Election Duty Ke Naam Par Gariyon Ki Pakkar Dhakkar
الیکشن ڈیوٹی کے نام پر گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ
اس وقت سندھ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں الیکشن ڈیوٹی کے نام پر پبلک ٹرانسپورٹ کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی ہے۔ گو کہ پولنگ میں ایک ہفتے سے بھی زیادہ کا وقت ہے لیکن ابھی سے پبلک گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ شروع، الیکشن ڈیوٹی کے نام پر پولیس نے دکانداری شروع کر دی۔ روزانہ کے حساب سے پولیس کا چائے پانی کے نام سے بھتہ شروع ہے بھتہ کے ریٹ ڈالر کی طرح ہر لمحے اوپر ہی جارہے ہیں۔
الیکشن کے دن جیسے ہی قریب آتے جارہے ہیں تو بھتے کے ریٹ اسی حساب سے بڑھتے جارہے ہیں سڑکوں سے گاڑیاں غائب کی جارہی ہیں جس سے عام شہری کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک پورا عشرہ ان کا سخت اذیت پریشانی میں ہی گزرے گا بڑے ٹرانسپورٹرز تو چند گاڑیاں انتظامیہ کے حوالے کرکے ان سے داد تحسین بھی وصول کرتے ہیں تو دوسری جانب اپنی گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد کو آف روڈ کرکے چند گاڑیوں کو سڑک پر لاکر سواریوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑیوں میں ٹھونس کر اپنی مرضی کا کرایہ لے کر ٹھیک ٹھاک کمائی کرتے ہیں۔
کوئی اس زیادتی پر احتجاج کرتا ہے یا کچھ بولتا ہے تو یہ جواب ملتا ہے ہم مجبور ہیں گورنمنٹ نے ہماری گاڑیاں بیگار میں لی ہیں جبکہ چھوٹے ٹرانسپورٹرز ایک دو گاڑیاں رکھنے والے گاڑی مالکان کو کچھ پریشانی ضرور ہوتی ہوگی لیکن وہ بھی تمام بوجھ صارف پر ہی ڈال دیتے ہیں۔ مر تو جاتے ہیں بے چارے مسافر جن میں زیادہ تر سرکاری ملازم ہوتے ہیں جن بے چاروں کو ہر حال میں اپنی ڈیوٹی پر پہچنا ہوتا ہے جبکہ ان کے آفیسر ان کو تو ہر طرح کے مراعات حاصل ہوتے ہیں ان کے پاس سرکاری گاڑی بھی سرکاری تیل بھی غرض کہ ہر طرح کی سہولتیں حاصل ہونے کے باوجود اپنی مرضی سے آفس آئیں جائیں کوئی پابندی نہیں ہے۔
ٹائم کی پابندی رول اینڈ ریگولیشن تو صرف چھوٹے اور لاوارث ملازمین کے لئے تو ہوتے ہیں یہی لاچار بےبس ملازمین پبلک ٹرانسپورٹ پر دھکے کھاتے ہوئے ہر صورت میں آفس پہنچتے ہیں۔ گزشتہ روز میرا اوستہ محمد بلوچستان سے سکھر جانے کا اتفاق ہوا اوستہ محمد سے سکھر کوئی ڈیڈھ سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ میں نے دیکھا کہ تمام راستے میں سڑک پر مجھے چند ہی ڈاٹسن پک اپ نظر آئے جبکہ اکا دکا ہائی ایکس وین نظر آئے جن کی چھتوں پر بھی سواریوں کو بٹھایا گیا تھا۔
خون جمع دینے والی سردی کے باوجود لوگ یوں گاڑیوں کے چھتوں پر بیٹھنے پر مجبور ہیں آخر ان کو یہ سزا کس لئے یہ تماشہ سندھ بلوچستان دونوں جگہوں پر جاری ہے اس وقت سواریاں گاڑی کے لئے گھنٹوں انتظار کرتی رہتی ہیں جب انتظار کے بعد جب کوئی ویگن ہائی ایس پہنچتا ہے تو سواریوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑیوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے اور کرایہ بھی منہ مانگا وصول کرتے ہیں اور کوئی مسافر اس زیادتی پر کچھ کہتا ہے تو انھیں یہ کہہ کر چپ کر دیا جاتا ہے گاڑیاں نہیں ہیں۔
