Mulana Fazal ur Rehman Ka Ghaibi Zariya e Muash
مولانا فضل الرحمن کا غیبی ذریعہِ معاش
اگر آپ جاننا چاہیں کہ اسلام نے ڈیڑھ ہزار سال میں تنزلی کا کتنا سفر طے کیا تو۔۔ اگر آپ اندازہ لگانا چاہیں کہ قرآنی آیات کو سیاق و سباق اور مفہوم تو کُجا ذاتی تصرف میں کیسے لایا جاتا ہے تو۔۔ اگر آپ معلوم کرنا چاہیں کہ اسلام اور مسلمان کی حساسیت کے موضوعات کے درمیان خلیج کتنی گہری اور کشادہ ہے تو اور اگر آپ جاننا چاہیں کہ اسلام کے نام پر قائم دو ریاستوں کے درمیان فرق تو کیا تضاد کتنا ہے تو آئیے ان دو واقعات کو ایک دوسرے کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
حضرت عمر رض کا نام سماعتوں سے ٹکراتے ہی ایک منظر نامہ ذہن میں ابھرتا ہے۔ جی ہاں۔ وہی مالِ غنیمت کی چادر والا واقعہ۔ بچپن سے منبرو محراب سے اس واقعے کا پرچار خصوصاً اس تناظر میں کیا جاتا ہے کہ مسلمان ذہنوں میں حکمرانی کا تصور واضح ہو سکے۔ ریاست و رعایا کے درمیان مالیاتی شفافیت کا نظام وضع کیا جائے۔ یہ اور اسطرح کے دوسرے واقعات مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے اپنے انتخابی و سیاسی بیانیے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اور لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال راسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ دراصل اس تصورِ حکمرانی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اور حکمران بن کر وہ انہی اقدار پر کار بند ہوں گے۔
ایک لمحے کو فرض کیجیے کہ حضرت عمر رض سے جب یہ سوال ہوا تھا کہ مالِ غنیمت میں سب کو ایک ایک چادر ملی تھی۔ جس میں جوڑا بننا ممکن نہ تھا تو آپ یہ جوڑا کیسے زیبِ تن کیے ہوئے ہیں۔ حضرت عمر نے جواباً کہا ہوتا کہ یہ تو اللہ کے غیبی ہاتھ کی کرامت ہے۔ واللہ یرزق من یشاء بغیر حساب۔ جب اللہ مجھے دو تہائی دنیا کی حکمرانی دے کر بے حساب رزق دیتا ہے تو تم کون ہوتے ہو حساب کرنے والے۔ تو ادب سے سوال ہے کہ کیا حضرت عمر کا نام و کردار اسلامی ریاست کے مالیاتی نظام میں بطورِ معیار کے لیے جاتا؟ اندازہ کیجیے کہ اپنے بارے میں یہ حدیث "کہ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا" سننے والے آدمی نے تو خود کو جوڑے کے حساب و احتساب کے لیے پیش کر دیا۔ لیکن اس اسلامی نظام کو پندرہ سو سال بعد اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں نافذ کرنے کا دعویٰ کرنے والے مولانا فضل الرحمن صاحب اس کے روادار نہیں۔ سما ٹی وی پر جگنو محسن صاحبہ کو انٹرویو دیتے ہوئے سوال "آپکا ذریعہِ معاش کیا ہے مولانا؟ کے جواب میں انہوں نے یہی کچھ کہا جو اوپر درج ہے۔ لا حولا ولا قوۃ۔
جی ہاں اسکا مطلب یہی ہے کہ جس "ھذا من فضل ربی " کے دعوے دار خدا کے نبی رسول اور اکابرین اسلام بھی نہیں تھے اسکے پر یقین دعوے دار آج کے ہمارے محترم مولانا فضل الرحمن جیسے علماءِ دین ہیں۔ جو حضرت عمر رض اس آیت کے نزول کے عینی شاہد تھے۔ وہ اسے اس دعویٰ کے استعمال کی جرات نہ کر سکتے تھے جو مولانا صاحب ایک بھرپور قہقہے کے ساتھ فرما رہے تھے۔ یاد رہے کہ مولانا صاحب نے اب کے حکمتِ عملی تبدیل کی وگرنہ پچھلی دفعہ اس طرز کے سوال پر ثنا بچہ صاحبہ کو اپنے مخالفوں کے پے رول پر قرار دیتے ہوئے سوال پر اعتراض کر دیا تھا ظاہر ہے حضرت عمر کا یہ وطیرہ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔
دراصل قرآن و حدیث کی تبلیغ و اشاعت میں علماءِ کرام کو سب سے بڑی جو خود ساختہ سہولت حاصل ہے۔ وہ یہی ہے کہ وہ انہیں انگریزی کے محاورے کے مطابق "پک اینڈ چوز" بھی کرتے ہیں اور اپنی ذات کے لیے استعمال بھی کرتے ہیں وگرنہ قرآن کی ایک آیت کہ "یا ایھالذین آمنو لما تقولون مالا تفعلون" کہ اے ایمان والو وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں؟ اسلامی تبیلغ و اشاعت کی روح ہے مگر اکثر اس روح سے خالی جسم ہیں جو اسکے خلا کو ظاہری دکھاوے کی چیزوں سے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دین کے نام پر سیاست کرنے والی کوئی جماعت اس بنیادی نفسیاتی پہلو کو نہیں سمجھتی کہ عام لوگ غیر مذہبی سیاستدانوں سے جو عملی و اخلاقی معیار توقع کرتے ہیں مذہبی سیاستدانوں سے اس سے کہیں زیادہ کی امید رکھتے ہیں اور یہی قول و فعل کا وہ تضاد ہے۔ جو ان جماعتوں کو کبھی بڑی وفاقی جماعت نہیں بننے دیتا اور پھر یہ لوگوں سے شکوہ بھی کرتے ہیں کہ لوگ اسلامی نظام کے لیے ووٹ نہیں دیتے، او بھیا جس نظام سے آپ خود کو بالاتر سمجھتے ہیں۔ اسے پچیس کروڑ پر کیسے نافذ کریں گے۔ آپ اجتماعی حیات میں حضرت عمر رض کا وہ نظام لائیں گے جسے انفرادی حیثیت میں خود پر لاگو نہیں کرتے۔ وہ اپنے تن پر پیوند زدہ جوڑے کا حساب دے رہے تھے۔ آپ اپنی پرتعیش زندگی کا ذریعہ بتانے سے قاصر ہیں اور خدا کی دین کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ اس سے واضح جواب تو ملک ریاض صاحب نے اپنی لازوال ترقی کا دیا تھا کہ میں اللہ کے فضل سے اپنی فائلوں کو نوٹوں کے پہیے لگا دیتا ہوں۔ ویسے عام لوگ اس موقع پر محترمہ جگنو محسن صاحبہ کی طرح سوال کرتے ہیں کہ ایسا بے حساب رزق خدا عام لوگوں کو کیوں نہیں دیتا جسکا ذریعہ معاش کوئی نہ ہو مگر فیوض و برکات لا متناہی۔
ازراہِ تزکرہ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ گاندھی جی سے جب حکمران کی سادگی کا پوچھا گیا تو انہوں نے حضرت عمر کی مثال دی اور مولانا صبح و شام جن یہودو نصاری اور انکی لابیوں کے نام پر سیاست کرتے ہیں۔ ان میں کہیں کسی کا صدر گھر چلانے کے لیے صدارت کے فوراً بعد نوکری کرتا پایا جاتا ہے تو کہیں وزیراعظم اپنے بیٹے کے علاج کے لیے اپنا گھر گروی رکھوا کر قرضہ لیتا۔
ویسے پاکستانی قوم کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے۔ ہم نے زرداری صاحب، میاں صاحبان اور خان صاحب تینوں کو آزما کے دیکھ لیا لیکن معیشت تھی کہ سنبھلنے کا نام ہی نہ لیتی اب ہمیں مولانا صاحب کی طرح واقعی ایک ایسے حکمران کی ضرورت ہے۔ جس پر غیبی ہاتھ سے معاشی امداد آتی ہو لیکن مسئلہ پھر وہی مرغے کی ایک ٹانگ کہ کہیں وزیراعظم بن کر مولانا اس آیت کا دوسرے والا مفہوم نہ کریں کہ اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ اب جسے چاہے میں عام لوگ نہ آتے ہوں تو اللہ کی مرضی۔ غیبی امداد عوام نہیں خواص ہی کا استحقاق ہوا کرتی ہے۔ عوام کے لیے صبر، محنت اور حق حلال کی آیات تھوڑی ہیں۔