Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Soz

Soz

سوز

انکی داستان سن کے چشمِ تصور بھی نم ہوئی۔ اس نمی سے کاغذ کے افق پر منظرنامے کی عجیب دھنک سی ابھرتی ہے۔ جی کرتا ہے اسکے رنگ انکے قدموں میں بچھا دوں۔

عالمِ ارواح میں کوئی صبر منزل تھی۔ جہاں پر تین روحیں قیام پزیر تھیں۔ دو میاں بیوی ایک بیٹا۔ میاں بیوی کے وجود جب تخلیق کر دیے گئے اور ان میں روحیں پھونکنے کا "کُن"صادر ہوا۔ تو سرِ تسلیم خم۔۔ " فیکون"۔ بچے کی روح آسمان پر اکیلی رہ گئی۔ مگر یاد رہے کہ یہ صبر منزل تھی۔ یہ بچہ، یہ روح کوئی نادر شاہکار تھا۔

زمین پر انکا انتظار سات برس پر محیط تھا۔ امید پرستی کے عجب سات برس تھے یہ بھی۔ ہمارے ہاں سماج شادی کے بعد اولاد کے انتظار کو میاں بیوی کے لیے کٹہرا بنا دیتا ہے۔ بخت کی عدالت میں راہ چلتے خود ساختہ وکیل جرح کرتے ہیں۔ مگر بتایا ناں یہ کوئی اور روحیں تھیں۔ جانتی تھیں کہاں سے آئی ہیں۔

اور آخر اخلاصِ نیت کے ان پیکروں کی دعاؤں کی ڈالی پر قبولیت کی کونپل کھل اٹھی۔ امید و بیم کی خشک زمیں پر تاثیر کا ابر برسا۔ وہ بچہ اک قطبی ستارہ بن کر انکی آغوش کے سونے افق پر ٹمٹمانے لگا۔ بہار کا پیام لیے اک گلاب ہو کر انکی گود کے گلستاں میں کھلکھلانے لگا۔ ایک جگنو جسکی ٹمٹماہٹ سے حیات کا آنگن منور ہوا۔ فرقت کے گھاؤ پر ایک مجسم مرہم مسیحا۔ "بابو شکیب "زندگی اس محور کے گرد گھومنے لگی۔ عالمِ ارواح کی صبر منزل زمین پر منتقل ہو چکی تھی۔

اپنی شخصیت میں کوئی الوہی صفات لیے اسکا بچپن اپنے ہم عمروں اور ہم عصروں میں یکسر مختلف انداز سے شروع ہوا۔ اپنے خالق سے ربط جہاں سر میں ابھرتی صبح سے منسلک ہے وہاں اس نے ریاضت کی یہ سجدہ ریزی بالوں کی اندھیری شب میں ہی شروع کر دی۔ اسے شاید روحانی طور پر کہیں نہ کہیں یہ احساس تھا کہ اسے کم وقت میں زیادہ جینا ہے۔ مگر اسے یہ نہیں علم تھا اسے امر ہو جانا ہے۔

خدا نے انسانیت کو اپنا تعارف کروانے کے لیے کتاب اتاری۔ اسکا کتاب سے رشتہ ایسا تھا کہ سکول کی لائیبریری میں کاغذوں میں خدا کو ڈھونڈا کرتا۔ کہیں بزمِ ادب میں اپنے من میں چھپے سوز کے ساتھ اسے صدائیں دیتا۔ کہیں راہِ سلوک کا یہ مسافر نوعمری ہی میں خیر کی سبیل لگائے دیتا۔

برسوں کے بعد آنے والے اکلوتے دیوتا کا روپ دھار لیتے ہیں۔ لاڈ پیار کی ہوا زیادہ تیز چلے تو رویے کی رہگزر پر احساس کے دیے بجھ جاتے ہیں۔ مگر صرف ایک بات کانوں میں پڑی تو راقم حیران رہ گیا۔ سکول وغیرہ میں ملنے والے انعامات کی نمائش نہیں کرتا کہ جنکو نہیں ملے انکے من میں بھی یہ خواہش ہوگی سو انہیں تکلیف ہوگی۔۔ او خدایا۔۔ ایسوں کی تو ضرورت ہے دنیا کو۔۔ پر تیریاں تو جانڑیں۔

