Moseeqi, Halal Haram
موسیقی، حلال حرام
صبح سویرے کسی درخت کے نیچے کھڑے ہو جائیے۔ درخت میں فطرت کا ایک پیانو اور قدرت کا ایک ہارمونیم بج رہا ہوگا۔ قدرت کے اس مدھر ہارمونیم کے پردوں کا کردار باریک ننھی چونچیں ادا کر رہی ہوتی ہیں۔ پرندوں کی اس صدا کو آپ کیا نام دینگے؟
کبھی آپ نے ریت کے ٹیلوں میں ڈھلتی ہوئی شام میں روشنی کی فرقت کے غم میں ماتم کناں ہوا کی ہُوک سنی۔ قدرت کے اس وائلن کی آواز کو آپ کس نام سے یاد فرمائیں گے؟
پیپل کے درختوں میں اپنے گھونسلے پر کوے کے حملے کے نتیجے میں کوئل کے دل سے اپنے بچوں کے لیے نکلتی ممتا کی کوک میں کیا فطرت کی بانسری نہیں سنائی دیتی؟
پہاڑوں سے پھوٹتے چشمے چوٹیوں کی زلفیں بن کر لہراتے ہوئے جب چٹانوں کے سینے پر آ گرتے ہیں تو موجوں کی گونج قدرت کے طبلے کی جھنکار محسوس نہیں ہوتی تو اور کیا ہوتی ہے؟
ہر آسمان، ہر زمین کی ازلی محبت ہے۔ کیونکہ زمین کو یہ تصور کے آئینے میں ملتے ہوئے نظر آتا ہے پر یہ ملن سراب ہوتا ہے۔ زمین و آسمان ملے تو قیامت ہوگی۔ حرارت کے ہنگام پیاس کی شدت میں دہکتی زمین پر جب آسمان پیار سے نگاہ ڈالتا ہے تو اسکے دل سے عشق کی تمازت بادل بن کر اٹھتی ہے جزب کے ان لمحوں میں اسکی آنکھیں برسنے لگتی ہیں۔ جو بارش کہلاتی ہے۔ بے آب و گیاہ زمین اپنے غم میں اپنے محبوب کو روتا دیکھ کر اس پر فریفتہ ہونے لگتی ہے۔ بارش کی یہ ننھی بوندیں اسکے تن کو گدگداتی ہیں۔ تو زمین دھیمے سروں میں گنگنانے لگتی ہے۔ کبھی گھر کی کھڑکی کھول کر اس گیت کو سنیے گا۔ یہ فطرت کے عشق کی راگنی نہیں تو کیا ہے؟
غور فرمائیے گا۔ انسان اشرف المخلوقات اگر ہے تو کیوں ہے؟ یہ نائبِ یزداں کا تاج اسکے سر سجائے جانے کی کوئی تو وجہ ہوگی؟
چشمِ تصور سے وہ منظر ذہن کے کینوس پر لائیے کہ نہ جانے کب سے خدا کے عابد و زاہد فرشتے اسکی حمد و ثناء کرتے آ رہے ہیں کہ اچانک خدا ان کے سامنے ہماری صنف کے جدِ امجد جنابِ آدمؑ کو لا کھڑا کرتا ہے اور چند سوالات کیے جاتے ہیں فرشتے وہی کچھ لگا بندھا بتا پاتے ہیں جو انہیں عالم خدا نے بتایا ہوتا ہے مگر انسان اپنی عقل سے اس سے آگے بڑھ کر اختراع کرتا ہے اور وہ کچھ بھی بتاتا ہے جو خدا کے تفویض کردہ علم سے اس نے ماخوز کیا۔ اسی بنیاد پر وہ فرشتوں کا مسجود اور ان سے برتر گردانا جاتا ہے اور اسی برتری کو تسلیم کیے جانے سے انکار پر ابلیس راندہِ درگاہ ٹھہرتا ہے۔
قدرت، قادرِ مطلق کی تخلیقی صلاحیت ہے۔ کائنات اس صلاحیت کا جمالیاتی اظہار ہے۔ اوپر بیان کردہ قدرت کی تخلیقات میں ایک موسیقیت کا موجود ہونا کہیں ان نشانیوں میں سے ایک نشانی ہی تو نہیں جس پر خدا نے غور و فکر کا حکم دیا اور اگر ہاں تو اس موسیقیت کے علم کو پروان چڑھا کر اس میں اپنی عقل اور خدا کی مسخر کرنے کی صلاحیت کے استعمال سے اسے اپنی اوج پر لے جانا تو گویا قصہِ آدم و ابلیس کی روشنی میں انسان کی تخلیقی برتری ٹھہری۔ یہ تو خدا کی طرف سے عطا کردہ تخلیقی برتری ہی کی ارتقا کی ایک شکل ہے۔ چہ جائے کہ اسے حرام قرار دیا جائے۔
طالبعلم کی نگاہ میں انسان، جمالیاتی احساسات کی ایک ایسی فطرت پر پیدا ہوا جسے فطرت سلیم کہتے ہیں۔ خدا نے اپنے دین کا نام بھی وہی "اسلام یعنی سلامتی" رکھا۔ اور خدا نے اپنی نشانیوں پر غور و فکر اور تدبر کے بعد شعوری تسلیم و رضا کو ایمان کا نام دیا۔ اسکا مطلب انسان اپنی فطرت سے جڑے رہنے سے وہ جمالیاتی احساس اپنے اندر پیدا کر پاتا ہے جسکے بنا خدا پر ایمان (خدا کی اپنی بیان کردہ طریقت یعنی اسکی نشانیوں پر غور و فکر کر کے حاصل ہونے والا یقین) ممکن نہیں۔ تو فطرت میں موجود مندرجہ بالا مناظر میں"موسیقیت" تو قدرت کی ایک نشانی ہوئی۔ جو ہمیں اپنے عظیم موسیقار تلک لے جائے۔ آخر کو جانا تو وہیں ہے۔
(خدا مغفرت فرمائے پاکستان کے ایک عظیم دل و دماغ جناب پروفیسر مہدی حسن مرحوم کی کہ یہ مضمون انکے اہلیانِ مذہب کے سامنے بولے گئے ایک جملے کے نام "خدا کے نزدیک موسیقی حرام ہے تو پرندوں کی صداؤں سے موسیقیت کیوں ہے؟)