Pakistan, Allah Ka Raaz Aur Lazawal Noor
پاکستان، اللہ کا راز اور لازوال نور
بچپن میں سنا تھا کہ واصف علی واصف صاحب کا قول ہے کہ "پاکستان اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے اور یہ کہ پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں"۔ تب تک پاکستان کو بنے آدھی صدی بھی نہیں ہوئی تھی۔ قائداعظم اور علامہ اقبال تھے نہیں اور میں چھوٹا تھا اس لیے مجھے یقین ہوگیا کہ میرے بڑے ہونے تک خدا کا یہ راز افشا ہو چکا ہوگا اور نور اپنے پورے عروج پر پہنچ جائے گا۔ اور شاید میں ہی اس کام میں اسکی مدد کروں۔
خدا کے اس راز کے مبینہ طور پر کاشف و دعویٰ دار جنابِ حکیم الامت علامہ اقبال بھی وفات پا چکے تھے۔ ویسے کسی نے سوچ کر یہ خطاب شاعرِ مشرق کو دیا کیونکہ واقعی پاکستان بننے کے بعد حکیم الامت کی کمی کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے ملک کے حکیموں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ وطنِ عزیز کی دیواروں پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ واقعی اس امت کو ایک حکیم کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ حکیم الامت بھی نوجوانوں کے لیے شاعری کرتے تھے اور حکیم بھی نوجوانوں کے لیے ہی حکمت کرتے نظر آتے ہیں۔
علامہ اقبال وفات پا چکے تھے۔ انکے بیٹے جاوید اقبال مرحوم انکی نثر اور شاعری میں بنیادی نظریات کے فرق کا راز پا چکے تھے۔ قائداعظم مرتے وقت یہ راز پا چکے تھے کہ کیونکہ مسلمان کا ایمان ہے کہ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیے اللہ کے فیصلوں میں ایمبولینس صحیح ہو یا خراب کیا فرق پڑتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے بانی کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کا یہ راز کہ وہ دشمن ملک کی ایجنٹ ہیں یہ راز ایوب خان پا چکے تھے۔
ویسے تب تک یحییٰ خان اور بھٹو صاحب بقول اوریا مقبول جان کے خدا کے اس راز پاکستان کو آدھا کرنے کا راز پا چکے تھے۔ تاکہ مغربی پاکستان یکسوئی سے بھارت سے لڑ سکے۔ بنگال کیونکہ بنگلہ دیش بن گیا اور اس راز کا حصہ نہیں رہا اس لیے وہ خدا کی رازداری کے اس کھیل سے نکل کر ترقی کے راستے پر گامزن ہو چکا ہے اور مغربی پاکستان یکسوئی سے دشمن کے بچوں کو پڑھانے کے لیے پرعزم ہے ایسے میں اپنے کروڑوں بچے سکول سے باہر کا طعنہ مت دیجیے گا کیونکہ ایثار مسلمانوں پر ختم ہے۔
اسکے بعد ضیاءالحق یہ راز پا چکے تھے کہ خطے کے اندر کم از کم اگلی صدی کے لیے فیصلہ کن جنگ کے ہنگام ایک "مردِ مومن مردِ حق" کا اللہ کے راز اور نور پاکستان کا حکمران ہونا چاہیے اور وہ اس وقت انکے علاوہ کون ہو سکتا تھا کیونکہ نعرے کا وزن کسی اور نام پر فٹ نہیں بیٹھتا تھا۔ آپ کو یقین نہیں آئے تو نعرہ لگا کر دیکھ لیں"مردِ مومن مردِ حق۔ ذوالفقار علی بھٹو ذوالفقار علی بھٹو۔ سنائیں؟
