Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Pakistan Ke Tamam Siyasi Karkuno Ke Naam Aik Khula Khat (1)

Pakistan Ke Tamam Siyasi Karkuno Ke Naam Aik Khula Khat (1)

پاکستان کے تمام سیاسی کارکنوں کے نام ایک کھلا خط(1)

میرے پیارے سیاسی کارکن بھائی / بہن۔

اسلام علیکم

سیاسی افق پر جو کچھ پچھلے ایک مہینے کے اندر اندر ہوا وہ ایک بہت بڑا سبق بن کر ہم سیاسی کارکنوں کے سامنے نوشتہِ دیوار ہے جسے ظاہر ہے پڑھنا نہ پڑھنا ہر کسی کا اختیار ہے۔ لیکن ہم سب جنابِ آدمؑ کی اولاد ہیں اور آدمی اپنی سرشت میں ان کی اس دعا سے جڑا ہوا ہے جو کہ انسانی ارتقائی نظام میں کلیدی حیثیت کی حامل ہے کہ "ربنا ظلمنا انفسنا" تسلیم کہ ہم سے غلطی ہوئی اے مالک اور ہم اصلاحِ احوال کے لیے تیار ہیں۔ یہی بنی نوع انسان کی میراث ہے۔

میرے دوستو اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے نا صرف سیاسی نقطہِ نظر کے حوالے سے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اس اندازِ فکر سے نکل آئیں جو اکثر تیسری دنیا کے لوگوں کے ارتقاء اور ترقی میں رکاوٹ ہے کہ کسی بھی چیز کے بارے ہمارا طرزِ فکرو عمل ایسا حتمی ہے کہ اس میں بہتری کی گنجائش بھی ممکن نہیں ہمارا زاویہ نگاہ بھی ایسا کامل ہے کہ اسے تبدیل کیا جانا بھی ممکن نہیں۔ ہم اسی ایک کٹھورپن کی وجہ سے فکری استعداد کو بڑھانے والی سائنسی و سماجی تحقیقات اور سٹڈیز سے بھی محروم رہتے ہیں اور نتیجتاً سماج کے مختلف انڈیکیٹرز کی طرح سیاست بھی ہمارے لیے نسل در نسل ایک دائرے کا سفر ہے۔

پیارے ساتھیو۔ آپ ہی کی طرح کا ایک عام سیاسی کارکن ہوں اور ایک کارکن کی حیثیت سے تمام افعال سرانجام دینے کے بعد اپنے مشاہدات آپ کے سامنے اس امید پر رکھنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے جیسے ایک کارکن کی بات پر غور فرمائیں گے۔

پرویز مشرف صاحب کے ڈبل مارشل لادور کے اختتامی سالوں میں میاں نواز شریف صاحب نے آل پارٹیز کانفرنس لندن میں بلائی اور اس کے اعلامیہ میں یہ اعلان کیا کہ جن لوگوں نے آمر کو آئین توڑنے کے لیے سیاسی جواز فراہم کیا اور ہمیں ہمارے والد کے جنازے کو کاندھا تک فراہم نہیں کرنے دیا سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکل آئے انہیں پارٹی میں نہیں لیں گے اور پھر وقت نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے ابھرنے کے وقت میاں صاحب نے ان تمام لوگوں کو اپنی پارٹی میں واپس لے لیا۔

شہباز شریف صاحب زرداری صاحب کا الیکشن کیمپین کے دوران پیٹ پھاڑتے رہے اور حکومت میں آکر اسے جوشِ خطابت قرار دیتے رہے۔ 2008 سے شروع ہونے والے پیپلزپارٹی کے دور میں ایک وقت وہ بھی آیا جب میاں نواز شریف میمو گیٹ میں زرداری صاحب ہر غداری کا مقدمہ اور آرٹیکل 6 لگانے کے لیے خود کالاکوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

اسی طرح جب وقت بدلہ تو 2013 میں نون لیگ کی حکومت کے تین سال بعد پانامہ کیس میں عمران خان صاحب کو سارا کریڈیٹ لیتا دیکھ کر زرداری صاحب نے میاں صاحب پر سنگین ترین الزام لگاتے ہوئے کہا کہ مولوی نواز شریف پاکستانی پنجاب کو بھارتی پنجاب میں ضم کرنا چاہتا ہے اگر اسے اب معاف کر دیا تو اللہ بھی ہمیں معاف نہیں کرے گا۔

