Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas
  4. Kadi Changran De Balan Nu Vi Jin Paye Ne

Kadi Changran De Balan Nu Vi Jin Paye Ne

کدی چنگڑاں دے بالاں نوں وی جن پئے نے؟

معاشرتی طور پر ہم لوگ شاید ان پڑھ ہونے کے ساتھ ساتھ نااہل اور ڈھیٹ ہونے میں بھی اعلی مقام رکھتے ہیں۔ ہمیں مہیا کی گئی سہولتیں جتنی بھی ہیں، ہم نے ان کو ہمیشہ سے ہی نا اہلوں اور جاہلوں کی طرح استعمال کرکے اپنے نکمے اور معاشرتی طور پر انسان نہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ پبلک واش رومز کی حالت ایسی ہے کہ وہاں سے گزرتے ہی دم گھٹنے لگتا ہے۔ پانی پینے والے ڈسپنسر اس قدر گندے ہیں کہ ان سے پانی پینا محال ہے۔ پھر وہاں سیلاب الگ سے آیا ہوتا ہے گلاس کھنگالنے والوں کی طرف سے یا لیکیج کی وجہ سے۔ اس کے علاوہ پڑھے لکھے معاشرے میں جب حکومت وقت نے ٹھنڈے پانی کے کولر نصب کروائے تو لوگ پاؤں اٹھا کر انہیں تازگی دینے کے لئیے ان کولرز میں ڈال رہے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ حکومت وقت جتنا ٹیکس ہم سے لیتی ہے اتنی سہولیات ہمیں نہیں پہنچا پا رہی لیکن کبھی آپ نے اس کی وجہ پر غور کیا ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ اگر نہیں تو کالم کے آغاز کی چند لائنوں کو دوبارہ اپنی خوبصورت آنکھوں سے روشنی بخشیں۔ دوسری اہم بات! کہ اس وقت خطرے میں کون ہے لوئر مڈل کلاس، مڈل کلاس، اپر کلاس یا پھر ایلیٹ کلاس۔ جی ہاں ذرا غور فرمائیے اس وقت خطرے میں صرف اپر کلاس اور اس کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس ہے۔ یہ لوگ دنیا بھر کی بیماریاں اپنے ساتھ لئیے دندناتے پھر رہے ہیں۔ ان کے ہاں صحت نام کی قیمتی چیز کا فقدان ایسے ہی ہے جیسے اونٹ کو رکشہ پہ بٹھا کر میلہ دکھانا۔

البتہ ان لوگوں کی وجہ سے ایلیٹ کلاس شدید خطرے میں ہے۔ بھلا وہ کیسے۔ آئیے ایک منظر نامہ ذرا غور سے پڑھتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک پبلک آفس ہے مثال کے طور پر آپ عدالت اور اس کا احاطہ ہی لے لیں۔ موجودہ جج صاحب کے پاس ایک چیمبر، اس میں پانی کی سہولت اور ایک واش روم ہے۔ اسی طرح ساتھ میں ایک کورٹ روم اور اس کے باہر اہلکاروں کا ایک دفتر۔ آفیسر سے ملنے والوں میں یا پھر اس کو پانی اور کھانا کھلانے والوں میں وہ اہلکار وں میں سے ہی کوئی ایک شامل ہوتا ہے۔ اس آفیسر کا درجہ چہارم کا ملازم آفیسر کو پانی پلاتا اور کھانا کھلاتا ہے اور اس کے علاوہ باقی تمام اہلکاروں کو بھی حسب توفیق یہ خدمات مہیا کرتا ہے۔

اب ذرا اس درجہ چہارم کے ملازم کی زندگی پر تھوڑی سی نظر ڈالیں کہ یہ کیسی زندگی گزارتا ہے۔ یہ بندہ آنے والے ہر بندے کو ملتا ملاتا ہے۔ ان کی بات سنتا ہے اور انہیں جواب دیتا ہے۔ بلکہ اختیار رکھتا ہے کہ کون آفیسر سے ملے گا اور کون نہیں ملے گا۔