تمام گاڑیاں بیگار میں لے لئے گئے یہ جو اکا دکا گاڑیاں چل رہی ہیں وہ بھی بھاری نذرانہ کے عوض ہی ممکن ہوا ہے، روزانہ کے حساب سے مختلف علاقوں سے منڈیوں میں پھل سبزیاں لانے والے گاڑیوں کو روک کر بیگار لینے کے لئے گاڑیوں کو بند کرنے یا پھر ان سے ہر بار پولیس کی جانب سے خرچی کے نام پر اچھی خاصی رقم وصول کرنے کی شکایات عام ہیں۔ ظاہر ہے یہ ٹرانسپورٹر مالکان اپنی جیب سے ادا تو نہیں کرتے ہیں جس کا تمام تر اثر غریب سواروں ہی پر پڑ رہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے ایک تو اس طرح الیکشن کے نام پر گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ اور بھتہ خوری فوری طور بند کی جائے کیونکہ یہ آئین کی آرٹیکل 24کی سنگین خلاف ورزی کے زمرے میں شامل ہے۔ اس طرح کی غیر آئینی کام کے مرتکب ہونے والے اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ساتھ ہی ٹرانسپورٹرز کی جانب سے زیادہ کرایوں گنجائش سے زیادہ سواریاں بیٹھانے بلا جواز یا جان بوجھ کر گاڑیاں سڑکوں سے غائب کرنے ان کو کسی بھی صورت میں من مانی کرنے نہیں دیا جائے۔ عوامی شکایات کا فوری طور پر ازالہ ہونا چاہیے یوں گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ سے شہریوں کو آمدو رفت میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ٹرانسپورٹ کی کمی سے اشیاء خوردونوش خاص طور پھل سبزیاں وقت پر منڈیوں تک نہیں پہچنے سے کاشت کاروں کے نقصان کے ساتھ ڈیمانڈ اور سپلائی میں عدم توازن کی وجہ سے عام شہری بھی متاثر ہورہا ہے۔
گورنمنٹ کو الیکشن کی ڈیوٹی کے لئے گاڑیاں مطلوب ہیں تو اس کا آسان طریقہ کارہے تمام پبلک ٹرانسپورٹ کا مکمل ریکارڈ وزارت ٹرانسپورٹ اور ڈویژنل سطح پر بھی دستیاب ہوتا ہے کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ کا روٹ پرمٹ تو ڈپٹی کمشنر ہی جاری کرتا ہے لہذا ٹرانسپورٹ مالکان کے ساتھ ایک میٹنگ کرکے ان کے پاس دستیاب گاڑیوں کے حساب سے ان سے گاڑیاں لی جاسکتی ہیں وہ بھی پولنگ سے صرف دو روز قبل اگر سڑکوں پر سے گاڑیاں پکڑ نا مقصود ہوں تو بھی الیکشن کمیشن کے تحریری حکم نامے کے بغیر اس طرح کا عمل نہیں کرنا چاہیے۔
نیز ٹرانسپورٹرز کی جانب سے گاڑیاں نہ دینے پر ڈپٹی کمشنر کو چاہئے ان ٹرانسپورٹ مالکان کے خلاف بھی سخت کارروائی لازمی طور پر کرنا چاہیے روٹ پرمٹ کی منسوخی سمیت گاڑیوں کو بند کرنے کی آپشن پر بھی عمل ہونا چاہیے لیکن لگتا ہے کہ میں پاکستان میں نہیں کسی دوسرے ملک میں رہ رہا ہوں جہاں پر قانون کی حکمرانی ہے اور ہر ایک پر قانون کی پاسداری لازمی ہے پاکستان میں دیگر مافیاز کی طرح ٹرانسپورٹرز بہت ہی طاقتور مافیا ہے کیونکہ یہی لوگ یا پھر ان کے قریبی رشتہ دار ہی ایوانوں میں بھی ہیں اور گورنمنٹ کے اعلی عہدوں پر فائز بھی ہیں ٹرانسپورٹرز کی جانب سے لاوارث عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرنے کے لئے سوچنا اس وقت فضول لگ رہا ہے۔