ان خصائل سے جوانی کے در پر دھیرے سے دستک دی اور سر جھکائے ہوئے داخل ہوگیا۔ اس در پہ سر جھکا کے داخل ہونے والے چلے گئے۔ یہ کوئی ان میں سے تھا کیا۔ صبر و حلم اور توکل کے پلو سے آج آنکھیں پونچھتی والدہ کھانوں کی فرمائش کرنے کا پوچھتیں، آگے سے راضی بہ رضا کا عجیب پیکر کھڑا پاتیں۔

بابا! آپکی شاعری کی کتاب اپنی پہلی تنخواہ سے میں چھپواؤں گا۔ "سوز " تخلص کرتے صبرِ ایوب سے روحانی فیض پاتے والد دیکھ کر مسکرا دیتے۔ کون جانتا تھا کس کی کتاب کون چھپوائے گا۔ ہاں بس وہی جانتا تھا جو جانکاری کروانے کے لیے ہی بے نیاز ہے۔ مگر خدایا انسان تو انسان ہیں۔ "لم یلد ولم یولد " تو، تو ہے۔ ہم تو نہیں۔

والد صاحب بیٹے کو سینے سے لگا لیتے۔ اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے فلک کی جانب دیکھا کرتے۔ اسے دعا دیتے اور اس دعا کی تاثیر کی چھاؤں میں بڑھاپے میں چارپائی بچھانے کے خواب دیکھتے پلکیں موند لیا کرتے۔

زندگی کان کنی کے محکمے میں بتا دی جنابِ سوز نے۔ معدنیات کے خزانے اندر ہوں تو انسان انہیں باہر کی کسی آلائش سے پراگندہ نہیں کرتا سو رزقِ حلال کمایا۔ باہر کے آڈٹ کرنے سے پہلے اندر کا آڈٹ کرنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ دفتر میں یہ بابو گھر میں انکا بابو۔۔ کہانی اتنی ہی تھی۔ مگر کہانی لکھنے والے نے اسے ایک من مرضی کا موڑ دینا تھا۔ جنابِ سوز کو ابھی زندگی کا ابدی سوز ملنا تھا۔

انجینئرنگ کے آخری سال بابا کی کتاب چھپوانے کا خواب آنکھوں میں سجائے سڑک کے حادثے میں وہ اس کے پاس جا پہنچا جسے وہ ڈھونڈتا تھا۔ شاید اِسکی تلاش اُسکو اتنی بھا گئی کہ اس نے اسے بلا لیا۔ آسمان پر صبر منزل پھر آباد ہوگئی تین میں سے ایک واپس آ گیا۔ مگر زمین کی صبر منزل پر کوئی قیامت تھی۔ اللہ اللہ۔۔

غامدی صاحب کے پوتے کی رحلت پر قلم اٹھایا تو بھائی جواد نے قدردانی کی، اس نظم کو اپنی دیوار پر ٹانکا تو وہاں سے اس در سے فیض طالبعلم کو ملنے لگا۔ خود کو خدا کی رضا کے سامنے سر بسجود ہی نہیں کیا۔ اسکی جانب سے ملنے والے اس دکھ کو جسطرح انہوں نے راہِ عمل میں ڈھالا۔۔ زمانہ اک طرف یہ دو ماں باپ اک طرف۔ انکا فون آتا تو سامنے چلتے پھرتے اپنے بیٹے کو دیکھ کر انکے دل کی کیفیت کا احساس ہوتا۔ اتنا زخمی دل گھائل دھڑکنوں کے ساتھ صبر و استقامت کی تسبیح کیسے کر لیتا ہے۔ سوچ کر آنکھیں برستیں۔ ایک نظم اسکے لیے انہوں نے کہی آنکھوں سے سیدھی روح میں اتر گئی۔

