Akhir Ye Khel Kab Tak Chalta Rahega?
آخر یہ کھیل کب تلک چلتا رہے گا؟

یوں تو وطن عزیز میں میرے ہم وطن مختلف اوقات میں مختلف قسم کے مصائب کا شکار رہتے آئے ہیں، تاہم کچھ عرصے سے بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے ان کی تکلیف اور مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جن میں نقل مکانی تک بھی شامل ہے۔ 2010 سال 2012 اور پھر 2022کے سیلابوں نے جو تباہی مچا دی اس کی مثال نہیں ان تباہی کے اثرات آج تک نا صرف محسوس کیے جاسکتے ہیں بلکہ نظر بھی آرہے ہیں۔
قدرتی آفات زلزلے طوفان سیلابوں کو روکنا انسان کی بس کی بات نہیں قدرت کے امر کے آگے انسان بےبس ہے تاہم بہترین منصوبہ بندی اختیار کرکے نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے لیکن افسوس کہ اتنے بڑے سانحات سے ہم نے کوئی سبق سیکھا ہے اور نہ ہی اس کے لئے منصوبہ بندی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ آج ایک بار پھر تباہ کن سیلاب کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں لیکن ہمارے ادارے صرف الرٹ جاری کرنے پر اکتفا کیےہوئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے یہاں آنے والے تینوں سیلاب ہماری نا اہلی کا نتیجہ ہے۔
2005 کے تباہ کن زلزلے کے بعد ہمیں اور ہمارے ذمہ دار اداروں کو ریلیف کے پر نام حرام مال کھانے کا چسکا پڑ چکا ہے۔ 2010 کے سیلاب نے جہاں پر کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو سخت متاثر کیا تو وہی پر سینکڑوں کرپٹ افراد نے سیلاب کے نام پر دنیا بھر سے آنے والی امداد پر خوب ہاتھ صاف کیے جس میں کچھ بیوروکریٹس فلاحی تنظیموں کے کرپٹ اہلکار کچھ زمیندار صحافی ایجنٹ کے طور پر کام کرنے والے کچھ سوشل ورکر بھی شامل رہے ہیں۔
پھر سال 2012 اور 2022میں سیلابوں میں ریلیف کے مال پر جو حملہ ہوا اس کی مثال نہیں ملتی ہے اور یہ لوگ لکھ پتی سے کروڑ پتی بن گئے آج بھی ان لوگوں کی یہی خواہش ہے کہ کسی طرح بھی ہو سیلاب آئے اگر سیلاب کی صورتحال نہیں بنتی ہے تو پھر بھی ان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح کچھ علاقوں میں فصلوں باغات مکانات کو نقصان پہنچے تاکہ ریلیف کے نام پر ان کرپٹ افراد کا بھلا ہو۔
آپ اس بات سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہمارے یہاں 2005 کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کوئی زلزلہ ایسا نہیں آیا جس سے مکانات منہدم ہوئے ہوں ہمارا جو بھی نقصان ہوا پانی سے ہوا چاہیے وہ دریاؤں کے کنارے بنے ہوئے تعمیرات ہوں شہروں دیہاتوں میں نشیبی علاقوں میں کیےگئے تعمیرات سب کو پانی ہی بہہ کر لے گیا۔ جب ہمیں معلوم بھی ہے کہ نشیبی علاقوں میں ہمیں نقصان پانی ہی کی وجہ سے ہوا ہماری املاک کو پانی ہی نقصان پہنچتا ہے تو اس پانی کو راستہ دینے کا بندوست کیوں نہیں کرتے۔
