Sunday, 17 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas
  4. Mujrim Kon Hai

Mujrim Kon Hai

مجرم کون ہے

کچھ دن پہلے ایک ایک ایسے ملزم سے سامنا ہوا جس کو چوری کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ جناب نے اپنے علاقے سے کوئی پانچ یا سات بکرے چوری کئیے تھے اور اسی دوران دھر لیا گیا۔ بکرے برآمد ہوگئے اور ایف آئی آر ہوگئی۔ عدالتی کاروائی کے بعد اسے ریمانڈ کے لئیے بھیج دیا گیا اور یہ ایک پروسیجر ہے جو چلتا رہتا ہے۔ لیکن اس کے بعد پتا چلا کہ اس علاقے اور گردونواح کے جتنے بھی بکرے چوری ہوئے تھے وہ سب لوگ وہاں امڈ آئے اور اسی نوجوان کو اس سب کا ذمہ دار قرار دینے لگے۔ یہ عدالت اور پولیس کا معاملہ ہے نوجوان بے گناہ ہے یا گناہ گار یہ فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے اور تفتیش کرنے والی ایجنسی کا کام تفتیش کرنا ہے۔

حیرانگی اس بات پر ہوئی ہے کہ عام حالات میں چور چوری کرکے بھاگ جاتے ہیں پکڑے نہیں جاتے کیونکہ وہ چور ہوتے ہیں، اکثر تو مہینوں سراغ لگانے کے بعد بھی انکا کوئی ٹھکانہ نہیں ملتا اور اس کے بعد اگر گرفتار ہو بھی جائیں تو ممکنہ مال اصلی حالت میں نہیں ملتا۔ خیر یہ نوجوان جو موقع سے فرار ہوتے پکڑا گیا تو یا تو پھر یہ چور نہیں تھا یا پھر ابھی کچا تھا۔

خیر اب یہ پکڑا گیا اس کے ساتھ آگے کیا ہوگا۔ ایک تو وہ چوری کے مال کے ساتھ پکڑا گیا اس کے لئیے یہ ذلت بھی کافی ہے باقی قانون کا کام ہے۔ لیکن یہ شخص اب اگر پہلی بار چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے تو کیا اس کے لئیے تھانہ یا جیل میں کوئی الگ بندوبست ہے یا پھر باقی ماہر چوروں یا پھر عادی چوروں کے ساتھ ہی اسے بھی رکھا جائے گا۔ اگر اسے ان کے ساتھ ہی رکھاجائے گا تو یہ آنے والے دنوں میں کہاں کھڑا ہوگا۔ کیا وہ چور اسے اس بات کی تبلیغ کریں گے کہ بیٹا یہ غلط ہے اسے چھوڑ دو کیا وہ قتل کرنے والے اس بارے میں کہیں گے کہ صاحب یہ ظلم ہم نے اپنی جانوں پر کیا ہے تم ایسا بالکل نہ کرو۔ کیا پولیس والے ایسا کریں گے کہ بیٹا یہ تمہاری پہلی غلطی ہے سدھرنے کی کوشش کرو اور آئندہ محتاط رہو۔ کیا وہ شخص تھانے میں ہفتہ گزارنے کے بعد حقیقی زندگی میں دوبارہ واپس آسکے گا۔ کیا وہ شخص تھانے کے ان سات دنوں کا بدلہ اپنی بقیہ زندگی چکاتا نہیں پھرے گا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اگر گناہ گار پایا گیا تو جیل جائے گا اور وہاں اپنی سزا مکمل کرے گا۔ لیکن اگر وہ بے گناہ پایا گیا تو اس پر لگا الزام وہ ساری زندگی اپنے ماتھے سےنہ مٹا پائے گا۔ اس کے علاوہ قابل اور ماہر چوروں کے ساتھ وقت گزارنےکے بعد وہ شخص انسانیت کے درس کا تو مجھے نہیں پتا لیکن چوری کرنے کے ہزار ہا طریقے اور فن سیکھ جائے گا۔ بلکہ ان دنوں میں وہ پولیس والوں کے ساتھ جو معاملات ہوتے ہیں ان کو کیسے سنبھالنا ہے وہ بھی سیکھ جائے گا۔ پکڑے جانے سے قبل پولیس سے اسے خوف آتا ہوگا لیکن پکڑے جانے کے بعد اور کچھ وقت ان لوگوں کے ساتھ گزارنے کے بعد اب وہ خوف جاتا رہا ہوگا۔

وہ شخص جب دوبارہ حقیقی زندگی میں واپس آئے گا تو اس کے پہلے دوست یہ کہ کر اس سے جان چھڑوا لیں گے کہ یہ چور ہے اور چوریاں کرتا ہے۔ یہاں تک کے گورنمنٹ بھی جان چھڑوا لیتی ہے کہ اگر کریمینل ریکارڈ ہے تو اس بندے کو سرکاری کوئی عہدہ نہ دیا جائے اور اسی طرح گھر اور رشتہ دار بھی اپنے اپنے قوانین کے تحت علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں۔ اب اس کے پاس ایک ہی حل ہے کہ وہ اپنے جیسے لوگوں کے پاس جائے اور ان کے ساتھ ان کے جیسی زندگی گزارے اور اکثر ایسے لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ وہ ان چوروں سے معلومات لے چکا ہوتا ہے وہ ان کے ڈیروں کو آخری پناہ گاہ سمجھ کے وہاں پہنچتا ہے اور بقیہ زندگی معاشرے کا ایک بدنما داغ بن کر گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ ہمارا پولیس کا نظام اور جیل کی قید لوگوں کو سدھارنے کے لیئے ہے یا بگاڑنے کے لئیے۔ چوری کی سزا پانے کے بعد بھی وہ شخص مجرم ہی سمجھا جاتا ہے بلکہ اس علاقے میں اگر دوبارہ چوری ہو جائے تو بھی سب سے پہلے اسی کو دبوچا جاتا ہے کہ یہ بھی تم نے ہی کی ہے۔ پھر گھر والے اور رشتہ دار سب مجرم سمجھ کر دھکیل دیتے ہیں اور جرم کی سزا جو جیل میں کاٹی ہے وہ تو کچھ بھی نہیں جو باہر نکل کر شروع ہوتی ہے اسکا اندازہ شاید وہ لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ پھر جیل یا تھانے میں جو نئے رفیق ملتے ہیں وہ تو اس قدر مہذب لگتے ہیں کہ جاتے ہی آپ کو پلکوں پر بٹھا لیتے ہیں اور پھر ایک سیدھا سادہ نوجوان ایک چوری کرکے مجرم اور پھر اس میں مختلف ڈگریاں لیتے ہوئے اپنی دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔

حکومت وقت سے درخواست ہے کہ وہ ایسے لوگ جو پہلی بار غلطی سے غلطی کرتے ہیں ان کے سدھار کے لئیے خاص حکمت عملی اپنائیں۔ ان کو عادی مجرموں سے الگ رکھیں۔ ان کی باقاعدہ کونسلنگ کریں تا کہ ہمیں آنے والے وقت میں ماہر چوروں کا فقدان رہے اور کم از کم ہماری آئندہ نسل کو چور نہیں بلکہ غلطیوں سے سیکھ حاصل کرکے معاشرے میں سبق کی روشنی پھیلانے والے مفکر حاصل ہوں۔

Check Also

America, Imran Aur Pakistan

By Najam Wali Khan