Pakistan Ke Tamam Siyasi Karkuno Ke Naam Aik Khula Khat (2)
پاکستان کے تمام سیاسی کارکنوں کے نام ایک کھلا خط(2)
پچھلی دو دہائیوں کے سیاسی مشاہدے کا خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ آپ کا تعلق جس بھی سیاسی جماعت سے ہے ہم کارکنان اگر ایک بات طے کر لیں کسی کو دکھانے کی خاطر نہیں بلکہ اس خدا کی خاطر جسے ہم نے ایک دن ہر قول و فعل کا حساب دینا ہےکہ ہماری سیاسی سپورٹ اور وابستگی وہاں تک ہی ہو گی جہاں تک سچائی اور عدل و انصاف کے بنیادی اصولوں کی پیروی ہوگی وگرنہ ہم اپنی سیاست پر اپنی آخرت کو قربان نہیں کر سکتے۔
اگر سپورٹ جاری بھی رکھنی ہے تو کم ازکم اس معاملے پر تو نہ کی جائے جس پر ہمارا ضمیر اور دل گواہی دیتے ہوں کہ یہ ظلم اور خلافِ حق ہے اور اگر ہمیں ہمارا ضمیر ہی اس پر کوئی ملامت نہیں کرتا تو اور بھی فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔ پچھلے ایک مہینے میں ہر چیز 180 ڈگری پر تبدیل ہوئی۔ جو حکومت تھی اپوزیشن بن گئی جو اپوزیشن تھی وہ حاکمِ وقت۔ ایک پیج کا بیانیہ اچانک بدل کر دوسری طرف کا ایک پیج بن گیا۔
فوج پر جائز اور تعمیری تنقید برائے اصلاح کو بھی ففتھ جنریشن وار فئیر کے خلاف سازش قرار دیتے انصافی اچانک جنرل باجوہ صاحب کے نام کے ٹرینڈز چلانے لگے۔ اور باجوہ صاحب کا نام لے کر تنقید کرنے والی نون لیگ کے لوگ اچانک فوج کے "نیوٹرل" ہو جانے پر بغلیں بجاتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کو اپنے بیانیے کے لیے استعمال کرنے لگے۔ ڈالر کے ریٹ اور مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دینے کی آوازیں یکسر آپس میں تبدیل ہو گئیں۔
سپریم کورٹ سے نواز شریف صاحب کی نااہلی اور خان صاحب کے صادق اور امین ہونے سے شروع ہونے والا مسلم لیگ نون کا عدلیہ پر سوال اٹھانے اورپی ٹی آئی کا ان کے صدقے واری جانے کا بیانیہ آپس میں عین متضاد ہو گیا۔ یوں لگتا ہے جیسے ایک ڈرامے میں کرداروں کو ایک دوسرے کے اسکرپٹ پکڑا دیے گئے ہوں۔ ہیرو ولن بن گیا ولن ہیرو۔ جانتے ہیں ایسا کیوں ہے؟ کیوں کہ اس کی وجہ ہم ہیں ہم۔ ہم جنہیں سچی گواہی دینے کا حکم ہے چاہے ہمارے ماں باپ کے خلاف جاتی ہو۔
ہم جنہیں نفرت اور محبت کی انتہا پر انصاف بھی کرنے کا حکم ہے۔ ہم جنہیں برائی دیکھ کر اسے ہاتھ سے نہ روک پانے زبان سے منع کرنے، نہ کر سکنے کے بعد آخری درجہِ ایمان کے طور پر دل میں برا سمجھنے کا حکم ہے۔ ہم ہیں اس کی وجہ۔ ہم آپ کا تعلق جس بھی سیاسی جماعت سے ہے آپ کو مبارک ہو لیکن ہم سماجی انتشار اور خلفشار کی اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہم اپنے اقتداری حکومتی اور سیاسی مفادات کی خاطر ایک دوسرے کے کبھی جانی دشمن بننے اور کبھی ایک دوسرے پر جان وارنے والے ان سیاسی زعما پر مزید یہ نہیں چھوڑ سکتے۔
آئیں کہ اب بحیثیت کارکنان وہ شعور پیدا کریں جو آگے چل کر ان لوگوں کو مجبور کرے کہ یہ ہمیں ہر 180 ڈگری زاویے پر بدلتے ہوئے موقف پر تالیاں بجاتے اور نعرے لگاتے اندھے مقلدین سمجھنے کی بجائے جیتے جاگتے باشعور سیاسی کارکنان سمجھیں جن کا نظریہ یہ ہو کہ اب ہم پاکستان کے تمام سیاسی کارکنان۔
