Barq Girti Hai To Bechare Ghareebon Par
برق گرتی ہے تو بے چارے غریبوں پر

ہمارے ہاں ہر سزا غریب ہی کو ملتی ہے جال میں ہمیشہ صرف چھوٹی اور کمزور مچھلیاں ہی پھنستی ہیں جبکہ بڑے طاقتور تو جال کو پھاڑ کر آسانی سے نکل جاتیں ہیں۔
جب اندھیر نگری چوپٹ راج ہو تو ایسے ہی ہوتا ہے
اندھیر نگری چوپٹ راج
ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا
یہ مشہور ضرب الامثال سب نے سنا ہے اور مختلف اوقات میں عملی طور دیکھتے بھی آ رہے ہیں چو پٹ راج کا سلسلہ آپ کو ہر جگہ ہر شعبے میں نظر آئے گا خصوصاً بلوچستان میں اس راج کا اثر کچھ زیادہ ہی ہے۔
بلوچستان جو قدرتی گیس پٹرول معدنی دولت سے مالا مال صوبہ ہونے کے باوجود ملک کا پسماندہ ترین صوبہ بھی ہے سب زیادہ بےروزگاری اور ناخواندگی بھی بلوچستان میں ہی ہے۔ صوبے کی پسماندگی کی وجہ یہی چوپٹ راج ہے۔ چند روز قبل ایک مشترکہ فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان میں منی پٹرول پمپس کو بند کردیا جائے گا کیونکہ یہ سیکورٹی اور معیشت کے لئے نقصان کے باعث ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ ان کی منطق درست ہو یہ کام یہ کاروبار آج سے تو شروع نہیں ہوا ہے اتنا عرصہ خاموش رہنے کی وجہ آخر کیا تھی کیا صرف منی پٹرول پمپس ہی ریسک ہیں۔
جن کے پاس پانچ سو سے ہزار لیٹر تک تیل ذخیرہ ہوتا کیا صرف منی پمپ والے ہی ایرانی تیل فروخت کرتے ہیں باقی پمپ والے امپورٹ شدہ تیل فروخت کرتے ہیں اور ہر طرح کی ایس او پیز پر عمل کرکے اوگرا کے احکامات پر مکمل طور عمل کرتے ہیں؟ یہ چند سوال ہیں جن کا مجھ سمیت سب پاکستانیوں کو پوچھنے کا حق ہے اور ذمہ داروں کو خندہ پیشانی سے جواب دینا چاہیے لیکن بہت ہی مشکل۔ خیر دیکھتے ہی دیکھتے دو تین روز کے دوران صوبے بھر ان منی پٹرول پمپس کے خلاف کاروائی دیکھنے کو ملا ہے کئی ایک کو نوٹس جاری کئے گئے کئی ایک کو نوٹس کی خلاف ورزی کرنے پر ان کے یونٹ اور بڑی مقدار میں پٹرول ڈیزل بھی اٹھا کر لے گئے یہاں تک بعض غریب گھرانوں کے خواتین قرآن مجید اٹھا کر مہلت مانگنے کے لئے آئے۔
پولیس کسٹم اہلکاروں کو قرآن کا واسطہ دے کر ایک دن کی مہلت طلب کرتی رہیں کسی کو مہلت ملی تو کسی کو نہیں حیرانگی تو اس بات پر ہے کہ بلوچستان خاص کر استا محمد میں کارروائی صرف منی پٹرول پمپس جن کے پاس ایک دو یا زیادہ سے زیادہ تین یونٹ لگے ہوئے تھے جن کے پاس چند سو لیٹر سے زیادہ تیل نہیں ہوتا ان کی روزانہ کی زیادہ سے زیادہ سیل چند سو لیٹر تک تھا ان کو بند کرکے لاکھوں گھروں کے چولہے ٹھنڈے کردئیے گئے۔
واضح رہے کہ اس وقت بلواسطہ بلا واسطہ طور پر کوئی تین ملین افراد کا گزر بسر اس ایرانی تیل پر ہے جبکہ صوبے بھر میں ہر شہر میں بڑے پٹرول پمپس ایسے ہیں جو ایرانی تیل فروخت کرتے ہیں اور ان کے پاس نا تو کوڈ ہے اور نا ہی اوگرا کے ایس او پی کو فالو کرتے ہیں جن کے پاس ہر وقت لاکھوں لیٹر موجود ہوتا ہے وہ اس کاروائی سے کیوں مبرا ہیں۔ ڈاکٹر علامہ اقبال سے بصد معزرت
برق گرتی ہے تو بے بیچارے غریبوں پر
