Ghalti Kis Ki Hai?
غلطی کس کی ہے؟

اس وقت سوشل میڈیا پر نویں جماعت کے نتائج کو لے کر طویل بحث چل رہی ہے۔ اس بحث میں والدین، اساتذہ، وزیر تعلیم اور فیل ہونے والے جیالےشامل ہیں۔ تمام لوگ اس سال کے نتائج کا کیچڑ ایک دوسرے پر اچھالنے کے لئیے پوری کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ہر بندے کا مدعا بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
وزیر تعلیم:
ان کا کہنا ہے کہ سرکار کے سکول میں اساتذہ نے ٹھیک کام نہیں کروایا۔ انہوں نے بچوں کو پڑھایا نہیں ہے اس لئیے بچے فیل ہو گئے۔ ان کا شاید یہ بھی کہنا ہے کہ ان اساتذہ میں بچوں کو پڑھانے کی اہلیت نہیں ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ان کی طرف سے اساتذہ پر تابڑ توڑ حملے کئیے جا رہے ہیں۔ یہ تک کہا جا رہا ہے کہ نتائج کو ترتیب دیا جا رہا ہے۔ بری کارکردگی دکھانے والے اساتذہ کو نکال باہر کیا جائے گا۔ کوئی بھی ایسا بندہ جس کے نتائج خراب آئے ہیں وہ اسی سیشن میں اپنے گھر میں ہوگا۔ وہ اپنی ملازمت جاری نہ رکھ سکے گا۔
والدین:
والدین بھی یہ سب کچھ اپنے اوپر لینےکو تیار نہیں تو انہوں نے یہ سارا مواد اٹھا کر وزیر تعلیم کی طرح اساتذہ کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ والدین کا کہنا ہے کہ اساتذہ پورا سال ہڑتالوں میں رہیں۔ سکول پہلے تو کھلے ہی نہیں اور جب کھلے تو اساتذہ ہڑتالوں پہ چلے گئے اور بچے ہمارے بس سکولوں میں آنے جانے کے علاوہ اور کچھ نہ سیکھ پائے اور اس کے علاوہ سرکار کے سکول میں اساتذہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کے بیٹھے رہتے ہیں بچوں کو کام کروانے کا جرم کبھی نہیں کرتے۔
اساتذہ:
ان احباب کا مؤقف آج کسی اور انداز میں سامنے آرہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت وقت کو چیک اینڈ بیلنس رکھنا چاہئیے تھا۔ حکومت نے سکول کھلنے ہی نہیں دیا (البتہ راوی یہ بھی بیان کردے کہ سکولوں کی بندش پہ جشن منانے والوں میں سب سے پہلے اساتذہ تھے) تو ہم کیسے پڑھاتے۔ ان کا کہنا ہے کہ سکولوں میں سٹاف کی کمی اور دیگر ضروریات جیسا کہ کمپیوٹرز اور ان کے پڑھانے والے، سائنس اساتذہ اور ان کی لیب، فرنیچر جیسے دیگر مواد کی عدم موجودگی میں اچھےنتائج کہاں سے لائیں۔ البتہ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں نکالنا ہے تو وزیر تعلم بھی استعفی دیں کیوں کہ ان کی موجودگی میں نتائج کا ایسا آنا، وہ بھی برابر کے حصہ دار ہیں۔
طالبعلم:
طلباء کی موجیں لگی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب لوگ اس مسئلے کا حل سوچنے کی بجائے آپس میں لڑتے رہیں گے اور ہم آسانی سے ادھر ادھر کی دنیا کے مزے لینے کے بعد ڈنکی لگا کر نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔
البتہ راوی ان تمام احباب کے بارے میں مختلف رائے رکھتا ہے۔ راوی کے مطابق وزیر تعلیم ذرا جلدی کر رہے ہیں۔ اگر تاریخ دیکھی جائے تو انہی اساتذہ نے بچوں کو پڑھایا ہے اور اچھے نتائج بھی دئیے ہیں۔ ان کو نکال باہر کریں گے تو آئندہ سیٹ پر بیٹھنے والا کبھی خراب رزلٹ آنے ہی نہیں دے گا کیونکہ پیپر چیک کرنے والے اساتذہ کبھی بھی کسی بچے کو فیل نہیں کریں گے اور پھر ہم مڈل کے بعد میٹرک اور آگے کے درجے اسی خوف کے سائے میں اپنی نالائقی کے ساتھ عبور کرتے جائیں گے۔
اس کے علاوہ وزیر تعلیم کو ذرا توجہ سے پچھلے سال کے اعداد و شمار پر غور کرنا چاہئیے۔ گزشتہ سال میں کتنے دن بچوں نے سکول جا کر پڑھا ہے۔ زیادہ عرصہ تو سردی گرمی کے راگ الاپتے ہوئے سکول بند رکھے گئے ہیں اور جب سکول ہی بند ہوں گے اور ان نونہالوں کو سردی گرمی سے بچایا جائے گا تو تعلیم جیسی مشکل اور خطرناک چیز ان کے گلے کیسے ڈل سکتی ہے بھلا اور پھر اگر کبھی سکول کھل جائیں تو اساتذہ بجائے پڑھانے کے اپنے مسائل لے کر اسمبلی کے دروازے پر بیٹھے ہوتے ہیں اس دورا ن نتائج کی توقع رکھنا بے وقوفی ہے۔
اساتذہ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہیں۔ وہ کرسی چھوڑ کر کام کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ بچوں کو سمجھانے یا لیکچر تیار کرکے کلاس میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں ان کا بلکہ اپنے ٹیوشن سنٹر چلا رہے ہیں اور وہ تمام بچے جو صبح کے وقت سکول آتے ہیں ان کے لئیے لازمی ہےکہ وہ ان کے کوچنگ سنٹر تشریف لائیں بصورت دیگر صبح نرینے کالجے ان کو بس اس لئیے ڈنڈے مارے جاتے ہیں کہ وہ ان کے پاس ٹیوشن کیوں نہیں پڑھتے۔ البتہ حیرانگی اس بات کی ہے کہ جو استاد سکول میں 6 گھنٹے کام کروا کر بچے کو پاس نہیں کروا سکا وہ 2 گھنٹوں میں کیا کمال کر سکتا ہے۔
والدین بھی اس سب میں ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ ان کو اپنے بچے مشینی دنیا کے باشندے چاہئیے۔ وہ اپنے بچے سے سوال کرنے کی بجائے سکول کے استاد یا ٹیوشن کے استاد سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا بچہ فیل کیوں ہوا۔ بچے کو پڑھایا گیا سمجھایا گیا، لیکن یاد کرنا بچے کی ذمہ داری ہے آپ نے وہ بھی اساتذہ پر ڈال دی تو نتائج ایسے ہی ملیں گے۔
خیر وزیر تعلیم سکولوں کی بندش کا نوٹس لیں اور یہ کسی بھی صورت بند نہیں ہونے چاہئیں اور ماہانہ بنیادوں پر بچوں کا ٹیسٹ لے کر نتائج کو بہتر کریں، والدین اساتذہ پر الزام بازی کرنے کی بجائے اپنے بچوں کو خود وقت دیں اور اساتذہ کو چاہئیے کہ وہ اپنے مسائل حکومت وقت کو بتائے لیکن روز روز کے دھرنے اور احتجاج کے ساتھ بچوں کا مستقبل تباہ نہ کریں ہاں احتجاج کے لئیے اتوار کا دن موزوں ہے آپ کو پورا حق ہے۔