* سیاسی اختلاف کو ذاتی باہمی احترام کی تنسیخ کا ذریعہ نہیں بنائیں گے۔
* نفرت انگیز گفتگو نہ کریں گے نہ اس پر تالیاں بجائیں گے اور نعرے لگائیں گے۔ بلکہ سیاست میں در آنے والی نفرت کو ختم کرنے اور رواداری، مروت اور بھائی چارے کا کلچر قائم کرنے کے لیے اپنی اپنی سطح پر کوشش کریں گے۔
* سیاست میں گالی گلوچ کی مکمل حوصلہ شکنی کریں گے۔
* مزہب کارڈ، فرقہ کارڈ، لسانیت کارڈ یا کوئی بھی اور عصبیت کارڈ کے استعمال کی اجازت نہیں دینگے۔
* دوسری جماعت کے کارکنان اور لیڈران کو عزت سے پکاریں گے نام بگاڑنا، نقلیں اتارنا اور اس طرح کے دوسرے غیر اخلاقی کاموں پر قہقہے اور تالیاں بجانے اور خود بھی ایسا کرنے کی بجائے بصد احترام اپنی اپنی قیادت کو کسی بھی طرح اس کے خلاف پیغام پہنچائیں گے۔
* ہم کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیں گے اور محض دوسروں پر الزام تراشی کلچر کو اپنے ملک کی سیاست سے ختم کریں گے۔
* اپنی اپنی جماعتوں میں کارکنان کو عزت دیے جانے اور اہل لوگوں کو اوپر لانے کے لیے اپنی آواز بلند کریں گے اور جمہوریت کو ملک میں لانے کے ساتھ اپنی اپنی جماعتوں میں لانے کی بھی سرتوڑ کوشش کریں گے۔ جو بد قسمتی سے کسی مین سٹریم سیاسی جماعت میں نہیں پائی جاتی۔ ہر جگہ جماعت کی بھینس اسی کی ہے جس کے پاس دولت، اختیار اور وراثت کی لاٹھی ہے۔
* سوشل میڈیا پر بھی تعمیری سیاسی مہم چلائیں گے اور محض دوسروں کو نیچا دکھانے کے جماعتوں کے پروپیگینڈا کا حصہ نہیں بنیں گے۔
عزیز رفقاء۔ پولیٹیکل سائینس اور سماجیات کا میں تو ایک ادنی طالب علم ہوں لیکن ماہرین اور ان کی سٹڈیز یہ بتاتی ہیں جو کہ خاص طور پر پچھلی ایک دہائی سے ثابت شدہ حقائق بن کر سامنے آئے ہیں کہ گلے کی رگیں پھلا کر کیے گئے بلند آہنگ دعوے ایک ایسی ہیجان خیزی کو جنم دیتے ہیں جس سے انفرادی سطح پر تو لوگوں کو سیاسی فوائد حاصل ہوتے ہیں لیکن ملک و قوم کا سماجی، اخلاقی، معاشی اور سیاسی نقصان ہی ہوتا ہے۔
ہمارے سامنے کئی قومیں ہیجان کی بجائے ایک ارتقائی سفر سے مسلسل محنت اور جدوجہد کرتے ہوئے ترقی کی راہ پر گامزن ہوئیں اور یاد رہے کہ کوئی بھی ترقی اتحاد و اتفاق سے کی گئی مخلصانہ جدوجہد کے بنا ممکن نہیں اور نفاق، ہیجان انگیزی، سیاسی بد امنی وغیرہ قومی اور سماجی ترقی کو الٹا ایک معکوس سفر پر گامزن کر دیتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمارے لیڈران یہ بات سمجھ کر ہمیں سمجھائیں لیکن کیونکہ یہاں ہر کام الٹا ہے، ہم کارکنان کو یہ بات سمجھ کر اپنے اکابرین کو سمجھانی پڑے گی۔
اور اس کے لیے آج سے موزوں کوئی وقت نہیں جب پیارا پاکستان شدید خطرناک صورتحال سے دوچار ہے۔ ہماری یہ کاوش ہمارے بچوں کو ایک بہتر پاکستان دے سکتی ہے جہاں ہمارے بچے سیاسی کارکن بنتے ہوئے فخر کریں وگرنہ موجودہ صورتحال میں آپ کے اس کارکن بھائی کو سیاست کا کوئی مستقبل دکھائی دیتا ہے نہ سیاسی کارکنوں کا۔ سلامتی اور امان۔
پاکستان پائیندہ باد
سیاسی کارکنان زندہ باد۔