Mamta Ka Raj
ممتا کا راج
اب تک کی حیات کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ نفرت ایک بیوپار ہے۔ بیوپاری اپنے اپنے معاشی مفادات کے لیے مذہب اور سیاست کو استعمال کرکے دلوں میں اسکے بیچ بوتے ہیں۔ جوشِ خطابت سے لہو گرما کر اسے سیراب کرتے ہیں اور ثمر کے طور پر سروں کی فصل کاٹتے ہیں۔
دنیا میں سب سے بڑی بہار محبت کی ہے۔ اسکے باغبان صیادوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔ مگر اپنی باغبانی کبھی ترک نہیں کرتے۔ نفرت کی خزاؤں میں انہیں محبت کی ایک کلی ہی پیامِ بہار لگتی ہے۔ الفت کی ایک تتلی ہی چمن میں جوبن کی پیامبر دکھائی دیتی ہے۔ پیار کا ایک ٹمٹماتا جگنو ہی انہیں نفرت کے اندھیروں کے خلاف محبت کا فاتح علمبردار نظر آتا ہے۔
ہمارے خطے میں بھی نفرت ایک سیاسی و مذہبی بیوپار ہے۔ نفرتوں کے سوداگر تقسیم سے لے کر آج تک محبت پر ضرب لگا کر پیار کو منفی کرکے امن پر انسانیت کو جمع ہونے نہیں دیتے۔ یہی نفرت و حقارت کے ان تاجروں کا حساب و ریاضی ہے۔ کم علمی کی گود سطحی سی جزباتیت کی بہترین آماجگاہ ہوتی ہے۔ اس لیے انہیں جزباتی افراد بکثرت میسر آجاتے ہیں جو اس بیوپار کا ایندھن بنتے ہیں۔ علم گہرائی لے کر آتا ہے۔ ٹھہراؤ پیدا کرتا ہے۔ انسان میں تدبر کی اہلیت پیدا ہوتی ہے تو ان سوداگروں کی دال نہیں گلتی۔
ارشد ندیم نے ایک جیولن کی نوک پر ساری قوم کو اکٹھا کر دیا۔ یہ بہت بڑا اعزاز ہے جوان کا۔ ایک مضمون میں لکھا تھا کہ خوشیوں کے صیاد نے ہم سے اجتماعی خوشیاں چھین لیں۔ ارشد نے اپنے زورِ بازو سے مدت بعد ایک قومی مسرت کا اہتمام کیا۔ مبارکباد تو بنتی ہے۔
مگر طالبعلم کی نگاہ میں اس خطے میں اصل اولمپکس مقابلہ اس کے بعد شروع ہوا۔ جن دو ماؤں کے بیٹے اولمپکس 2024 میں جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں شریک تھے۔ ہندوستان کے نیرج چوپڑا اور فخرِ پاکستان ارشد ندیم۔ نیرج کو ملا چاندی کا تمغہ تو ارشد نے اولمپکس میں پاکستان کے لیے واحد طلائی تمغہ جیت کر مدت بعد کوئی اجتماعی خوشی قوم کو عطا کی۔ ان دونوں ماؤں نے اصل مقابلہ جیتا۔
کیمرہ اور مائک جب نیرج کی والدہ محترمہ کے پاس تاثرات کی جانکاری کے لیے پہنچا تو کہنے لگیں"ارشد بھی میرا ہی بیٹا ہے اس نے اپنی محنت سے سونے کا تمغہ جیتا۔ اسے مبارک ہو"۔ اسکے بعد جب یہاں پر ارشد کی والدہ محترمہ کی باری آئی تو کہنے لگیں"نیرج میرے بیٹے کا دوست ہے میں اس کے لیے اللہ سے دعا کرتی ہوں اگلی بار اسے سونے کا تمغہ ملے"۔ سو دو بوڑھی عورتوں نے اولمپکس 2024 جیت لیا ہے۔
دو بوڑھی عورتوں نے نیزے اٹھائے اور سرحد نام کی سرخ لکیر کے دونوں اطراف زمین پر سیاسی بیوپار کے لیے بکھری پڑی عصبیت، نفرت اور حقارت کو اپنے اپنے نیزے کی انی پر پرویا اور اتنی دور پھینک دیا کہ یہ مائیں اپنے بیٹوں سے بھی آگے نکل گئیں۔ ان دونوں میں سونے چاندی کی تخصیص انسانیت کی توہین ہے۔ ان دونوں ماؤں کو قدرت نے سونے کے میڈلز سے نوازا اور وہ میڈلز ظاہری نہیں باطنی ہیں۔ وہ میڈلز انکے دل ہیں۔ انکے خوب صورت دل۔
کاش کہ اس خطے میں ان ماؤں کی حکمرانی ہو۔ انکی ممتا کا راج ہو۔ انکے فلسفے کی حکومت ہو۔ سرحد بیچ میں ایک انتظامی لکیر ہو تو ہو، دلوں کے درمیان نفرتوں کی لکیریں نہ ہوں۔ سوچوں میں بغض و عناد کی دیواریں نہ ہوں۔ انسانی رویوں میں عصبیتوں کے بند نہ ہوں۔ یہاں کھیلوں کے مقابلے ہوں۔ جنگوں کے نہیں۔
ذرا تصور تو کیجیے کہ ان دو عظیم ماؤں کے فلسفے سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے ذریعے نیزوں کی انی پر غربت، جہالت، شدت پسندی، بھوک، افلاس اور احتیاج پر پرو کر اتنی دور پھینک دیا جائے کہ یہ خطہ انسانیت، محبت، پیار اور امن و آشتی کا ایک گہوارہ بن جائے۔ یہاں دونوں اطراف کی مائیں دونوں اطراف کے بیٹوں بیٹیوں کے بارے کہیں کہ وہ بھی ہمارے ہی بچے ہیں اور یہ فلسفہ انکی تربیت کے ذریعے یہاں کے بیٹوں بیٹیوں کے ذہنوں میں راسخ ہو جائے۔ کسی نے خوب لکھا کہ "اگر یہاں کی حکمرانی ماؤں کے پاس ہو تو یہاں کبھی جنگیں نہ ہوں"۔۔ ان ماؤں کو سلام۔ انکے فلسفے پر ایک نظم۔۔
ممتا کا راج
نیرج کی ماں نے یہ کہا
ارشد بھی ہے میرا بیٹا
ارشد کی ماں نے بولا
نیرج بھی ہے لعل میرا
نیرج نے اور ارشد نے
بے شک جیتے ہیں تمغے
اپنی اپنی ملت کو
یہ اعزاز جی ہیں بخشے
پر دونوں کی ماؤں نے
انکی خوب دعاؤں نے
نفرت کے ان نیزوں کو
پھینک کے بیٹوں سے بھی دور
روشن شمعِ الفت کرکے
دے کے محبت کا اک نور
قسم سے دل ہی جیت لیا
کیا ہی معرکہ سر ہے کیا
کاش ہمارے خطے پر
دھرتی کے اس حصے پر
ان دو ماؤں کا ہو راج
انکے سر پر ہو یہ تاج
امن کی خاطر کبھی زمیں
اس خطے میں تنگ نہ ہو
یہاں پہ کوئی جنگ نہ ہو