Yaadon Ka Kharcha Kat-ti Burhiya
یادوں کا چرخہ کاتتی بڑھیا

لالہ موسیٰ! اپنی ننھیال بستی کا نام ذہن میں آتا ہے تو تصور ایک پردہ سکرین بن جاتا ہے جس پر یادوں اور یادگار کرداروں کی ایک حیران کن فلم سی چلنے لگتی ہے۔
گرما کی ایک تپتی دوپہر، ایک تنور آسمان پر دہک رہا تھا ایک زمین پر۔ زمین پر دہکتے تنور کے سامنے ایک عورت کھڑی تھی۔ زمین و آسمان اس وقت اس کے چہرے پر مرتکز تھے۔ یہ خاتون روٹیاں لگا رہی تھی۔ آدم کے آسمان پر ایک دانہ کھانے سے انسانوں کے دانے بن کر بخت کی چکی میں پسنے تک زندگی گندم کے دانوں کی بھوکی دربان ہے۔
وہاں اس جفاکش خاتون کے تنور کی اس مٹی میں اپنے وجود کی خاک کو ضم کرنے سے لے کر آج اس وجود کو اس دھرتی کے حوالے کرنے تک راقم نے اس صبر و جفا کے پہاڑ کو بخت کے کوہ کن کے ہاتھوں ریزہ ریزہ بکھرتے دیکھا، ذرہ ذرہ منتشر ہوتے پایا اور آج آخر کار وہ زمیں بوس ہوا۔
عجیب کہانی ہے۔ لکھتے ہوئے انگلیاں فگار ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے آنکھیں انگلیوں کی پوروں میں سما گئیں، خون کے آنسو روشنائی بنے۔ جسطرح ان کی زندگی ٹھہر گئی تھی اس قیدِ بامشقت کا احوال لکھتے قلم بھی رک جاتا ہے۔ آنکھیں کی نمی کے پار موبائل سکرین دھندلا جاتی ہے۔ مگر کیا کہوں۔۔ یہ آنسو کیا ہیں جو وہ آنکھیں روئیں، یادوں کی ٹیسوں کی یہ چند بے جان سی لہریں کیا ہیں کرب کے طوفانوں کے جو مدوجزر اس دل پر بیت گئے۔ کرب کا یہ نحیف سا احساس کیا ہے درد کے جو تازیانے ہر سانس کے ساتھ اس روح نے جھیلے۔
قبائلی روایات کی گرویدہ ماں کے لیے پلوٹھی کا بیٹا ہاتھ کا چھالا تھا۔ جاتے ہوئے ترکے میں چھوٹے بیٹے کو دے گئیں۔ آسودہ قاضی خاندان وقت کے نرغے میں آکر گرنے لگا تو اوائل عمری میں انگریزوں کے ساتھ انگریزی بولتے چھوٹے بیٹے نے یہ چھالا ہاتھ سے دل پر جما لیا۔ سائیکل اٹھائی لالہ موسیٰ سے کھاریاں جا پہنچا۔ گیمن کمپنی اس وقت کی ایک معروف کمپنی تھی۔ مصالحے اور پتی کی پھیری لگانے آنے والا اس دھرتی کا مالک بن بیٹھا گورا صاحب کالی قوم کے اس نوجوان سے متاثر ہوا۔ سائیکل کو پر لگ گئے۔ ترکے میں ملا بار سائیکل پر لادنا مشکل تھا۔ زندگی اڑن طشتری کی مسافت ہوئی۔ انسان کے کاندھوں پر بوجھ کی معیاد نہیں ہوتی جہاز پر ہوتی ہے سو ترکے کا بوجھ اس خاتون کو سونپ کر نوجوان مسافر ہوا۔ ترکے کا وہ چھالا تندور والی اس خاتون نے روح میں بسا لایا۔
وقت گزرنے لگا زندگی ٹھہر گئی۔
ہماری آنکھ کھلتی تو انکی جفا کی سویر طلوع ہوئی ہوتی، ہماری آنکھ لگتی تو ابھی انکی ریاضت کے تھکان کی چادر اوڑھ کر سونے میں وقت باقی ہوتا۔ سوتے میں رتجگے کاٹتی عورت۔
خدا نے چار بچے دیے۔ تین قہقہے لگاتے دلوں میں لگی جینیاتی گرہیں کھولتے بھری جوانی میں تھک کر ہار گئے۔ انکی میتوں پر بین کرتی بڑی بیٹی کا ازالہ خدا اسکے بچوں کی صورت کرے۔ انکی خوشیاں وہ دیکھے اور خدا کرے وہ خوشیاں دکھائیں بھی۔