اتنی دیر میں 2013 میں دوتہائی اکثریت لکھ کر دیتے خان صاحب 30 سیٹوں اور 126 دن کے دھرنے کے بعد اقتدار کے اصلی "دربارِ عالیہ" تک پہنچ چکے تھے۔ اور جن کے خلاف پارٹی بنائی تھی انہی ٹانڈوں کو جوڑ کر بنی ہوئی اقتدار تلک پہنچانے والی سیڑھی پر چڑھتے چڑھتے 2018 میں آخر کار وزیراعظم بن چکے تھے۔

خان صاحب کے بقول پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو پرویز الہی کی ق لیگ، پی ٹی آئی کی زہرہ آپا سمیت کراچی کے بے شمار لوگوں کی قاتل ایم کیو ایم اور مینگل صاحب کی جماعت کو ساتھ ملا کر ایک کمزور سی حلیف حکومت کے سربراہ وزیراعظم پاکستان کو اب ساڑھے تین سال بعد ایک تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے نکالنے والے اور اس کے نتیجے میں حکومت بنانے والے لوگ کوئی اور نہیں وہی ہیں جو ماضی میں ایک دوسرے کو کیا کیا کہتے رہے وہ لکھ چکا اور مستقبل قریب میں پھر یہی ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوں گے۔

ان سارے ادوار میں جے یو آئی ف اور ایم کیو ایم جیتنے والے کے ساتھ مل کر ہارنے والے کے خلاف اس کی جوشِ خطابت کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ اس تمام روداد میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، جمیعت علماءِ اسلام اور متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان ہر قول و فعل کے 180 ڈگری کے تضاد پر سچائی کا موقف اپنانے کی بجائے سیاسی عصبیت کو ترجیح دیتے ہوئے اسی موقف کے حق میں نعرے لگائے جو کہ اکابرین نے ان پر مسلط کیا اور جس میں ان کا سیاسی مفاد تھا۔

آج کل خان صاحب اپنی وزارت عظمی کے دوران کیے گئے مختلف اقدامات کو "بوجوہ" غلطیاں کہہ کر جہاں نیوٹرل ہو جانے والی اقتدار کی اصلی آماجگاہ کو غوروفکر کا پیغام دے رہے ہیں وہیں انصافی دوستوں کے لیے اس میں ایک بہت بڑا پیغام پوشیدہ ہے۔ خان صاحب نے کہا بزدرار، فائز عیسی ریفرنس کیس، پاپا جونز پیزا کیس، پیکا ایکٹ اور ڈالر کا ریٹ غلطی تھی۔ افسوسناک ترین بات یہ ہے کہ یہ اقدامات کرتے ہوئے خان صاحب نے ان تمام اقدامات کی بھرپور وکالت کی بلکہ اپنے سوشل میڈیا سے ان کے حق میں پراپیگینڈا کیمپین بھی کروائی۔

خان صاحب تو آج سیاسی ضرورت کے تحت اعتراف کر رہے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے کارکنان صرف ایک کیس پر غور کر کے طالبِ علم کا پیغام سمجھ سکتے ہیں اور وہ یہ کہ جسٹس فائز عیسی سپریم کورٹ کے انتہائی معتبر جج ہیں جنہوں نے جب سے فیض آباد دھرنے کا فیصلہ دیا تب سے زیرِ عتاب آ گئے۔ انصاف کی حکومت نے نا انصافی کی تو انتہا کی ہی ان کے خلاف جس پر سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا لیکن وہ دوست جو خود کو انصافی کہتے ہوئے اپنی والز اور پیجز سے جسٹس فائز عیسی صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ کی مسلسل کردار کشی کرتے رہے۔

آج ان کے لیے نا صرف شرمندگی کا مقام ہے بلکہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم ازکم اتنا ہی کہہ دیں جتنا خان صاحب نے کہا جو آدم کی اولاد ہوتے ہوئے آدمی کی سرشت سے جڑی دعا ہے کہ "ربنا ظلمنا انفسنا"۔

Check Also

Aalmi Siasat 2024, Tanz o Mazah Ko Roshni Mein

By Muhammad Salahuddin