اس ملازم نے پبلک واش روم استعمال کرنا ہے۔ جو اس قدر گندہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس سے گزریں تو سانس کے مسائل شروع ہوجائیں۔ سر میں درد کی ٹیسیں اٹھنا شروع ہو جائیں۔ اس کے بعد آنے جانے والے ہر بندے سے اس کی ملاقات ہو ہی جاتی ہے اور وہ کون سی کلاس سے کہاں سے تشریف لائے ہیں اس بارے میں کون جانتا ہے۔ ان کو صفائی ستھرائی کے بنیادی آداب ہیں کہ نہیں یہ کون جانتا ہے۔

کچھ دوست اعتراض کر سکتے ہیں کہ آپ نے ایسا کیوں کہا وہ سب انسان ہی تو ہیں۔ البتہ اعتراض کرنے والے یہ وہ معاشرے کے شاہکار ہیں جو پبلک پارکنگ میں اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل بالکل لائن کے خلاف ایک الگ ڈھنگ سے کھڑی کرکے جاتے ہیں کہ اس کے بعد وہاں موجود 100 بائیکر اپنی بائیکس کو نکالنے کے لئیے اس کا انتظار کرتے رہیں۔ جن لوگوں کو اپنی بائیک کو پارک کرنے کا سینس نہیں ہے ان کو پڑھا لکھا کہنا معاشرے کے چند لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔

کسی بھی پبلک آفس میں کوئی واش روم قابل استعمال نہیں ہوتا۔ وہاں ہینڈ واش نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی البتہ اگر رکھ دی جائے تو لوگ اٹھا کے گھروں کو لے جائیں یا پھر ایسے شہنشاہ بھی ہوتے ہیں کہ کپ میں ڈال کر اسکا مشاہدہ سر عام کریں۔ ان حالات سے ہوتے ہوئے وہ درجہ چہارم کا ملازم ایلیٹ کلاس کے اس آفیسر کو پانی بھی پلائے گا اور کھانا بھی سرو کرے گا اور پھر وہ آفیسر جتنا بھی صفائی پسند ہو اس کے صحت مند رہنے کے چانسز صفر سے بھی کم ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت خطرے میں کون ہے۔ کہتے ہیں کہ "کدی چنگڑاں دے بالاں نوں وی جن پئے نے"۔ اگر اس محاورے کو سمجھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ چنگڑ لوگوں کا مدافعتی نظام بہت تگڑا ہوتا ہے۔ ان کو دھوپ بارش یا پھر کوئی بھی اور آفت اتنا اثر نہیں ڈالتی جتنا کہ ایلیٹ یا اپر کلاس کو۔ اب کورونا کو ہی دیکھ لیں۔ ایسا لگتا تھا کہ اس قوم کے لئیے کورونا نے اپنے دروازے بند کر لئیے تھے۔

البتہ اس وقت اپر کلاس اور ایلیٹ کلاس کے وہ آفیسر خطرے میں ہیں جن کے مدافعتی نظام اتنے تگڑے نہیں ہیں کہ وہ اتنی ساری صعوبتوں سے گزرتے ہوئے ایک ملازم کے ہاتھ سے پانی پئیے گا اور صحت مند رہے گا۔ یہ ضروری ہے کہ ان ملازمین کے لئیے الگ سے واش رومز اور ان کے کمروں میں بنیادی سہولیات بہم پہنچائی جائیں وگرنہ یہ ملازمین بہت ساری بیماریوں اور دیگر مسائل کا پلندہ لے کر آفیسر تک جائیں گے اور وہ آفیسر ان تمام صعوبتوں کو برداشت کرنے میں اپنی زندگی گنوا بیٹھے گا۔ صحت و صفائی کی بنیادی ضروریات کو روزانہ ایسے چیک کیا جائے جیسے آپ کو دن میں تین بار فرشتہ زندگی کی وارننگ دے کر جا رہا ہو۔ اگر اس بارے میں کوئی مناسب اقدامات نہیں کئیے جاتے تو مستقبل میں اپر کلاس اور ایلیٹ کلاس تو جاتی رہے گی اور پھر باقی کی کلاس بیماریوں سے لڑتی ہوئی ہمت جٹانے کی کوشش میں ہلاک ہوگی۔ البتہ چنگڑاں دے بالاں نوں جن فر وی نہیں پینے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan