Tosha Khanna Aur 22 Crore Showpiece
توشہ خانہ اور 22 کروڑ شو پیس
توشہ خانہ، توشہ خانہ کیا رٹ لگا رکھی ہے بھیا، دن رات ہماری خاطر ایک کرنے والے اتنے جفاکش محنتی اور مخلص حکمرانوں کا اتنا بھی حق نہیں کہ وہ کچھ چھوٹی موٹی چیزیں ہی اپنی دیہاڑیوں میں سے پیسے بچا بچا کے کمیٹیاں ڈال ڈال کے اپنے چھوٹے چھوٹے گھروں کی زیبائش اور ذاتی ضرورت کے تحت رکھ لیں۔ کیا ہوگیا آپ لوگوں کو۔ بہت نیگیٹو سوچ ہے آپکی۔
مشرف صاحب جنہوں نے تین سال کا ایک ذاتی آئین ملک کو دیا۔ جنگیں لڑیں۔ دس سال ملک کی صدارت کی۔ اب سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے صدر جمع چیف آف آرمی سٹاف کا اتنا بھی حق نہیں تھا کہ وہ توشہ خانہ سے اپنے لیے کچھ چیزیں ہی سستے داموں لے لیتے۔ بھئی آپ خود سوچیں اور انصاف کریں کہ اسلام کے قلعے کا توشہ خانہ کیا امتِ مسلمہ کی فوج کے سربراہ کو اتنے سے ہدیہ جات بھی نہیں دے سکتا۔ بھول گئے اپنے اسلاف کی تاریخ جب بادشاہ سپہ سالار کو اشرفیوں میں تول دیا کرتے تھے۔
اب ہمارے پاس اشرفیاں نہیں تو طاہر اشرفی صاحب تو ہیں ٹھیک ہے انکے ساتھ کسی کو تولا نہیں جا سکتا لیکن بھئی بادشاہ اور اشرفیاں نہیں تو کیا بادشاہت اور توشہ خانہ تو ہے ناں۔ شوکت عزیز جنہیں اس وقت شارٹ کٹ عزیز کہتے تھے۔ پاکستان کی خاطر امریکہ جیسی سوپر پاور سے "شارٹ کٹ" لگا کر آیا۔ کیا پاکستان کا قومی خزانہ اتنا سنگدل ہے کہ اس کو چند کروڑ کے تحائف بھی دے کر واپس نہ بھیجے۔ او بھائی ہماری مہمان نوازی کو بٹہ مت لگاؤ۔
ملک کا تین دفعہ کے وزیراعظم محترم میاں نواز شریف صاحب اب کیا ووٹ کو عزت دو کی تحریک پیدل چلاتے۔ مرسڈیز گاڑی کے بغیر تحریک چلتی ہے بھلا۔ اگر اس وقت کے لحاظ سے پچاس لاکھ کی گاڑی چھے لاکھ میں رکھ لی تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی۔ میاں صاحب نے اسی سال بتایا تھا کہ میں نے پانچ ہزار ٹیکس صرف اس لیے دیا ہے کہ میرے پاس اپنا گھر نہیں ہے میں اپنی والدہ کے گھر میں رہتا ہوں۔
خدا انکی والدہ کے درجات بلند کرے۔ میاں صاحب نے بتایا کہ وہ اپنی والدہ محترمہ کے گھر رہتے ہیں اور انکی دختر محترمہ مریم نواز نے ارشاد فرمایا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ رہتی ہیں۔ اب اس گتھی کو آپ خود ہی سلجھاتے رہیں مجھے تو اپنے گھر کے آٹے کی گتھی کی فکر ہے جسے شہباز شریف صاحب نے اپنے کپڑے بیچ کر سستا کرنا تھا۔
