھر اسی طرح کا سامان پہچانے کا پابند ہے سامان دینے والا چاہے کتنا غریب ہو اور لینے والا چاہئے کتنے پیسے والا ہو۔ برادری سسٹم میں اسی طرح ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح ہم نے دیکھا ہے کہ کئی برادریوں میں اس طرح ہوتا ہے فوتگی کے تین دن کا خرچہ برادری والے دیتے ہیں لیکن یہاں پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ برادری میں اگر کسی پیسے والے کی فوتگی ہو جائے تو وہ اپنے حساب سے دل کھول کر خرچہ کرتا ہے۔

لیکن تین دن کے خرچے کا حصہ اپنے غریب رشتہ داروں سے برابر کا لیتا ہے جبکہ اگر غریب رشتہ دار کی فوتگی ہو جائے تو وہ بیچارہ اپنی حیثیت کے مطابق کرتا ہے، اس کا تین دن کا خرچہ چند ہزار روپے بنتے ہیں جو کہ فی نفر چند سو دینے پڑتے ہیں۔ دوسری جانب برادری کا وہ سرمایہ دار طبقہ فوتگی پر اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتا ہے پھر تین دن کا بل لاکھوں میں آ جاتا ہے جس میں برادری کے غریب افراد کو بھی اپنا برابر کا حصہ دینا پڑتا ہے۔

میں نے دیکھا کہ مجھ جیسے کئی افراد، اس وجہ سے برادری سسٹم سے نکلنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ہم ہمیشہ یہ جملہ سنتے آتے ہیں بلکہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے بھی آ رہے ہیں۔ دولت ہو تو پردیس میں بھی دیس ہے، غربت ہو تو دیس میں بھی پردیس ہے۔ کہتے ہیں غربت تو انسان کو اپنے ہی شہر میں اجنبی بنا دیتی ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ غریبی تو اپنوں میں بھی اجنبی بنا دیتی ہے۔ زیادہ تر اس غریبی کے ہم خود اور ہمارا معاشرہ ذمہ دار ہیں۔

یہ کام کیا یا ایسے نہیں کیا تو لوگ کیا کہیں گے؟ مشہور امریکی فلاسفر ڈیل کارنیگی نے کہا کہ دنیا کی نصف آبادی صرف اس لئے بھوک کاٹنے پر مجبور ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ یہ وہ جملہ ہے جس نے بہت سے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے ساتھ میں نمود و نمائش اور بےجا رسومات نے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا۔ اس کا شو آف کرنے میں خواتین زیادہ پیش پیش نظر آتی ہیں، شادی ولیمہ کی حد تک ٹھیک ہے لیکن فوتگی کے مواقعوں پر بھی ناک اونچی رکھنے اور برادری میں نمایاں ہونے کیلئے فوتگی کا کھانا بھی ولیمے جیسا ہونا لازمی سمجھا جاتا ہے۔

جن جن علاقوں میں شادی غمی کو نمود و نمائش سے دور رکھ کر اسلامی طرز پر ان رسومات کی ادائیگی کی جاتی ہے وہاں پر بسنے والے لوگوں کی زندگیاں آسان ہیں اور وہ لوگ سماج معاشرے سے جڑے رہتے ہیں کیونکہ اسلام نے نمود و نمائش اور فضول خرچی سے سختی سے منع فرمایا ہے یہی وجہ ہے کہ فضول خرچ کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔

آپ میں سے اکثر نے دیکھا کہ ہمارے یہاں ولیمہ کا کھانا کھاتے جونہی باہر نکلنے کیلئے گیٹ پر پہنچتے ہیں تو اسی گیٹ کے ساتھ آپ کو دو چار افراد کاپی لئے بیٹھے نظر آتے ہیں جن کا مقصد ہے کہ کھانا کھایا تو بل بھی ادا کرتے جاؤ۔ کاپی اسلئے کہ میں دیکھ سکوں جو میں نے اسکے ولیمے میں پیسے دیئے ہیں واپس اس کو اتنے ہی پیسے دینے ہیں یا میں نے اس کے ولیمے پر اتنے پیسے دیئے تھے اب چیک کروں کہ اس نے پورے پیسے بھی دیئے یا نہیں؟