اس سے ہمارے ارباب اختیار کا غریب دشمن پالیسیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ کیا ہے میں کروں تو حرام آپ کرو تو حلال آخر کب تک یہ دوہرا معیار چلتا رہے گا۔ ایرانی تیل کے اسمگلنگ میں تو بڑے اور طاقتور اعلی بیوروکریٹ سیاستدانوں کے نام آتے ہیں جو اس کاروبار سے کروڑ پتی سے بھی آگے نکل گئے ہیں جبکہ غریب صرف اپنے گھر کا چولہا جلانے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ ایرانی تیل کی بادڑ سے صوبے کے دیگر علاقوں میں نقل و حمل کے لئے ایک قسم کی ایک پک آپ جیسے زمباد کہا جاتا ہے استعمال کیا جاتا ہے جس پر 3200 سے 3500 سولیٹر تیل لے جایا جاسکتا ہے۔
سننے میں آیا ہے زمباد کے ذریعے ایرانی تیل کی اسمگلنگ کوروکر موٹر سائیکلوں پر تین تین چار چار کین رکھ کر دور دراز علاقوں میں سیپلائی کیا جانے لگا جو کہ ایک اچھا عمل ہے جہاں پر ایک زمباد کا مالک کا فائدہ ہوتا تھا اب اسی ایک زمباد کا لوڈ آٹھ دس موٹر سائیکل والے اُٹھاتے ہیں جس سے ایک دو نہیں اٹھ دس گھروں کے چولہے جلتے ہیں۔ اسی طرح یہ ایک یونٹ لگا کر پٹرول فروخت کرنے والوں کا معاملہ بھی اسی طرح ہے صرف استا محمد شہر ڈسٹرکٹ استا محمد میں شہری حدود میں کوئی پچاس کے قریب یونٹ مختلف علاقوں میں لگائے تھے جن سے سینکڑوں افراد کا روزگار وابستہ تھا۔ ایک تو یہ تمام افراد بے روزگار ہوگئے تو دوسری طرف لوگ ایک اہم سہولت سے بھی محروم ہوگئے کیونکہ کسی بھی غریب موٹر سائیکل یا چنگ چی رکشے والوں کا چلتے ہوئے شہر میں کہیں پر تیل ختم ہو جاتا تو ان کو تقریباً اسی جگہ پر پٹرول مل جاتا اور وہ سو دو سو کا تیل ڈال کر چلتے بنتے تھے لیکن اب انھیں اسی ایرانی تیل کی خاطر پٹرول پمپس کا رخ کرنا پڑتا ہے جن کا آنے جانے میں پچاس سو کا تیل خرچ ہو جاتا ہے۔
حکومتی اس کاروائی کے بعد میں نے اکثر چنگ چی والوں کو دیکھا ہے کہ پٹرول کا ایک بوتل ہر وقت اپنے پاس صرف اس وجہ رکھتے ہیں کہ کہیں راستے میں پٹرول ختم نہ ہو جائے جس کے لئے یہ خطرناک عمل کرنے پر مجبور ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان منی پمپ کے خلاف کارروائی بالکل اسی طرح ہے۔ جیسے خراب انگلی کی جگہ پر پورے بازو کو کاٹ دینا ہے پھر یہ تو انصاف نہیں ہے۔ پہلی بات بلوچستان میں روزگار کے ذرائع انتہائی محدود ہیں ایرانی تیل پر سختی کرنے سے گریز کریں ہاں اگر ایرانی تیل کی اسمگلنگ کو ہر حال میں روکنا مقصود ہے تو کسی تفریق کے سب کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے نہ کہ صرف ایک یونٹ والے منی پمپس کے خلاف ان کی وجہ اگر کہیں پر سیکورٹی خدشات ہیں یا شہریوں کی جان مال کو خطرات لاحق ہیں تو اس کے لئے جو بھی حفاظتی اقدامات مطلوب ہیں ان کے لئے انتظامات کرائیں جائیں یعنی تمام ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے کے ساتھ ان کے یونٹ کے میٹر میں اکثر یہ ہیر پھیر پیمانے میں کمی بشی کے شکایات ملتے رہے ہیں۔ تو اس پر ان کے خلاف کاروائی ضروری بنتا ہے یہ نہیں کہ ان کے کاروبار کو جڑ سے ختم کرکے انھیں بے روزگار کیا جائے۔
اس وقت بڑے پمپس پر تو یہی ایرانی تیل فروخت کی جارہی جن کی روزانہ کی سیل ہزاروں لیٹر کی ہے اور یہ لوگ اسمگلنگ شدہ تیل موٹر سائیکل والوں سے اپنی مرضی سے اپنے ہی شرائط پر خرید کر اپنی مرضی سے قیمتیں مقرر کرکے فروخت کرتے ہیں یہی موٹر سائیکل والے پہلے فی پھیرا پانچ ہزار کماتے تو اب ڈھائی تین ہزار بچا پاتے ہیں۔

