Hamari Agli Nasal
ہماری اگلی نسل
حکومت وقت نے سکولوں کو مزید ایک ہفتہ کے لیئے بند کردیا ہے۔ کوئی سرکاری یا نجی سکول تعلیمی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکے گا۔ وجہ بتائی جا رہی ہے کہ اسموگ کی وجہ سے بچوں کی طبیعت بگڑ رہی ہے اس لیئے سکول بند کر دئیے جائیں تاکہ وہ بچے اپنے اپنے گھروں میں آرام کر سکیں اور غیر ضروری گھر سے باہر نہ نکلیں۔ کرونا آیا اور اس کے بعد پاکستان میں تعلیمی نظام پہ جو زوال آیا ہے اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ کرونا کی وبا سے اب تک سکول مکمل طور پر کبھی بحال نہیں ہوئے۔ پہلے کرونا کی وجہ سے بند پھر ہمیں زیادہ سردی کا احساس ہوا تو سکول بند اور پھر اگر گرمی کی شدت بڑھ جائے تو سکول بند اور پھر اساتذہ کے مسائل الگ۔
ٹوٹل 365 دنوں میں سے ساری چھٹیاں اگر نکال دی جائیں تو غالباََ ہمارےپاس کچھ ہفتے بچتے ہیں جن میں باقاعدگی کے ساتھ تعلیمی سرگرمیاں سرانجام دی جاتی ہیں اور ان چند ہفتوں میں سلیبس مکمل کروانا اور امتحانات لینا کسی طور بھی ممکن نظر نہیں آتا تو اساتذہ پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ وہ اپنا دباؤ طلباء کی طرف اچھالتے ہیں اور انہیں لمحوں میں کتابیں مکمل کروا کر اپنی ڈیوٹی پوری کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد نتائج اتنے شاندار کے 100 میں سے 9 بچے پاس ہو کر اس پورے نظام کا منہ چڑھا رہے ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ سکول بند کرنے سے کیا اسموگ میں کمی آئی ہے۔ کیا سکول بند کرنے سے ائیر کوالٹی انڈیکس بہتر ہوا ہے۔ کیا سکول بند کرنے سے بچے اپنے گھروں میں قید ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ کیا سکول بند کرنے سے حکومت وقت کو کسی بھی طرح کا کوئی فائدہ حاصل ہوا ہے۔ کیا سکول بند کرنے سے سردی اور گرمی کی شدت میں کمی آئی ہے یا پھر اسموگ واپس رخصت ہوگئی ہے۔ ان سارے سوالوں کے جواب بہت آسان ہیں کہ چھٹیاں ملنےکے بعد والدین بچوں کے ساتھ پکنک کے لئے مختلف تفریحی مقام پر جا بیٹھتے ہیں۔ ایک گاڑی جو 70 بچوں کو اکیلی لے کر جارہی تھی اب 50 گاڑیاں ان بچوں کو لے کر تفریحی مقام کی طرف رواں دواں ہیں۔ باقی جو بچے وہاں نہیں جا پاتے وہ بھی گلی محلے میں اودھم مچائے پھرتے ہیں اور معاشرے میں آداب، تمیز اور برداشت کا جو لیول ہے وہ آپ سب کے سامنے ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری آنے والی نسل علم سے کس قدر واقف ہوگی۔ کرونا کی وبا کے بعد ایک نیا تعلیمی نظام لانچ ہو چکا ہے اور وہ ہے 400 صفحات کی کتاب سے 40 سوال اٹھاؤ اور اپنے اچھے نتائج پاؤ۔ نہ کوئی سلیبس ہے اور نہ ہی کوئی اور ضروری پابندی۔ اس کے علاوہ اب تو بچوں کا سالانہ پیپر انہیں انٹرنیٹ سے لے کر دے دیا جاتا ہے۔ اللہ جانے یہ سکول والوں کو انٹرنیٹ سے پیپر کیسے مل جاتا ہے ہمیں تو آج تک نہیں ملا اور بچے کتاب چھوڑ کے وہ لکھے ہوئے 10 سوال رٹا مارتے ہیں اور صبح وہ ہی پیپر میں۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ اگر یہ سب ایسے ہی چلتا رہا تو ہماری اگلی نسل تعلیمی لحاظ سے اپاہج پیدا ہوگی اور ہم صدیاں لگا کر بھی اسکا علاج دریافت نہیں کر پائیں گے۔
حکومت وقت کو چاہئیے کہ اس بار کوئی ٹھوس اقدامات کرے۔ اگر گرمی ہے تو ہر سکول کو چیک کیا جائے اور گرم موسم کے حساب سے بچوں کی تمام ضروریات کو مد نظر رکھنے والے سکولوں کو کام کرنے دیا جائے۔ اگر موسم سرد ہے تو اس کی تمام تر ضروریات سکول میں ہونے کے بعد اس سکول کو کام کرنے دیا جائے۔ اسموگ کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں پر تعلیمی ادارے بند کر دینا اس کا کوئی حل نہیں ہے بلکہ یہ تو ایسا عمل ہے کہ جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے کہ میں بلی کو نہیں دیکھ رہا۔
حکومت وقت کو باقاعدہ حفاظتی تدابیر کا کتابچہ شائع کرنا چاہئیے اور یہ جو آفیسرز سکول بند کروانے کے لیئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں وہ ان ضروریات کو چیک کرنے میں وقت لگائیں۔ اس معاشرے کو ڈرائیں نہیں بلکہ انہیں سمجھائیں کہ ضروری تدابیر اختیار کرنے سے انکی زندگی میں مثبت تبدیلی ممکن ہے۔ پڑھے لکھے معاشرے کو اگر ماسک لگانے کا کہا جائے تو وہ آسان ہے اس کے برعکس ان پڑھ معاشرہ تو بندر کی طرح ماسک کے چیتھڑے کرکے دیکھتا ہے کہ یہ ایسا بنایا کیوں ہے۔