Mazhabi Chulhon Ka Eindhan
مذہبی چولہوں کا ایندھن
طالبِ علم اپنی عمر کے چار عشرے پورے کر چکا۔ بچپن، لڑکپن، نوجوانی اور جوانی کی ان چار دہائیوں میں احساسِ کمتری کی نفسیات کی حامل ایک قوم کے فرد کی حیثیت سے جن باتوں سے سب زیادہ پالا پڑا وہ امریکہ کے گرد گھومتی ہیں۔ امریکہ کبھی دوست ہوتا ہے، کبھی دشمن، کبھی دجال، کبھی یہودی لابی کا آلہ کار، کبھی امریکہ کا یار غدار اور کبھی امداد دیتا ہمارا مددگار۔ پاک امریکہ تعلقات بھی میری عمر کے ان عشروں میں میری سوچ کی طرح بدلتے رہے۔ پیارا پاکستان اور میں جب دونوں بچپن میں تھے (جس سے میں اکیلا ہی نکلا) تو ہم امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں جہاد کر رہے تھے۔
جنرل ضیاالحق کیونکہ ایک پرہیز گار (آئینِ پاکستان سے پرہیز) تھے۔ اس لیے انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ مل کر ایک مائینڈسیٹ ترتیب دیا جسے سمجھنے کے لیے اور بھی نابغے ہیں لیکن بہترین نام سب سے زیادہ تضادات سے بھرپور بیانیے کو سب سے زیادہ اعتماد سے بیان کرنے والے اوریا مقبول جان صاحب ہیں۔ اس مائینڈ سیٹ نے اس وقت آیات و احادیث کی مدد سے پوری مسلم امہ کو یہ یقین دلایا کہ امریکہ نصاری کا ملک ہے یہ اہلِ کتاب مسیحیوں کا ملک ہے اور سوویت یونین یعنی روس لادین قوتیں ہیں جنہوں نے افغانستان پر حملہ کر دیا ہے اور انکا اگلا ہدف پاکستان ہے۔
المختصر یہ کہ اس وقت امریکن فنڈز جہاد کے نتیجے میں امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا کیونکہ افغانستان میں شکست سویت یونین کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ امریکہ نے وہی کیا جو 1971 میں پاکستان ٹوٹنے کے وقت کیا جب ہم ان کے بحری بیڑے کا انتظار کرتے رہے اور وہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش ماننے کی تیاری۔ اگلا عشرا میرے لڑکپن کا تھا جس میں ہم امریکہ سے بے وفا صنم کا گلہ بھی کرتے رہے۔ افغان وار کے نتیجے میں اپنی معیشت اور معاشرت پر پڑنے والے بارودی اثرات کا رونا بھی روتے رہے۔ اور اوریا مقبول جان مائینڈ سیٹ نے ہمیں یہ بتانا شروع کر دیا کہ "ہم وفا کر کے بھی تنہا رہ گئے "۔
پھر اسکے بعد مشرف صاحب تشریف لائے اور 9/11 ہو گیا۔ امریکہ جن جہادیوں کی مدد سے دنیا کی واحد سپر پاور بنا تھا اگلا تمام عشرہ انہیں دہشتگرد ثابت کر کے دنیا کو ان سے بچانے کے لیے انکے خلاف War Against Terrorلڑتا رہا۔ اور پاکستانی فوج کی کمان بھی اب کسی مردِ مومن مردِ حق نہیں ایک Enlightend Moderatorکے ہاتھ میں تھی جو کہ موجودہ وزیراعظم صاحب کو بغیر داڑھی کا دہشتگرد کہتے تھے۔ اس دور میں اوریا مقبول جان مائینڈ سیٹ ایم ایم اے ٹائپ کی چھتری میں ہلکی پھلکی موسیقی کا قائل رہا۔