دیکھیں پائن ایپل پاکستان میں نہیں پایا جاتا یہ گلے کے لیے بہت مفید پھل ہے۔ مریم بی بی نے "ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے تحریک چلانی تھی اسکے لیے تقاریر کرنی تھیں ان تقاریر کے لیے گلے اور آواز کا بہتر ہونا کتنا ضروری تھا اب اگر وہ پائن ایپل اپنے ساتھ لے گئیں تو کیا ہوگیا۔ انکے ساتھ انکے شوہرِ نامدار جنہیں قائداعظم کے مزار پر نعرے لگانے ہوتے ہیں جس پر رینجرز مشتعل ہو کر انہیں اٹھا لیتے ہیں۔
اب آپ خود سوچیں پاکستان کے عظیم فوجی جوانوں نے کیپٹن صفدر معذرت پیر و مرشد (کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اگر میں نے باجوہ صاحب کو بتا دیا کہ میں کتنے بڑے روحانی خانوادے سے تعلق رکھتا ہوں تو۔۔) کیپٹن صفدر صاحب کو اٹھایا ہو اور ان سے پسینے کی بو آ رہی ہو اور فوجی بے ہوش ہو جائیں تو اسکا ذمہ دار کون ہے؟ اب اس کے حفظِ ماتقدم کے طور پر اگر کیپٹن صفدر صاحب نے توشہ خانہ سے لکس صابن لے لیے تو کیا برا کیا انکی تو اپنے پیٹی بھائیوں کا خیال رکھنے پر تحسین ہونی چاہیے۔ ویسے بھی وہ باجوہ صاحب جنکو وہ للکارتے تھے اب انہیں نیا نیا پتا چلا ہے کہ باجوہ صاحب انکے استاد ہیں اور باجوہ صاحب تو خیر ویسے بھی بڑے استاد ہیں۔
خادمِ اعلیٰ نے پچھلے دورِ حکومت میں مبینہ طور پر پانچ کیمپ آفسز بنا رکھے تھے۔ اب آپ خود حساب لگائیں کہ خادمِ اعلیٰ جیسا غریب کسان کا بیٹا (یہ انہوں نے کہا میرے تے نہ رنج ہو جانڑاں) صبح سویرے پانچ بجے اٹھے لمبے بوٹ پہن کر لاہور کی سڑکوں سے پانی نکالیں اور سارا دن پنجاب کے عوام کی خدمت کریں اب اگر انکے پاس وقت ہی نہ ہو لنڈے جا کر کوئی گھر کی چیزیں لینے کے لیے تو کیا پاکستان کا توشہ خانہ انکے لیے خود لنڈا نہیں بن سکتا۔ اگر انہوں نے چاکلیٹس، گھڑیاں، کچھ شوپیسز وغیرہ مفت میں رکھ لیے تو کیا ہوگیا بھئی۔
ایک زرداری سب پر بھاری۔ پاکستان کا ایک ایسا عظیم سپوت جس نے "پاکستان کھپے" کا نعرہ سندھی زبان میں لگایا تھا لیکن پنجابی میں بھی وہ اس نعرے پر پورا اترتے ہیں۔ انہوں نے پنجاب میں"پیپلز پارٹی کھپے" کا نعرہ صرف لگایا ہی نہیں اس پر عمل بھی کیا۔ ایک وفاقی جماعت کو سندھ تلک کیا پیدل لے کر جاتے۔ ایسے میں پہلے سے محرومی کا شکار صوبہ کیا سوچتا۔ سو انہوں نے اگر دو بی ایم ڈبلیو گاڑیاں اونے پونے رکھ لیں تو کونسی اچنبھے کی بات ہے یارو۔
احسن اقبال صاحب ایک بہت با کمال اور راست باز سیاستدان سمجھے جاتے ہیں۔ ایک شریف النفس آدمی۔ اتنے شفاف سیاستدان ہیں کہ اپنے حریف کو "گھڑی چور" کہتے ہوئے جوشِ خطابت میں جب ہاتھ بلند کرتے ہیں تو اس پر توشہ خانہ ہی کی گھڑی ہوتی ہے۔ ہوئی ناں عظمت۔
