Transgender Act (1)
ٹرانسجینڈر ایکٹ (1)
انسان کو خدا نے پیدا کیا۔ اپنے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کے لیے دینِ اسلام اتارا۔ مرد اور عورت کے علاوہ خواجہ سراؤں کو خدا تیسری جنس کے ساتھ پیدا کرتا ہے۔ پہلی دو جنسوں والے مسلمان مرد اور عورت کہتے ہیں کہ اسلام تیسری جنس والے خواجہ سراؤں کو انکے حقوق دیتا ہے۔ پھر اسلام کے نام پر ایک ریاست بنتی ہے۔ اس پاکستان میں ایک خواجہ سرا پیدا ہوتا ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے؟
پیدا کرنے والا بے نیاز ہے تخلیق میں کُن کہتے ہوئے وہ کیا پہچان عطا کرتا ہے کہ پیٹ میں رکھنے والی ماں گود میں رکھنے سے انکار کر دیتی ہے۔ یہ پہچان ملنے کے بعد زندگی میں عافیت کے وہ چند ہی مہینے نصیب ہوتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں ملتے ہیں۔ علم ہونے پر اپنے بطن میں رکھنے والی ماں گود میں نہیں رکھ پاتی۔ خدا کی جانب سے اسی بھوکے پیٹ کے لیے تخلیق کیے گئے دودھ کے قطرے اسکے بھوکے پیٹ تلک نہیں پہنچ سکتے۔
یہ خواجہ سرا ماں کی محبت کی مثال دینے والے خدا سے مل کر یہ پوچھیں گے کہ اس محبت میں اس ممتا میں ہمارا حق کیوں نہیں تھا؟ ایک باپ اپنے صلب سے پیدا ہونے والے بچے کو اپنی "عزت" بچانے کی خاطر گھر سے چلتا کرتا ہے۔ اس سماج نامی جنگل میں ایک باپ کی یہ عزت ہوتی ہے جو تا حیات اسکی اس اولاد سے یہ جنگل میں بسنے والے حیوان کیا کرتے ہیں۔ جسکی خبریں کیا ویڈیوز تک عام ہیں وہ اس باپ کی عزت و غیرت گوارا کرتی ہے لیکن اسے اپنے گھر میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ رہنے دینا گوارا نہیں ہوتا۔
باپ شفقت کا سایہ ہوا کرتے ہیں لیکن ان بے چاروں کو وہ سایہ خود جفا کے سورج کے سوا نیزے پر چھوڑ آتا ہے۔ ایک ہی باپ کے صلب سے ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے اپنے بہن بھائیوں کی محبت سے محروم کر دیے جاتے ہیں اس جنس کی بنیاد پر جسکو نہ خود انکے ماں باپ نے اپنے لیے چنا ہوتا ہے، نہ بہن بھائیوں، نہ ہی ان وحشیوں نے جو زندگی بھر انہیں اسکا خراج ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
وہ جسم جو خدا کی تخلیق کی بنیاد پر ماں کی ممتا سے محروم ہوتے ہیں، باپ کے سایے سے عاق کر دیے جاتے ہیں، بہن بھائیوں کی محبت جنکی حسرت بنا دی جاتی ہے وہ اس جنگل کے حوالے کر دیے جاتے ہیں جہاں ان جسموں کی مجبوریاں بکتی ہیں۔ انسانی خواہشیں سسکتی ہیں۔ آرزوئیں ماتم کرتی ہیں اور حقوق معصوم دلوں کی قبروں میں زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ وہ قبریں جنکے کتبوں پر عربی رسم الخط میں لکھا جاتا ہے "اسلام خواجہ سراؤں کو انکے حقوق دیتا ہے"۔
وہ جنکا پیدا ہونے کے بعد پہلا حق ماں کی ممتا سے محرومی کی صورت سلب ہوتا ہے۔ باپ کی عزت و غیرت پر تیسری جنس کا داغ لگانے کے ناکردہ گناہ کی سزا جنہیں باپ کی شفقت کے حق سے محرومی کی صورت ملتی ہے۔ اپنے بہن بھائیوں کی محبت کا حق جو اس لیے نہیں پا سکتے کہ خدا نے انہیں اُن جیسا نہیں بنایا ہوتا۔ اسکے بعد تعلیم کا حق، صحت و علاج کا حق، عزت کا حق، رہائش کا حق، ملازمت کے حصول کا حق، سفری سہولیات کا حق۔
حتیٰ کہ سماج میں ایک عام انسان کی طرح جینے تو کیا مرنے تک کے حق سے محروم کیے جانے والے ان معصوموں کی ہر حق تلفی کرنے والے مسلمان بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اسلام خواجہ سراؤں کو انکے حقوق دیتا ہے۔ بے شک اسلام حقوق و فرائض ہی کا مجموعہ ہے لیکن یہاں سوال اسلام نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس میں بسنے والے مسلمانوں کا ہے جو یہ حقوق پامال کرتے ہیں۔ جو اپنے اس ناروا رویے کی ڈھال اسلام کو بناتے ہیں یہ سوچے بنا کہ اس سے اسلام کو کتنا نقصان پہنچتا ہے۔
انہی حقوق کی فراہمی کے لیے ایک قانون ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 پر آج کل بہت ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔ اس بل کے متعلق اپنی معروضات اس تحریر کے دوسرے حصے میں پیش کرتا ہوں فی الحال سب پڑھنے والوں سے ایک سوال کہ ہم مسلمانوں نے یہ جملہ بجائے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ہر پسے ہوئے طبقے کے حقوق کی پامالی کی ڈھال کیوں بنا رکھا ہے کہ "اسلام ان طبقات کو سارے حقوق دیتا ہے"۔