اسکے بعد اللہ کے راز پاکستان کے حقیقی حکمرانی کی ڈرامہ سیریل کے درمیان چھوٹے چھوٹے اشتہار جمہوریت نام کی "خلافِ اسلام" شے کے آتے رہے۔ یہ وہ وقت تھا جب راقم الحروف پروان چڑھ رہا تھا پاکستان نامی اللہ کے راز اور نور کے منکشف ہونے کا۔
افغان وار کے اگلے مرحلے میں امریکہ کو دنیا میں واحد سپر پاور بنانے والے اللہ کے راز کو "جہاد فی سبیلِ امریکہ" کا انعام دینے کے لیے امریکہ نے 9/11 کے بعد افغانستان پر دھاوا بول دیا۔ اسکے دوران کوئی اللہ کے اس راز کا رازدان ہی حکمران ہونا چاہیے تھا سو جنرل مشرف آگے آئے بلکہ کافی آگے آئے اور انہوں نے بتایا کہ اب تک جو ہمیں خدا کا راز پتا چلا تھا وہ سارا غلط تھا اور اصلی راز "اینلائیٹن موڈریشن" والا پاکستان ہے۔ تو بس خدا کا راز تبدیل۔
اچھا اب مسئلہ یہ بنا کہ ضیاءالحق والے مردِ مومن مشرف کے دہشتگرد بن گئے اور خدا کے نور اور راز والا ملک بارود سے لرز اٹھا۔ بنیادیں تو اسکی تھی ہی نہیں جو ہلتیں بس اسے یہاں بستی غیر ضروری مخلوق کے خون سے نہلا دیا گیا۔ اسکے بعد پھر خدا کا ملک پہلے زرداری صاحب، پھر نواز شریف صاحب پھر عمران خان صاحب اور پھر شہباز شریف صاحب کے ہاتھ آیا۔ اس دوران منبرِ رسولؐ سے لے کر ٹی وی چینلز تک اور وہاں ڈیجیٹل سکرینوں تک طرح طرح کی بولیوں میں رازونور کا چورن بکتے، دیکھتے، سنتے تھک گیا۔
کل ایک ویڈیو دیکھی تو گویا صبر کا پیمانہ ہی لبریز ہوگیا۔ پہلے ہنسی آئی پھر رونا۔ ایک مذہبی ہاکر یہ کہہ رہا تھا کہ پاکستان کا مطلب مدینہِ طیبہ بنتا ہے، پاکستان محمد اور علی کے سائے میں بنا کیونکہ جناح صاحب کا نام محمد علی جناح تھا۔ پاکستان کا ڈائلنگ کوڈ 92 ہے جو کہ نامِ محمد کا مخفف ہے اور جب قائداعظم چھوڑ کر چلے گئے تھے تو انہیں رسول اللہ ﷺ نے آ کر پاکستان بنانے کے لیے مائل و قائل کیا تھا۔
اب آپ کا بھائی اتنا ہوگیا تھا جتنا اس رازونور کی کہانی شروع کرتے وقت پاکستان تھا۔ اب حیات اپنے بامِ عروج پر پہنچ کر وہاں سے تنزلی کا سفر شروع کر چکی ہے۔ اس ملک میں اندھیروں سے نبرد آزما نور کی منتظر آنکھیں اپنا نور کھونے لگیں۔ وہ نور اب آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے سر کے بالوں میں نظر آتا ہے۔
جو راز اپنی طبعی عمر کا زائد از نصف گزار کر مجھ پر آشکار ہوا وہ بیان کرنے سے پہلے میں چند سوالات سے ذہنوں پر دستک دینے کی اجازت چاہتا ہوں۔
1۔ خدا خود رب العالمین کہتا ہے تو ہم اس کو کسطرح رب الباکستان کہنے پر مصر ہیں؟
2۔ چلیں اگر خدا رب الباکستان ہے تو خدا کے ملک کا مجوزہ و متفقہ جغرافیہ تبدیل کیسے ہوگیا؟
3۔ اگر قائداعظم کو بقول شہنشاہِ اوور ایکٹنگ جناب سلمان مصباحی صاحب کے جب رسول اللہ ﷺ نے خود انگریزی میں کہا Don't worry Jinnah I am with you تو قائداعظم کو اس تبدیل شدہ جغرافیہ کو تسلیم کرنے سے انکار پر جواباً یہ کیوں کہنا پڑا کہ "میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں"؟