باپ کی کتاب بیٹے نے چھپوانی تھی، یہاں بخت کے جبر میں ترتیب بدلنی پڑی۔ " ذکر تیرا تیرے بعد "۔۔ ششدر و حیران کر دیا ان دو ماں باپ نے۔ کیا روح تھی۔ کیا انسان تھا۔ کیا شخصیت تھی۔ جب جنابِ سوز نے اسکی یاد کی یہ علمی شمع جلانے کا ارادہ کیا تو نہیں جانتے تھے کہ یہ ایک مشعل بننے جا رہی ہے۔ جس جس کو اس اللہ درویش کا تعارف تھا چاہے بالمشافہ چاہے میری طرح غائبانہ۔ سب نے اظہارِ خیال کرنا چاہا۔ اس مشعل میں اپنی نوکِ قلم کی لو بھی شامل کرنا چاہی اور بابو صاحب کے جانے کے بعد انکا ذکر ایسا ہوا کہ سینکڑوں مضامین اور نظمیں لکھی گئیں۔ دنیا کے مختلف ممالک سے مختلف طبقہ ہائے فکرکے مفکرین نے اس نوجوان کو خراجِ تحسین پیش کرنا اپنا اعزاز جانا۔ یہ ادنی طالبعلم بھی ان میں سے ایک ہے۔ جسکی لکھی ہوئی نظم اس شاہکار کتاب میں ہونا میرے لیے ایک اعزاز ہے۔ اہلِ سوز ہی اپنی وراثت کو یوں نادرِ روزگار انداز میں امر کر سکتے ہیں۔

پوچھتے ہوئے جھجھکتا، جھجھکتے ہوئے پوچھتا کہ کیسے کر لیتے ہیں یہ صبر یہ ضبط۔ جواب میں اس خدا کا ایسا سادگی اور پروقار انداز میں تعارف پیش کرتے کہ میرا دل بھر آتا۔

اسکے بعد ہندوستان کے مشہور ادیب و شاعر ڈاکٹر حافظ کرناٹکی نے ایک اور کتاب "ذکرِ شکیب " کے نام سے بابو جی کی یاد میں لکھ ڈالی۔ شاہکار انداز میں اس خاص روح کو خراج پیش کیا انہوں نے۔ میرے ممدوح جنابِ سوز نے جب مجھے بتایا کہ ایک تیسری کتاب یادِ شکیب کے نام سے زیرِ طباعت ہے تو جی کیا وہ سامنے ہوں اور انکے ہاتھ چوم لیے جائیں۔ بیٹے کے باپ کی کتاب چھپوانے کی خواہش کو انہوں نے اسکے جانے کے بعد حسرت نہیں بننے دیا۔ جیتے جی تو بہت سے کرتے ہونگے مگر بیٹے کی ناگہانی موت کے بعد۔ یہ ظرف، یہ ضبط، یہ استقامت، یہ صبر ناپید ہے۔ خدا قبول کرے۔

مگر اپنے اکلوتے بیٹے کی یاد منانے کی انمول داستان یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔ وہ جگہ جہاں وہ بیٹھ کر کتب بینی کرتا تھا اب وہاں اسکے نام کی ایک لائیبریری قائم ہو چکی۔ علم جسے "اقراء" کے خدا نے انسانیت کو اپنا تعارف کروانے کے لیے ذریعہ بنایا اب بابو کے نام سے ایک سبیل کی صورت طالب علموں کے لیے جاری ہوا۔

جس سکول میں اس بچے نے علم اور ہوش کی آنکھ کھولی تھی وہاں اب اسکے نام سے بہترین طالب علموں کے لیے "شکیب اکرم میموریل بیسٹ سٹوڈنٹ ایوارڈ" جاری ہو چکا۔ اسی نام کا ایک اور ایوارڈ بھی اسکے دوسرے سکول میں جاری ہو چکا۔ یہی نہیں جن اساتذہ نے اس ستارے کی اوائلی کرنوں کو تراشا ان کے لیے "شکیب اکرم میموریل بیسٹ ٹیچر ایوارڈ" بھی۔ علم و ادب کے دالدہ اس شاہکار نوجوان کی یاد میں جموں کشمیر میں تین نوجوان ادیبوں کے لیے "شکیب اکرم میموریل ایوارڈ " بھی شروع کیا جا چکا۔