ایم ایم اے کی قیادت وہ مولانا فضل الرحمٰن کر رہے تھے جو مشرف اور امریکہ کے خلاف بڑھکیں بھی مارتے تھے اور مشرف صاحب کو دوسری دفعہ باوردی صدر بنانے میں مدد بھی کرتے تھے۔ اور مشرف صاحب کو 10 بار باوردی صدر بنانے والے پرویز الہٰی صاحب کی ق لیگ کے بلوچستان میں حکومتی حلیف بھی تھے۔ مشرف دور کیا تھا؟ اس کا اندازہ ایک واقعے سے لگائیے کہ ایک ٹی وی پروگرام میں مشرف صاحب سے سوال ہوا کہ آپ کی کتاب کے صفحہ نمبر فلاں پہ لکھا ہے کہ آپ نے پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کرنے کے بدلے اتنے ڈالر لیے۔ تو مشرف نے کہا، کہاں لکھا ہے؟ تو اس لڑکے نے وہ کتاب پیش کر دی تو پاکستان کو امریکی کالونی بنانے والے کمانڈو صدر صاحب نے کہا I don't know۔
اگلا عشرہ اس جنگ میں آمرانہ فیصلہ سازی کا خمیازہ بھگتنے اور rehabilitationیعنی پھر سے آبادکاری کا تھا اوریا مقبول جان مائینڈ سیٹ افغانستان میں امریکی انخلاءکو پاکستان اور افغانستان کی فتح قرار دیتے ہوئے لوگوں کو باور کرانے لگا، کہ دیکھا میں نہ کہتا تھا؟ میرے جیسے لوگ جنہیں پیروں کے آبلے ہجوم کی طرف بھاگنے نہیں دیتے اور ہاتھوں کے چھالے تالیاں نہیں بجانے دیتے۔ یہ سوچتے رہے کہ اپنے ملک میں ستر ہزار نئی قبریں بنا لینا کیا کامیابی ہے؟ کیا امریکہ سے دو سال قطر میں معاہدے کر کے اس "اسلام کے دشمن" کو افغانستان سے بحفاظت نکال کر اس کی شکست کی منادی کرنا اور پھر اسی سے اپنے لوگوں کی بھوک مٹانے کے لیے امداد کا مطالبہ کرنا کامیابی ہے؟
بحرحال پہلے کون سا زندگی کی کتاب میں سب سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں؟ یہاں تو زندگی خود ایک سوال ہے، بلکہ سوالی۔
اوریا مقبول جان صاحب نے سقوطِ ڈھاکہ کے ہنگام ایک بڑی دلچسپ بات کی اور کہا کہ پاکستان کے دو ٹکڑے کرنا اللہ کی بہت بڑی ایک حکمت اور مشیت تھی تا کہ پاکستانی فوج مغربی پاکستان میں یکسو ہو کر غزوہءِ ہند لڑ سکے اور ہندوستان کو شکست دے سکے۔ یہاں پھر ذہن کو کئی سوالات کچوکے لگانے لگے کہ کہ اوریا مقبول جان مائینڈ سیٹ تو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کی فوج نے دجال کی فوج کو عالمی محاذوں پر شکست دینی ہے اور یہ تو اپنے ایک حصے کو اس لیے دشمن کے سامنے سرنڈر کر گئے کہ یکسوئی حاصل نہیں ہوتی۔ تو کیا جو جو کچھ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ میں خون کے آنسو روتے پڑھا تھا وہ بھی اللہ کا حکم ہے۔
جس دن اوریا مقبول جان صاحب پاکستان میں بیٹھے یہ پروگرام کر رہے تھے۔ بھارت میں نریندر مودی صاحب خود کو 71 کی جنگِ آزادی کا ایک سپاہی قرار دے کر اظہارِ تفاخر کر رہے تھے۔ اوریا مقبول جان صاحب سے پوچھنا صرف یہ ہے کہ جیسا کہ آپ نے کہا کہ اللہ نے 71 کی جنگ میں خاص حکمت کے تحت پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔ تو اسی اللہ نے بھارتی فوج کی نصرت کیسے فرمائی جس نے غزوہ ہند میں ہماری مدد کرنی ہے؟ اب وہ لوگ کہاں جائیں جو یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ 65 کی جنگ میں اللہ فرشتے بھیجتا ہے؟ اور پاکستان کی حفاظت فرماتا ہے اور وہی اللہ اوریا مقبول جان مائینڈ سیٹ کے بقول 71 میں پاکستان کو ایک خاص مقصد کے تحت دو ٹکڑے کر دیتا ہے، انج کنج۔