4۔ چلیں بن گیا خدا، محمدؐ اور علیؓ کے سائے میں یہ ملک، تو جنکے ساتھ خدا اور اسکا رسولؐ تھے انہیں خراب ایمبولینس دینے سے بہن کو غدار قرار دینے تک یہاں کی اشرافیہ و مقتدرہ کیسے غالب آ گئی؟
5۔ جب یہ خدا کا ملک تھا تو آغاز ہی سے اپنی راہ سے ہٹ کر آج بے راہ رو مسافر کی طرح بے منزل کیوں ہے؟
6۔ خدا کا یہ رازونور بنیادی انسانی ضروریات سے محروم کیوں ہے؟
7۔ رازق و رزاق خدا کے ملک میں بھوک کیوں ہے۔ آٹے کے ٹرکوں کے پیچھے بھاگنے سے لے کر پیروں کے نیچے آ کے مرنے والے خدا کے ملک کے باسی مجبور کیوں ہیں؟
8۔ یہ اگر نور ہے جسکو زوال نہیں تو انصاف، انسانی حقوق، قانونی عملداری، تعلیم، صحت وغیرہ شدید زوال پذیر ملکوں کی فہرستوں میں پہلے نمبروں پر کیوں ہیں؟
9۔ خدا نے ہمیں جن سے آزادی دلوائی آج خدا کا ملک انہی سے قرضہ لے لے کر کیوں چلتا ہے؟
10۔ خدا کے ملک سے ہم ان ممالک کے ویزے کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں جو خدا کے ملک نہیں اور کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں کہ جس ملک کو خدا نے بنایا اور خدا چلا رہا ہے وہ ان ملکوں سے کہیں ابتر چل رہا ہے جنہیں خدا کے عام بندے چلا رہے ہیں۔
11۔ اپنے آس پاس نظر دوڑائیے آپکو اگر کسی ایک جگہ بھی زوال نظر نہ آئے تو مجھے بتائیے کہ اگر یہ نور ہے جسکو زوال نہیں تو، اور زوال کیا ہوتا ہے بھائی۔
12۔ ویسے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس ملک کو خدا چلا رہا ہے دو یا تین جملوں کے بعد یہ بھی کہتے ہیں کہ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
13۔ جان و ایمان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ اللہ نے جن سے یہ ملک بنوایا ان سے اسکی قیادت لے کر بندوق بردار اشرافیہ و مقتدرہ کو کیوں تھما دی جنہوں نے ہمیں اس حال میں پہچا دیا کہ جو نہ کوئی راز ہے نہ نور؟
جو راز اس ادنیٰ طالبعلم پر زندگی کی چار دہائیوں کے بعد منکشف ہوا وہ یہ ہے کہ پاکستان بننے سے لے کر آج اس حال کو پہنچنے تک یہ اس قوم کی خدا کے دین کے بنیادی فلسفے کی جذباتی و غلط تفہیم و تشریح ہے جسکا ہر "اسلامی ٹچ" کا شوقین فائدہ اٹھاتا ہے اور ہمیں استعمال کرتا ہے۔
حل ایک ہے "افلا یتدبرون" اور بس۔ تقدیس کی جذباتی اور بے بنیاد تھیوریوں سے نکل کر پاکستان کو ایک جدید اور فلاحی انسانی معاشرہ بنانے کے لیے ایک راستے کا تعین اور اس پر 22 کروڑ لوگوں میں ہر ایک کی اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی۔ یہی راز ہے اور یہی نور۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ کہیں ہم خدا کے رب العالمین اور جنابِ محمد رسول اللہ ﷺکے رحمت للعالمین ہونے کے فلسفے کی غلط تفہیم کی سزا تو نہیں پا رہے؟ کہ یہ سزا بذات خود اس بات کی نفی کرتی ہے پاکستان کو زوال نہیں۔ یہ زوال نہیں ہے تو اور کیا ہے میرے رازدان۔