Murda Maa Ki Zinda Kokh
مردہ ماں کی زندہ کوکھ
مدینہ اولیاء یعنی اللہ کے ولیوں کے شہر میں ماہِ محرم جاری ہے۔ اسلامی تاریخ میں ایک ظلم کی یادگار ہے۔ ہر آنکھ اشکبار ہے، ہر دل سوگوار ہے۔ ہر روح بے قرار ہے۔ ایک سوگ کی بازگشت۔ مقدس ماؤں سے معظم بچے چھین لئے گئے۔ مکرم اولادوں سے مقدس باپ۔ خاندانِ رسول ﷺ پر ظلم و جبر انکے اپنے ہی امتیوں کی جانب سے۔ الامان الحفیظ
ملتان میں ایک خاندان ہے۔ یہ باقی مسلمانوں سے زیادہ عقیدت کا دعویٰ رکھتا ہے خاندانِ رسول ﷺ سے۔ ان کے مسلک میں اس سوگ کے اظہاریے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ آپ اس خاندان کے نام پڑھتے جائیں گے تو آپ کو میری بات سمجھ میں آتی جائے گی۔ اس خاندان کے تین بچے سوگ میں ہیں۔ ایک بچے کی عمر تین سال ہے دوسرے کی عمر نو ماہ ہے۔ تیسرے بچے کا سوگ سنیں گے تو دل سینے میں درگور ہوتا محسوس ہوگا۔ تیسرا اتنا غمزدہ تھا کہ کیا بتاؤں ماں کے بطن میں ہی فوت ہوگیا۔ انکے اوپر ایک اپنا کربلا ٹوٹ پڑا۔ یہ جیتے جی مر گئے۔ انکی ماں چلی گئی۔
انکی ماں سیدہ ثانیہ زہرا تھی۔ جہاں سے بیس سال پہلے آئی تھی وہیں چلی گئی۔ جی ہاں صرف بیس سال پہلے۔ خاوند سید علی رضا کہتا ہے خودکشی کی، باپ سید عباس شاہ کہتا ہے قتل کی گئی۔ ان تمام ناموں پر سابقوں اور لاحقوں سمیت غور فرمائیے گا۔ یہ نام رکھنے والوں نے عمر بھر کی عقیدت کا سفیر بنایا ہوگا انہیں۔
تفصیلات کے مطابق اولیاء اللہ کے شہر ملتان میں سیدہ ثانیہ زہرا کا نکاح سولہ سال کی عمر میں سید علی رضا کے ساتھ ہوا۔ اسکا خاوند اس پر تشدد کرتا تھا اور وہ کئی بار روٹھ کر میکے آ گئی۔ اس پر باپ کی جائیداد میں سے حصہ مانگنے کا جبر بھی کیا جاتا جس میں ناکامی پر اسے اور زدوکوب کیا جاتا تھا۔ یہاں تلک کہ اس نے ایک بار باقاعدہ خلع کے لیے مقدمہ بھی دائر کیا جسے بعد میں"صلح" ہونے پر واپس لے لیا گیا اور اس محرم میں تین سال کا ایک بچہ، نو ماہ کا دوسرا اور چند ماہ کا تیسرا بچہ پیٹ میں لے کر وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئی اور یوں خاندانِ رسول ﷺ کے بچوں کے ساتھ ان بچوں کا غم بھی سانجھا ہوگیا۔ اس سے بڑھ کر کوئی مسلمان اہلِ بیت سے اظہارِ یکجہتی کیا کرے۔
پولیس کے مطابق مشتبہ انداز میں پنکھے سے جھولتی لڑکی کی لاش کو دیکھ کر ماں باپ سے ایف آئی آر کروانے کا کہا لیکن باکمال وضاحت دی باپ نے۔۔ محرم کی مصروفیت کی وجہ سے کرائم سین پر نہیں جا سکا۔ اس لیے پہلے ایف آئی آر یا پوسٹ مارٹم نہیں کروا سکا۔ اندازہ لگائیے یہ ایک انسانی زندگی جس سے تین مزید زندگیاں نتھی ہیں یہ اسکی وقعت ہے۔ یہ ایک باپ کے لیے ایک بیٹی کی قدرو منزلت ہے کہ اسکا وہ داماد جو اسے مارتا پیٹتا رہتا تھا اسکی بیٹی کو جائیداد میں حصہ نہ مانگنے پر چھوٹے چھوٹے بچوں کے سامنے مارپیٹ کر میکے بھیج دیتا تھا اور اس نے ایک بار خلع کی درخواست بھی دے رکھی تھی اس بیٹی کی مشکوک ترین خودکشی کی اطلاع پر باپ اپنی مسلکی مصروفیات کی وجہ سے کرائم سین پر نہیں جا سکا اور دو انسانوں کو یونہی دفن کر دیا گیا۔ اللہ اللہ خیر صلا اور جب سوشل میڈیا پر تصویر وائرل ہوئی تو باپ نے مقدمہ درج کروایا۔ اب کہہ رہا ہے کہ بیٹی کی زبان کٹھی ہوئی تھی جسم پر تشدد کے نشان تھے۔ اندازہ لگائیے آپ۔ اگر سوشل میڈیا پر تصویر وائرل نہ ہوتی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سر نہ اٹھاتیں اور حکومت کے کان پر جوں نہ رینگتی تو دوہرے قتل کی اس واردات کا کیا بنتا۔
خاوند سید علی رضا نے گرفتار ہوتے ہوئے بتایا کہ ثانیہ اسکے بچوں کی ماں تھی وہ اسے قتل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ صحیح بات ہے اس آدمی نے اس خاتون کو اتنا خوش رکھا ہوا تھا کہ ایک بچہ تین سال کا، دوسرا نو ماہ کا اور تیسرا پیٹ میں لے کر وہ خودکشی کر گئی۔
اس "غیر" انسانی سماج میں انسانی زندگی کی وقعت کا عالم دیکھیے۔ ایک عورت جسکی اپنی عزتِ نفس سے لے کر سلامتی خطرے میں تھی۔ وہ اپنی زندگی کی بھیک بھی مانگتی رہی اور اپنے قاتل کے ذریعے نئی زندگیوں کو جنم بھی دیتی رہی۔ شرم و غیرت سے عاری اسکا خاوند اسکے وجود کا دشمن بھی تھا اس پر ظلم بھی کرتا تھا اور اس وجود سے بچے بھی پیدا کرتا جا رہا تھا۔ یہاں تلک کہ جاتے ہوئے وہ عورت ایک زندگی اپنے بطن میں ساتھ لے کر روانہ ہوئی۔
اس کیس میں بھی کچھ دنوں تک "صلح" ہو جائے گی۔ ریاستی قانون اس صلح کی دلالی میں اپنا حصہ وصول کرکے ایوانوں میں لوٹ جائے گا۔ یہ بچ جانے والے بچے اپنی محرومیوں کو قسمت سمجھ کر قبول کر لیں گے۔ کیونکہ یہاں انسانی بے عملی کا خلا توفیق کی جھوٹی دعاؤں اور قسمت پر الزام دھر کر پُر کیا جاتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں گھر گھر میں کربلا بپا ہے۔ ہم اپنے حال کے کربلاؤں کو چھوڑ کر ماضی کے کربلا پر آنسو بہاتے ہیں۔ ہم اپنی بیٹیوں کو "یزیدیت" کے سامنے چارہ بنا کر مقدس بیٹیوں کے دربارِ یزید میں حاضری کے قصوں پر ماتم کرتے ہیں۔ ہمارے کل کے ماتموں میں آج کی سسکیاں دب جاتی ہیں۔ ہم سب منافکستان کے منافق ہیں۔
پاکستانی قانون اور عدالتی نظام کے تحت حسبِ معمول ثانیہ کا والد یہ ثابت نہیں کر سکے گا کہ وہ قتل ہوئی اور یہ خودکشی ہی قرار دی جائے گی کیونکہ باپ محرم کی وجہ سے مصروف تھا اور تازہ شواہد کھو بیٹھا بہرحال خودکشی قرار دیتے وقت عدالت ثانیہ کو اپنے بطن میں پلتے بچے کے قتل پر دوبارہ پھانسی کی سزا ضرور سنائے کیونکہ تصویر صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اس نے صحیح طریقے سے پھانسی نہیں لی تھی۔
ہائے وہ سرزمین جہاں مردہ ماؤں کی جیتی کوک میں زندہ بچے مر جاتے ہیں۔ ماؤں کے بطن خدا نے زندگی دینے کو بنائے تھے یہاں بچوں کی لحد بننے لگے۔ اس لحد پر دو کتبے لگنے چاہئیں ایک ثانیہ زہرا کا دوسرا ثانی حسین کا۔ ہم کربلا کو روتے ہیں کربلا والے ہمیں روتے ہونگے۔