آپ یقین کریں سانحہ ریمنڈ ڈیوس کے بعد سے مجھے بہت قلق ہے پاکستانی حکمرانوں کے پاکستان کو امریکہ کی ایک چراگاہ بنا دینے پر۔ مجھے ذاتی طور پر بڑی خوشی تھی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک خود مختاری کا عنصر آہستہ آہستہ سامنے آنے لگا۔ جسکا آغاز پچھلے دور میں پاکستان کے چین پر زیادہ سے زیادہ انحصار اور پاک چائینہ اکنامک کوریڈور وغیرہ جیسے منصوبوں سے ہوا۔ جسے موجودہ دور میں بڑھا کر روس تک لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ بہت اچھا ہے کہ ملک اپنے قومی مفادات میں فیصلے کریں۔ ایک ملک کے دوسرے ملک کے ساتھ معاملات میں برابری کا تاثر جائے۔
اور سب سے بڑھ کر پاکستان اس ممکنہ شفٹ کے نتیجے میں آنے والے ہر طرح کے اثرات اور ردعمل (جیسا کہ نیشنل بینک پر 55 ملین ڈالر کا جرمانہ ہوا) سے نمٹنے پر مکمل ہوم ورک کے ساتھ آگے بڑھے۔ فیٹف اور دیگر اس طرح کے معاملات پر مکمل غور کرے۔ خارجہ پالیسی محض شلوار قمیض، پشاوری چپل، تسبیح، ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کے بیٹھنا، پرچی کے بغیر اچھی انگریزی کی تقریر اور شہباز گل صاحب کی ظہر، عصر کی نمازوں کی ادائیگی کی ٹویٹس سے محض شخصی image makingکی بجائے ایک 22 کروڑ کی ایک قوم کے اجتماعی مفادات کا تحفظ کرتی باقاعدہ ایک مربوط اور مضبوط حکمتِ عملی نظر آئے۔ لیکن، جی ہاں یہاں بھی ایک بہت بڑا لیکن آڑے آ گیا اور وہ وہی اوریا مقبول جان مائینڈ سیٹ ہے۔
اوریا مقبول جان صاحب نے عمران خان صاحب کے روس کے دورے کو ایک بار پھر مذہبی تقدس میں ملفوف کرنا شروع کر دیا۔ وہی مذہبی تقدس جسے اس درماندہ ملت نے اوپر بیان کردہ عشروں کی کہانی میں نسل در نسل سہا اور غضب اس بار یہ کہ اب کی بار انہوں نے تختہءِ مشق قرآن پاک کو بنایا ہے۔ ان کے اپنے الفاظ کے مطابق "میں حدیث نہیں سنا رہا کہ کوئی شک کرے میں قرآن کی آیات بتا رہا ہوں "۔ میں تو محض ایک عام سے بھی عام طالب علم ہوں۔ لیکن بھلا ہو جناب خورشید ندیم صاحب جیسے اہلِ علم و بصیرت کا جنہوں نے بہترین علمی و فکری استدلال کرتے ہوئے یہ استدعا کی کہ خدارا قرآن کو بخش دیجیے کہ یہ ہدایت کی کتاب ہے سیاست کی نہیں۔
اپنے مفادات کا تحفظ کرتے بیانیے کے تضادات چھپانے کے لیے 75 سال سے جاری حربے کیا کم پڑ گئے کہ قرآن کی باری آ گئی۔ وہ تضادات بھرا بیانیہ جو اس بنیادی سوال کا جواب دینے سے ہی قاصر ہے کہ امریکہ کے لیے اسلام اور جہاد کو استعمال کرنے کے لیے امریکہ نصاری اور روس لا دین ہوتا ہے پھر آج راقم الحروف کے اس عمر تلک پہنچنے تک روس نصاری اور امریکہ لا دین کیسے ہو گیا؟ اور اگر پاک چین تعلقات کو مذہب سے ثابت کرنا پڑ گیا تو کیا ہوگا؟
اوریا مقبول جان مائینڈ سیٹ سے میری بھی ہاتھ جوڑ کر استدعا ہے کہ خدارا اب بہت ہوئی۔ "افلا یتدبرون " کے دین کو جزباتی نعروں کی گونج میں ملفوف تضادات سے بھرپور مذہبی تفہیم کے تقدس میں اب اور مت ملفوف کیجیے۔ کیونکہ ایسا کرنے کا پتا قوم کو انہی یہودو نصاری کے ملکوں سے آنے والے سوئس سیکرٹس سے چلتا ہے۔ لیکن اس وقت تک کئی عشرے بیت چکے ہوتے ہیں۔ ایک پوری نسل کی زندگی مذہبی چولہوں کا ایندھن بن چکی ہوتی ہے۔