تدریسی سرگرمیوں میں اپنے اعزازات دوسروں کا احساس کرتے ہوئے چھپانے کی ادا خدا کو اتنی بھا گئی کہ اس عظیم نوجوان کے نام سے "شکیب میموریل ایوارڈ " اب مستحق اور ہونہار بچوں کے لیے اس احساس کی یادگار ہے۔

راہِ سلوک کا وہ مسافر جو اپنے قرب و جوار والوں کے لیے ہمہ وقت خیر، رہنمائی اور فیض بانٹنے میں جتا رہتا آج آسمان پر بنی صبر منزل میں جا پہنچا لیکن زمین پر انکے آبائی علاقے "بہار شریف " میں اسکے نام سے "شکیب میموریل گائیڈنس سینٹر " قائم ہو چکا جو راہِ علم کے مسافروں کو بلا تفریقِ مذہب و ملت راستہ دکھائے گا۔

ایک پرائمری سکول "شکیب اکرم میموریل پرائمری سکول " انکے آبائی علاقے میں شروع ہونے جا رہا ہے جہاں علم کی راہ میں وسائل کی کمی کا شکار مسافروں کا ہاتھ تھام کر منزل کی پگڈنڈیوں پر چلایا جائے گا۔

ایک ویڈیو انہوں نے بھیجی، بچیاں بابو شکیب اکرم کی یاد میں ایک مترنم نظم پڑھ رہی تھیں۔ پیچھے بیٹھی ماں کی آنکھوں سے اپنے سپوت کی یادیں پلکوں سے موتیوں کی لڑیوں کی صورت رواں تھے اور ضبط کا ایک پہاڑ ساتھ والی کرسی پر براجمان تھا۔ جنابِ سوز۔

جوانی اور موت کا ساتھ فطرت کا سب سے بڑا تضاد ہے۔ سات برس کے انتظار کے بعد ملے اکلوتے بیٹے کی ناگہانی موت پر دکھ، درد، کرب، تکلیف، غم، الم، پریشانی، مصیبت اور سانحے جیسے تمام الفاظ بے مائیگی کا شکار دکھتے ہیں مگر ان دو ماں باپ نے جسطرح اپنے لختِ جگر اور نورِ نظر کو آسمان پر بھیج کر زمین پر اسکی یاد منانے کا اہتمام کیا، باخدا اپنی مثال آپ ہیں۔ دل کرتا ہے ایک ڈاکومینٹری بناؤں اور اسکا نام "سوز" رکھوں۔

اے خدا! خود کو دیکھوں تو تخاطب کا یارا نہیں، تجھکو دیکھوں تو تیری رحمت گویائی کا کاندھا تھپتھپاتی ہے۔ تیری کتاب کہتی ہے "تو صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے "۔ زمین پر اس آیت کے دو عملی سفیروں کا صبر قبول کر مالک۔ جنہوں نے اس آیت کو انسانی تناظر میں یوں پیش کیا کہ " وہ صبر کروانے والے کے ساتھ ہیں"۔

آسمان پر صبر منزل پر زمین سے آنے والے ان اعزازات کو ایک بچہ خوشی سے اچھلتے کودتے اہلِ بہشت کو دکھاتا ہوگا۔ پچھلے دنوں بات ہوئی تو دونوں عظیم لوگ کہنے لگے اب تو بس اس صبر منزل پر واپس پہنچنے کا انتظار ہے جب صبر منزل اپنے تینوں ازلی مکینوں سے دوبارہ آباد ہو جائے گی۔ عرض کیا رکیے، زمین پر انسانیت آپ جیسے انسانوں کے دم سے آباد ہے۔۔ سلام پیش کرتا ہوں۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan