Mitti Aur Cement
مٹی اور سیمنٹ
انسان مٹی سے بنا ہے زندگی میں اسکا امتحان اپنی مٹی کو پتھر نہ ہونے دینا ہے۔ سیمنٹ سیمنٹ پتھر سے بنتا ہے۔ سیمنٹ فیکٹری میں کام کرنے والوں کا امتحان دوہرا ہے۔
سیمنٹ مٹی نہ بنے، جسم کی مٹی سیمنٹ نہ بن جائے۔ پتھر سے بنا سیمنٹ پانی سے مل کر پھر پتھر ہو جائے۔ مٹی کا دل لہو سے کھیلے پر پتھر نہ بنے۔
حیات وقت کی پگڈنڈی سے یادوں کے لمحے چننے کا نام ہے۔ دل کے پتھر نہ ہونے کی ایک علامت یادوں کا بسیرا بھی ہوتا ہے۔ کہیں لکھا تھا چار دہائیاں پوری ہو جائیں تو راہِ جیون پر انسان چلتا آگے ہے دیکھتا پیچھے کو۔ چلا کہاں سے تھا۔ آیا کہاں سے ہے۔ جانا کہاں ہے۔۔
خواجہ خرم صاحب سے بڑی اچھی یادیں وابستہ ہیں۔ انکی دعوت کی کال آئی کہ " سیمنٹ فیملی" کا ایک اکٹھ ہے اسلام آباد میں۔ یادوں میں گوندھے ہوئے خمیر کو اور چاہیے ہی کیا تھا۔ ایک نظم لکھنے کی فرمائش بھی کی۔ نظم کی خواہش کا اظہار راجہ و افتخارِ سیمنٹ انڈسٹری آف پاکستان پہلے ہی کر چکے تھے۔ میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کے کوآرڈینیٹر حکمت اللہ خان صاحب سے رابطہ کیا اور پچھلی اتوار کو یادیں تازہ کرنے کے سفر پر روانہ ہوئے۔
وہاں پہنچ کر یوں لگا کوئی ٹائم مشین راجہ صاحب گوروں کے دیس سے لے آئے ہیں۔ جسکی الیکٹریکل کی ذمہ داری خواجہ خرم صاحب اور عامر مشتاق صاحب کی ہے۔ اسکی مکینیکل کو عامر بلال صاحب اور اعجاز صاحب سنبھالے ہوئے ہیں۔ اسکی پروڈکشن کو فہیم صاحب، احمد عزیز بلوچ صاحب اور فخر شاہ صاحب یقینی بناتے ہیں۔ اسکی پلاننگ تابش صاحب کے زیرِ سرپرستی ہے۔ اسکی انسٹرومینٹیشن کو اسد شریف صاحب سنبھالے ہوئے ہیں۔ اسے چانڈیو صاحب اور اظہر صاحب چلاتے ہیں۔ اسکی سیفٹی کی نگہداشت فرحان صاحب کرتے ہیں۔ اسکی سپرویژن یاسر عباسی صاحب کے حوالے ہے۔ اسکی سٹور انوینٹری سہیل مصدق صاحب اور ملک نوید صاحب دیکھتے ہیں۔ اور یہ مشین سفر کرتے کرتے کوئی دو دہائیاں پیچھے جا کر کلرکہار کی پہاڑیوں میں ہمیں لے گئی جہاں ایک ٹاؤن حال میٹنگ کا منظر ہے۔ امر ردا صاحب اور طارق صاحب کا انتظار ہے۔ اوہو کیا سماں تھا کیا ہی یادگار سماں۔
اسلام آباد آئی 14 کے گولڈ کینیون شادی حال میں چمچاتی روشنیوں کے درمیان سامنے ایک چہرہ آتا اسکے عقب میں"پاکسیم" میں بتائی زندگی کے عہدِ عروج کی ایک دہائی کی فلم چلنے لگتی۔ یادوں کی فلم۔ میرا ماننا ہے کہ پچیس سے پینتیس سال زندگی کی عروج کی دہائی ہے۔ ڈھلوان کا سفر وہیں سے شروع ہوتا ہے۔ مختلف مشقوں سے کوئی اس چوٹی پر جتنی دیر ٹھہر سکے۔ حاصل اور بقا کی جنگ اپنی اپنی ہے۔
سٹیج پر میرا نام پکارا گیا۔ تو ٹائم مشین سے ایک لمحے کی سرعت میں مجھے لوٹنا پڑا۔ اگر وہیں رہتا تو سوچتا کہ شاید نام یوں پکارا گیا ہے کہ " انسٹرومنٹ شفٹ فلاں کمپلینٹ ہے جلدی پہنچیں۔۔ اور میں ٹول کٹ کی طرف لپکتا، ہیلمٹ پہنتا اور شفٹ روم سے نکلتا مگر وقت کے پلوں کے نیچے سے دو دہائیوں کا سیلِ رواں بہہ چکا تھا۔ مجھے سٹیج پر بلایا جا رہا تھا۔ ٹائم مشین کی کیفیات ہی سے بات کا آغاز ہوا اور پہنچا ایک نظم تک۔ "اسی سیمنٹ فیکٹریاں والے "۔ خدا کا شکر ہے پسند کرنے والوں کی نوازش کہ نظم کو سراہا گیا۔ جمالیات کے اظہار کی وہی جہت اچھی لگتی ہے جو قاری، سامع یا ناظر کو اپنے احساسات کی ترجمانی لگے۔ اور طالبعلم کی محض یہی کوشش ہوتی ہے۔ کامیاب ہو تو خوشی ہوتی ہے۔ پلانٹ واپسی پر بالمشافہ اور سوشل میڈیا پر اس نظم کو بہت پسند کیا گیا جسکے لیے میں آپ سب کا سپاس گزار۔
تابش صاحب کا خصوصی شکریہ کہ جنہوں نے اپنے ادبی ہنرکاری کےلحاظ سے پر لطف و باکمال خطاب میں اس اعتماد و ستائش سے نوازا جو دراصل میری ان طالبعلمانہ کاوشوں کا محرک ہے۔
عبد المجید چانڈیو صاحب نے بھی تمام سیمنٹ فیکٹریوں کے ناموں کے پہلے حروف سے بڑی خوب صورت "سیمنٹ فیملی" سی تیار کر رکھی تھی۔ سٹیج سیکرٹری صاحب نے خوب صورت انداز میں پورا پروگرام منعقد کروایا۔
اس یادگار و پروقار تقریب کے روحِ رواں راجہ افتخار صاحب نے آخر میں بہترین خطاب کے ذریعے سیمنٹ فیملی سے جڑی اپنی اور ہماری یادوں کو تازہ کیا اور تمام شرکاء کے لیے اظہارِ تہنیت کیا۔
اسکے بعد کھانے کا سیشن ہوا۔ چکن قورمہ، رشین سلاد، چائنیز چاول، مزیدار مکس سبزی اور لزیز آئس کریم کے ساتھ کھانا بہت شاندار تھا۔ اسکے سائینس کا شکریہ کہ جس نے ہر جیب میں یادیں محفوظ کرنے کا آلہ فراہم کیا۔ جی ہاں سٹیج پر عکس بندی کا سیشن اور پھر خدا حافظ۔
مختلف سیمنٹ پلانٹس سے جہاں بھائیوں جیسے پرانے ساتھیوں دوستوں سے ملاقات ہوئی وہیں اپنے پاکسم کے الیکٹریکل انسٹرومنٹ کے یاروں کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔ میپل لیف کے مشفق باس اور اچھے انسان جناب عامر مشتاق صاحب اور اپنے سینئیر اور پیارے آدمی اسد شریف صاحب سے ٹیبل شئیر کرنا یادگار رہا۔ خان صاحب سمیت یہاں"محنت میں عظمت ہے" کے کئی سفیر موجود تھے۔ خدا اور ترقی عظمت عطا فرمائے۔
"سیمنٹ فیملی" کے اس پہلے یادگار و شاہکار پروگرام کے انعقاد پر اس کے منصوبہ ساز راجہ افتخار صاحب، خواجہ خرم صاحب اور منتظمین کی پوری ٹیم کو ڈھیروں مبارکباد۔ ہمیں یادوں کی تازگی کا یہ موقع فراہم کرنے کا شکریہ۔ میں امید اور گزارش کرتا ہوں کہ اسے مزید موثر اور فائدہ مند بنانے کے لیے تجاویز اکٹھی کی جائیں۔ جن اقدامات کا راجہ افتخار صاحب نے اپنے خطاب میں ذکر کیا انہیں بروئے کار لا کر "سیمنٹ فیملی فورم" سیمنٹ انڈسٹری میں کام کرنے والے تمام لوگوں کے لیے ایک موثر، فعال اور مددگار پلیٹ فارم بن سکے جو ہر کسی کو اس امتحان میں مدد دے سکے کہ جہاں سے بات شروع ہوئی تھی کہ مٹی کا دل پتھر نہ ہو جائے اور پتھر کا سیمنٹ مٹی نہ بنے۔۔