میرے خیال میں یہ بدنیتی کا ہی نتیجہ ہوسکتا ہے دوسرے علاقوں کا مجھے زیادہ علم نہیں استامحمد اور اس سے ملحقہ سندھ بلوچستان کے بیشتر جگہوں چاہئے وہ اربن ہوں یا پھر رورل تمام نشیبی علاقوں میں جہاں 2010 کے سیلاب سے مکانات منہدم ہوئے تھے دیکھا گیا دوبارہ بھی انہی جگہوں پر مکانات تعمیر کئے گئے۔ اب سہ بارہ ان کی تعمیر ہونے کا سننے میں آرہا ہے۔ گورنمنٹ ہو یا این جی اوز جب 2010 کے سیلاب میں ہمیں سیلابی پانی کی سطح رخ گزر گاہوں کا علم ہوگیا تھا تو 2012 میں ہم اس کا تدارک کیوں نہیں کر پائے؟
میرے خیال میں اس سوال کا جواب سب کو معلوم ہے 2022 وہ سال رہا جس میں میرے علاقے میں تو کوئی گھر دکان کاروبار نہیں بچا جنھیں بارش سے نقصان نہ پہنچا ہو چاہیے وہ اربن ایریا ہو یا رورل ایریا تمام علاقے بری طرح سے متاثر ہوئے ہاں کسی کا کم تو کسی کا زیادہ نقصان ہوا۔ بہرحال بارش اور سیلاب کی تباہی سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہا اس وقت نقصانات دیکھنے اور لوگوں کو حوصلہ دینے کے لئے وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کے ہمراہ بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہِ کیا لوگوں کے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لئے فوری ریلیف کا حکم دیا۔ علاقے میں ہونے والے نقصانات کا سروےکرنے اور ان کی جلد بحالی کے لئے احکامات صادر فرمائے تھے جس پر متاثرین کا سروے محکمہ ریونیو یعنی پٹواری قانون گو تحصیلدار کے ذریعے شروع کردیا گیا لوگوں سے درخواستیں لی گئی لیکن زیادہ تر نام ان خوش نصیبوں کے آئے کہتے ہیں کہ۔۔
سہاگن وہی جو پیا کے من کوبھائے
یعنی نام ان کے آئے یا پھر جن کی سفارش تعلقات تھے سیکنڑوں درخواستیں ردی کی ٹوکریوں کی نظر ہوئیں پھر سیاسی تعلقات بھی اثر انداز ہوئے خیر یہ پھر طویل بحث بن جائے گی بحالی کا یہ عالم ہے 2022 میں لوگوں کے مکانات گرے تھے بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے تین سال بعد اب جاکر گورنمنٹ کی جانب سے مکانات کی تعمیر کے لئے فنڈز جاری کئے جارہے ہیں جبکہ اکثریت کو اس امداد سے محروم رکھا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ جب اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کے پاس فریاد لے کر جانے والوں کو یہ کہہ کر واپس کیا جاتا ہے کہ آپ اپنے گرنے والے مکان کا سروے کرائیں ہم معاینہ کرکے سروے رپورٹ تیار کریں گے اندازہ کریں کہ تین سال ہونے کو ہیں ابھی تک لوگ گرے ہوئے گھروں کے مل بے پر بیٹھے رہتے؟
دیکھا گیا ہے کشمور سے لے کر حیدرآباد تک بلکہ دریائے سندھ کے آخری سرے تک 2010 والے سیلاب سے متاثرہ ہونے والے افراد جنھوں نے اپنی مدد آپ یعنی بغیر کسی سرکاری یا فلاحی اداروں کے تعاون سے جو بھی تعمیرات کئے وہ دیکھنے کی قابل ہیں یعنی مضبوط بنیادوں کے ساتھ ساتھ زمین سے تعمیر کی سطح 5 فٹ سے 7 فٹ تک اوپر رکھا تاکہ آئندہ کسی بھی اربن فلڈ کی صورت میں پانی گھروں دکانوں میں داخل نہ ہو سکے۔ جب ایک عام آدمی نے ایک ہی سیلاب سے سبق سیکھ لیا ہے جبکہ ہمارے پڑھے لکھے اعلی دماغ تین سیلابوں سے بھی کچھ نہیں سیکھ پائے مکانات کی تعمیر تو اپنی جگہ 2010 کے سیلاب کے بعد متعدد سرکاری دفاتر تعمیر کئے گئے جو کہ زمین سے بمشکل دو ڈھائی فٹ اوپر ہیں ایسی طرح کا کام ہمارے بعض این جی اوز بھی کررہی ہیں۔ ویسے ہمارے یہاں ایک بات بہت مشہور ہے کہ پاکستان سے پولیو کو ختم کرنا اور سیلابوں کو روکنا اب ممکن نہیں رہا کیونکہ اب معاملہ ڈالرز کا ہے۔ علامہ اقبال سے معزرت کے ساتھ مجھے کچھ اس طرح کہنا پڑ رہا ہے۔۔
بنانا، گرانا، گرا کر، بنانا پھر گرانا
سیلاب آنے کا تو بس ایک بہانہ ہے
مون سون بارشوں کا سلسلہ جون سے شروع ہے اب تک بارشوں اور سیلاب سے درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے دریاؤں میں پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے اس وقت شمالی علاقاجات میں سیلاب تباہی مچاتے ہوئے تیزی کے ساتھ رواں دواں ہے لاہور شہر کا حشر معمولی بارش میں سب نے دیکھ لیا۔ این ڈی ایم اور پی ڈی ایم اے کے ساتھ ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی ڈپٹی کمشنرز کی جانب بھی ہائی الرٹ جاری کیا گیا طوفانی بارشیں اور سیلاب ہمارے سر پر دستک دے رہے ہیں۔ لیکن متعلقہ اداروں کی جانب عملی طور پر کسی قسم کے اقدامات دیکھنے سے ہم قاصر ہیں البتہ فون کال کے دوران مختلف قسم کے ہدایات سننے کو ضرور ملتی ہیں۔ بس یہی کہ عوام کو بتا دیا کہ ہوشیار ہو جائیں ہم سے کچھ نہیں ہوگا۔
جس طرح بسوں پر لکھا ہوتا تھا سواری اپنے سامان کی خود حفاظت، کرنے والی بات لگتی ہے۔ فلش فلڈ میں بھی انسانی غلطی سے انکار نہیں کرسکتے ہیں۔ تاہم اربن فلڈ میں کو ڈسٹرکٹ انتظامیہ، ایریگیشن، روڈ اینڈ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی R/B بلدیاتی اداروں کی نااہلی کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ادارے ہمارے ہاں تین سیلابوں کو بھگتا چکے ہیں اب تک ان کو اس سلسلے میں کافی تجربا ہوا ہوگا۔
استا محمد میں اس وقت بظاہر سیلاب کے دور تک آثار نہیں ہیں لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ 99 فیصد سیلاب آنے کا خطرہ موجود ہے۔ واضح رہے کہ نصیر آباد ڈویژن کے کئی تحصیلوں اور اضلاع کو مختلف ادوار میں متعدد بار آفت زدہ قرار دے کر لوگوں کو ریلیف دیا گیا اگر پورے تحصیل یا ضلع کو آفت زدہ قرار دیا گیا تو اس آفت سے سب متاثرین کو نہ کہ چند زمین داروں کو کھاد بیج یا دیگر کچھ مراعات دے کر جان چھڑوانے کی کوشش کی جاتی رہی۔
اگر زرعی شعبہ دیہات متاثر ہوئے تو شہری علاقے بھی اس میں آتے ہیں اس آفت کا اثر کاروباری طبقے پر بھی پڑتا ہے کیونکہ ہمارا تمام کاروبار زراعت ہی سے وابستہ ہے اگر زراعت یا زرعی پیداوار متاثر ہے تو ہم سب متاثر اس لئے جب نقصان کے ازالے کی خاطر حکومت کی جانب سے کوئی ریلیف ہو تو سب کے لیے شہری علاقوں میں لوگوں کو بجلی گیس اور دیگر یوٹیلیٹی بلز میں ریلیف دیا جائے تاکہ سب کا بھلا ہو یہ نا کہ چند مخصوص افراد کو فائدہ پہنچایا جائے۔