بچپن کے لنگوٹیے وہ دونوں بھائی زاہد اور شاہد عرف گلو بلو۔ اپنی طرز کے دو الگ ہی کردار تھے۔ ہنس مکھ، ذہین اور کمال با صلاحیت۔ یہ بات کرتے دل کیا روح کو ہاتھ پڑتا ہے کہ ہم لوگ ہم عمر تھے اور اب ان دونوں کی موت کا تذکرہ ایسے کرنا پڑتا ہے جیسے دو بوڑھے مر گئے ہوں۔ جوانی میں موت فطرت کا سب سے دردناک اور کرخت تضاد ہے۔ مگر وہ تضاد جس کی ممتا نے اپنے تن پر جھیلا اس ماں کا عالم کیا ہوگا۔
انکا بچپن ماں کی مشقت اور والد کے بُعد کی نذر ہوا۔ سال میں چند دن باپ کا سایہ انہیں نصیب ہوتا۔ پھر ایک دن قطر واپس جاتے باپ کے پیروں میں بچوں نے بیڑیاں ڈال دیں۔ باپ نے مسافت ترک کر دی۔ سکونت مگر بخت میں کہاں تھی۔ ترکے کا بوجھ اٹھانے والے اپنے ترکے کو بھلا بیٹھتے ہیں۔ فاصلے سمٹ بھی جائیں تو اجنبیت قائم رہتی ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام ہوتا ہوگا مگر ایسا نظام۔ اللہ اللہ مڑ کر دیکھوں تو لگتا ہے یہ نظام خود بخود اس دیوار سے سر ٹکرانے کو تھا جو بعد میں اس گھر کے درمیان کھڑی ہوگئی۔ گھر بعد میں تقسیم ہوتے ہیں پہلے گھرانے تقسیم ہوا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں زندگی کی ریاضی بڑی تلخ ہے۔ تقسیم کرنی ہی ہو تو ایک جگہ جمع ہو کر کر لینی چاہیے ورنہ ضرب کھا کر منفی ہونا پڑتا ہے اور پھر جا کر تقسیم ہوتی ہے۔ حساب وقت سے نہ کیے جائیں تو بے وقت کا حساب بے حساب ہو جاتا ہے۔
وہ لمحہ میں بھول نہیں سکتا جب انکے بڑے بیٹے اور اپنے لنگوٹیے کی موت کی خبر مجھے میرے بھائی نے دی۔ جہاں کھڑا تھا وہاں تھم سا گیا کہ لہو رگوں میں جم سا گیا۔ صبح ناشتے کے لیے سامان لے کر واپس آیا بڑا بیٹا بستر پر لیٹا اور ماں باپ کے سامنے دم توڑ گیا۔ ہنستا گاتا کھلکھلاتا قاضی شاہد نواز، بلو مرحوم ہوگیا۔ اتنا زندہ آدمی بھی مر سکتا ہے؟ جا ری زندگی۔۔ بے اعتبار کہیں کی۔ اپنا ساتھ دینے والوں کا بھی ساتھ نہیں دیتی۔
میرے بڑے ہارون صاحب کی شادی ہوگئی میری دوسری ماں میری بھابھی خواب نگر ملکوال آ گئیں۔ یہ شادی کیسے ہوئی، پھر کبھی۔۔ لالہ موسیٰ والوں نے لالہ موسیٰ چھوڑ دیا۔ گھر نئی بننے والی دیواروں سمیت بک گئے۔ کھمبی میں آن بسے وہ لوگ۔
چھوٹے بیٹے قاضی زاہد نواز کی شادی پہلے ہو چکی تھی۔ تین بچے خدا نے دیے۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ پوتا پیدا ہوا تو چھوٹے بیٹے کو دل کا مرض تشخیص ہوا۔ وہ لمحہ کیسے بھولوں کہ اگلے کئی سال اسکے حصار میں رہا۔
قاضی زاہد میرے یار گلو نے مجھے فون کیا کہ مجھے اپنے دوست ماہرِ امراضِ قلب ڈاکٹر سبحانی سے چیک آپ کروا دے۔ اپنی والدہ کو لے کر وہ ملکوال آن پہنچا۔ ہائے وہ لمحہ۔۔ سردیوں کی وہ یخ بستہ رات۔ ممانی نے میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ ہڑبڑا کر میں اٹھا۔ پنجابی میں کہنے لگیں تمہیں گلو بلا رہا ہے۔ اسکے پاس میں گیا تو کہنے لگا ٹائم کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا دو بج گئے رات کے۔۔ کاندھوں میں سر دیے کہنے لگا زندگی کی گھڑیاں الٹی ہوگئیں۔۔ نیند آنکھوں سے اڑا دی اسکے اس جملے نے۔ آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ یہ وہی ہے، کہیں اسٹیشنوں پر چہکتا، کہیں کرکٹ گراؤنڈز میں کھلکھلاتا۔۔ او خدایا۔۔ کہنے لگا بھوک لگی ہے۔۔ سیب کاٹ کر میں لایا تو ممانی اسے دبا رہی تھیں وہ کرب سے کراہ رہا تھا۔ انکی آنکھیں میں نے دیکھیں اوہو ہو ہو کوئی بے بسی تھی۔ گلو نے سیب کھایا اور لیٹ گیا، ممانی سے میں نے کہا سو جائیں آپ اور میں اسکی ٹانگیں دبانے لگا۔ وہ دونوں سو گئے میں کہیں دور بہت دور کھو گیا۔ تندور، روٹیاں، بندھا ہوا سر، بازو پر جلاؤ سے بچانے والا کپڑا۔ گلو، بلو، وہ قہقہے، وہ شرارتیں، وہ عیدیں، وہ شبراتیں، وہ زندگی، وہ قاضی خاندان۔۔ او میرے مولا۔۔ کوئی بے قراری تھی۔
اگلے دن جب ڈاکٹر سبحانی کے پاس پہنچے تو اس نے گلو کو کہا انہیں باہر بٹھا کر میرے پاس آئیں۔ بچپن میں غزالی سکول میں ہمیں استادوں کی طرح ریاضی پڑھانے سے لے کر کرکٹ کے میدانوں میں اس چہرے کو میں دیکھتا آیا تھا۔ یہ وہ ڈاکٹر سبحانی تو نہیں تھا۔ اس چہرے کو میں اسطرح پہلے بھی دیکھ چکا تھا جب اس نے مجھے یتیمی کی بیساکھی تھمائی تھی۔ باقی زندگی دھوپ سہنے کا مژدہ سنایا تھا۔ جناح ہسپتال لاہور۔۔ سرکار کی آخری سانسیں۔۔ دل حلق میں آ گیا۔
گلو کو میں چھوڑ کر واپس آیا تو اس نے کہا فوراً لاہور یا پنڈی، وقت نہیں ہے۔ وقت واقعی نہیں تھا، لاہور کس نے دیکھا تھا، پنڈی کون جاتا۔ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر میں ممانی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ چک سیدا موڑ پر ازرائیل کا پڑاؤ ہو چکا تھا۔ گلو کہنے لگا پنڈی نہیں لاہور جاؤں گا۔ میرا کارڈ میری جیب میں ہے۔ اس نے مجھے پرس پکڑایا اور ساتھ ہی ایک آواز آئی۔ اسکے قہقہے سن رکھے تھے، اسکی کلکاریوں کی صدا سے میں آشنا تھا، اسکی شرارتی ہنسی سے میں واقف تھا۔۔ یہ آواز اسکی نہیں تھی عزرائیل کی تھی۔ ممانی کی چیخ وقت نے بھلائی یا دواؤں نے۔۔ نہیں معلوم۔
گاڑی ڈاکٹر منظور رسول صاحب کے ہسپتال تک پہنچی۔ میں نے اسے آخری سانسیں لیتے دیکھا۔ باہر بینچ پر ممانی خدا کو پکار رہی تھیں۔ خدا خود نہیں آیا عزرائیل کو بھیج دیا۔ منظور رسول صاحب کلمہ پڑھ رہے تھے۔ گلو چلا گیا۔ میں باہر آیا اور ممانی سے کہا گھر چلیں۔۔ کراہتے ہوئے کہنے لگیں ایک دفعہ گلو سے مل لوں؟ وہ کیسا ہے؟ ٹھیک ہے۔۔ زندگی میں میری جانب سے بولے گئے اس جھوٹ کے سامنے زندگی کا ہر سچ ہیچ ہے۔۔ میں نے کہا جی وہ ٹھیک ہے آپ کو گھر چھوڑ آتا ہوں۔۔ بچوں کی طرح ضد کرتے کہنے لگیں۔۔ ناں میں نہیں جانڑاں۔۔ میں گلو کول رہواں گی۔۔ کیسے بتاتا کہ ماؤں سے ستر گنا پیار کرنے والے "لم یلد ولم یولد" والے نے آپکا دوسرا بیٹا بھی لے لیا۔۔ بڑی دقت سے جھوٹی قسم دے کر میں نے انہیں ڈرائیور کے ساتھ گھر بھیجا اور خود کاغذی کاروائی کے ساتھ گاڑی کا انتظام کرنے لگا۔۔ پوری حیات کی آزمائشیں ایک طرف۔۔ واپسی پر انہیں جیتے جی دفن ہونے کی خبر سنانے کی ابتلا ایک طرف۔۔ جیسے وہ دھاڑیں۔۔ او میریا ربا۔۔ لغت کے در پر قلم نے اس لمحے کے بیان کو ایک لفظ کی بھیک مانگی۔۔ خالی ہاتھ لوٹا دیا گیا۔ اس لمحے صدمے کا لفظ اپنی بے مائیگی پر نوحہ کناں تھا۔ اس عورت کی ممتا کے زخم پر کائنات کا ہر مرہم بے بس تھا۔
اپنے ماں باپ کا ترکہ سمیٹنے والے اپنا ترکہ سمیٹنے آئے تو بکھر گیا۔ اپنی دو پوتیوں ایک پوتے اور بہو کے ساتھ بچی کھچی زندگی کو یہ دو بوڑھے دھکیلنے لگے اور پھر وہ لحظہ جب وہ دونوں ملکوال آن بسے۔۔ ہمارے گھر کے ساتھ والے گھر میں۔ سعادت اگر کہیں لکھی گئی ہو تو شاید یہی ہو ورنہ بس چل چلاؤ۔۔ بختوں کی عجیب کربناک داستان ہے۔ جس شاخ پر آشیانہ بناتے چٹخنے لگتی۔ میری ماں جیسی بھابھی کو دل کا مرض لاحق ہوگیا۔ وہی مرض وہی علامات وہی تیز سانسیں وہی معدوم دھڑکنیں اور پھر وہ بھی چل دیں۔۔ کچھ دنوں بعد سامان سمیٹ کر دونوں بوڑھے واپس چل دیے کھمبی۔۔
اپنے پوتے میں اپنے بیٹے کی روح دیکھنا مگر اسکا جسم دکھائی نہ دینا بڑا کرب ہوگا۔۔ کیسے سہتے ہونگے۔۔ خدا بے نیاز ہے۔۔ تب سمجھ آیا۔۔ پھر قاضی نواز صاحب ایک دن انہیں اکیلا چھوڑ کر خاموشی سے ایک طرف ہو گئے اور صبر کا پہاڑ اکیلا رہ گیا۔
چاند میں چرخہ کاتتی بڑھیا ساقط تھی۔۔ یادوں کا چرخہ کاتتی یہ بڑھیا جیتی جاگتی تھی جس نے اپنی زندگی کے ایک ایک چاند اور ایک ایک ستارے کو خود رخصت کیا۔۔ جب وہ بہشتی گلو، بہشتی بلو کہتی تو بہشت ایک جائے رائیگانی معلوم ہوتا۔۔
پچھلے دنوں پتا چلا زیادہ بیمار ہیں تو ہم پہنچ گئے۔ سامنے بیٹھا میں اس تندور والی جوان عورت کو ڈھونڈ رہا تھا۔ مشقت کے تندور میں اس نے اپنا جیون جھونک دیا جو بچا وہ صدموں کی راکھ میں دفن ہوگیا۔ بعض لوگوں کی زندگی قیدِ بامشقت و حسرت بن جاتی ہے۔۔ ان میں سے ایک تھیں۔۔ چیختے ہوئے اس کنبے کی آخری نشانی ہماری بڑی بہن نے فون کیا۔۔ او بنٹی تیری آنٹی چلی گئی۔۔ ایک مدت سے میں انہیں آنٹی کہتا وہ مجھے بنٹی۔۔ سوچ میں پڑ گیا روتی چلاتی بیٹی کے ساتھ افسوس کروں یا اسے مبارک دوں کہ شکر کریں اس عمر قید بامشقت و حسرت سے انہیں رہائی ملی۔۔ نام تھا منور سلطانہ اور زندگی کے اندھیروں میں سلطانی کا کوئی لمحہ ڈھونڈتی رہیں۔۔
کوئی عجیب منظر ہوگا جنت کے دروں۔۔ گلو بلو اپنے والد صاحب کے ساتھ اپنی ماں کا استقبال کر رہے ہوں گے۔ وہاں اب وہ سب کبھی نہیں بچھڑیں گے۔۔ وہاں نہ کوئی تنور ہوگا نہ دیوار نہ حسرت نہ انتظار۔۔ وہاں وہ خدا ہوگا جس نے کہا کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔۔ اسکا ساتھ زمین پر حاصل ہوتا ہے یا آسمان پر یہ وہی جانے کیونکہ زمین پر یہ خاتون خدا کو بلاتی رہی اور صبر کرتی رہی۔۔ خدایا رحمت ہو ان پر۔۔