صحافت ریاستی عمارت کا اہم ترین ستون ہوتا ہے۔ یہ حکومتی ایوانوں میں عوام کے حواسِ خمسہ کا کردار ادا کرتا ہے۔ اب ہم عوام کیا اتنے کٹھور ہیں کہ توشہ خانہ کا کیس سب سے زیادہ بلند کرنے والوں کو اسی توشہ خانہ میں سے کچھ نہ دیتے۔ وہ سنا نہیں آپ نے کہ کوئی قیمتی شے یا رقم وغیرہ گم جائے تو اعلان کیا جاتا ہے کہ اطلاع دینے والے کو اس رقم میں سے اتنے فیصد دیا جائے گا۔ اس لیے سلیم بخاری صاحب، رانا جواد صاحب اور الیاس صاحب جیسے صحافیوں کو پاکستانی قوم پر یقین تھا اس لیے انہوں نے پہلے ہی توشہ خانہ سے "ساڈا حق ایتھے رکھ" والا کام کر لیا۔
سادات کے خانوادے کے عظیم سپوت جنہوں نے وزیراعظم بنتے ہوئے ایک تفاخر سے قوم کو بتایا تھا کہ انکا شجرہ شیخ عبدالقادر جیلانی سے جا ملتا ہے۔ سیلاب کے دنوں میں جو ایک کافی اور سینڈوچ والی "بھوکی" انجلینا جولی سے بمعہ اہل و عیال ملنے بھی آئے تھے۔ ان پر ترک صدر کی بیوی کا ہار چرانے کا الزام لگا تھا واللہ و عالم وہ الزام "درست تھا صحیح" بحرحال یہ شک دور کرنے کے لیے انہوں نے اگر اپنی اہلیہ محترمہ سے قانون کے مطابق جیولری سیٹ اور دیگر تحائف لے لئے تو شک تو دور ہوا ناں؟
اور آخر میں ہمارے صادق اور امین کپتان جی۔ پاکستانیو ویسے شہباز شریف صاحب کی تو سمجھ آتی ہے کہ وہ خانہ کعبہ کے ماڈل کی گھڑی بیچنے پر سیاست کر رہے ہیں کیونکہ ساری دنیا میں خانہ کعبہ کے ماڈل بکتے ہیں لیکن آپ تو ایسے نہ کریں۔ ایک آدمی مدینے کی ریاست بنا رہا ہے۔ اب ریاست بنانے کے لیے اپنے عظیم دو سو مستریوں کی ٹیم کی دیہاڑیوں کا ٹائم کیسے دیکھے گا؟ خود بتائیں کیا اسکے لیے گھڑی نہیں چاہیے تھی؟
انہیں خدا سب کچھ دے بیٹھا تھا صرف اس گھڑی کی کمی تھی۔ اچھا چلیں یہ ہی بتا دیں کہ باجوہ صاحب کو ایکسٹینشن دینے کا وقت وہ کیسے دیکھتے اگر گھڑی نہ ہوتی اور لیٹ ہو جاتے تو؟ اچھا بیچی کیوں؟ یہی سوچ رہے ہیں نا آپ؟ بیچی اس لیے کہ مدینے کی ریاست بنی ہی نہیں جب بنی نہیں تو گھڑی کیا کرنی تھی۔ دوبارہ "گھڑی ساز" جانے وہ گھڑی آئے نہ آئے۔
بحرحال قصہ مختصر یہ کہ توشہ خانہ ایک ایسا حمام ہے جس میں سب ننگے ہیں۔ مگر اس میں"ننگ مننگے" وہ ہیں جو خود توشہ خانہ سے مستفید ہو کر دوسروں کو کیا اپنوں کو بھی طعنہ دیتے ہیں۔ یعنی سلمان شہباز بمقابلہ شاہد خاقان عباسی۔ کچھ نہ بن پڑے تو کہہ دیتے ہیں ہماری گاڑیاں، گھڑیاں، پائن ایپل، صراحیاں، چاکلیٹ، قالین سب دنیا داری ہے لیکن اسکی گھڑی تو مذہبی مسئلہ ہے۔ لگتا ہے شہباز شریف صاحب کے کان میں بھی کوئی قاسم سوری کہتا ہے کہ ذرا توشہ خانے کو اسلامی ٹچ دے دیں۔
پسِ تحریر! توشہ خانے پر ایک قانون پاس کیا جائے کہ آئیندہ کوئی حکمران توشہ خانے سے کوئی بھی چیز نہیں لے سکتا۔ یہ بازار میں بکے اور اسکی آمدنی سے کوئی بھی انسانی بہبود کا منصوبہ شروع کیا جائے۔