دیکھا گیا لوگ ولیمہ شادی کی خوشی کیلئے نہیں بلکہ وصولی کیلئے کرتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر جو سب سے زیادہ تکلیف والی بات نظر آتی ہے وہ یہ ہے ولیمے کے موقعہ پر مہمانوں کو ایک جیسا پروٹوکول نہیں دیا جاتا ہے۔ دیکھا جائے جس کو آپ نے ولیمے کی دعوت کے کارڈ دیئے ہیں وہ سب آپ کے لئے وی آئی پی کا درجہ رکھتے ہیں لیکن اکثر لوگ نہیں کرتے ہیں، اسی طرح ہماری فوتگی بھی لوگوں کیلئے پریشانی کا باعث بنی ہوئیں ہیں وہاں پر بھی یہی کاپی لئے ایک دو اشخاص بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں جو تعزیت کرنے والوں سے پیسے لے کر ان کا نام لکھتے ہیں۔

میں نے دیکھا کہ ہمارے اس طرح کے عمل سے سینکڑوں لوگ تعزیت کرنے سے صرف اس وجہ سے رہ جاتے ہیں کہ تعزیت کرنے جائیں تو ایک ہزار نہیں تو کم از کم پانچ سو تو دینے پڑیں گے جبکہ مجھ جیسا ایک عام لوئر مڈل کلاس کا بندہ ایک ہزار یا پانچ سو روپے دینا افورڈ نہیں کرتا جہاں پر لوگ ہزار دو ہزار دیتے ہیں اس جگہ پر مجھ جیسے بہت سے لوگ دو روپے دیتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور پھر یہی ہوتا ہے ایسے موقعوں پر جانا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

کیوں نہ چھوڑیں آپ خود اندازہ کریں غریب مزدور کی بات نہیں کرتا ہوں بلکہ یہاں بات ہو رہی ہے لوئر مڈل کلاس کی، پچاس ساٹھ ہزار روپے ماہانہ کمانے والا کس طرح اس مہنگائی کے دور میں ہر مہینے تیس چالیس فوتگیوں پر تعزیت کیلئے جا سکتا ہے؟ آخر ولیموں پر بھی جانا ہے جبکہ رشتہ دار، دوست احباب، پڑوسیوں کی بیماری میں مزاج پرسی کیلئے بھی تو جانا ہے ظاہر ہے خالی ہاتھ تو نہیں جانا ہے اس کیلئے بھی تو پانچ سو یا ہزار تک کوئی فروٹ مٹھائی تو لے کر جانی ہے۔

آپ اس سے اندازہ کریں کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ لوگوں کی زندگیوں کو مشکل سے مشکل تر بناتے جا رہے ہیں جو بےچارے پہلے ہی بےپناہ مشکلات سے دوچار ہیں۔ آئیے آج ہم ایک عہد کریں کہ ہم نے صراط مستقیم پر زندگی گزارنی ہے۔ صراط مستقیم والی زندگی یہی ہے۔ زندگی کو ضرورت سمجھ کر گزارنا ہے خواہش سمجھ کر نہیں۔ کیونکہ ضرورت تو فقیروں کی بھی پوری ہو جاتی ہے خواہش تو بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتی ہے۔

ہم نے اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کو راضی کرنا ہے ان کے احکامات پر ہر حال میں عمل کرنا ہے پھر جس نے کچھ کہنا ہے تو کہنے دیں ہمیں کیا پرواہ ہے لوگ کیا کہیں گے۔ بس ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکیا کہتے ہیں یہی ہمارے لئے سب کچھ ہونا چاہئے پھر دیکھنا نہ صرف ہماری زندگی آسان ہوگی بلکہ ہم لوگوں کیلئے بھی آسانی کا باعث بن سکتے ہیں۔

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani